رسول اللہﷺکاحج
الحمد لله وحده’والصلاة والسلام علي عبده ورسوله نبينا محمد’وعلي آله واصحابه ومن تبعهم باحسان الي يوم الدين
میں اللہ تعالیٰ سےدعاکرتاہوں کہ وہ ہمیں اورآپ کواپنی رضاکےمطابق عمل کرنےکی توفیق عطافرمائے،گمراہ کن فتنوں سےمحفوظ رکھے۔میں اللہ تعالیٰ سےیہ بھی دعاکرتاہوں کہ وہ تمہیں اس طرح کےمناسک حج کےاداکرنےکی توفیق عطافرمائےجس طرح اسےپسندہو،تمہارےحج کوشرف قبولیت سےنوازےاورتمہیں اپنےاپنےملکوں میں صحت وسلامتی اورتندرستی کےساتھ واپس جانےکی توفیق عطافرمائے۔
اےمسلمانو!میری تم سب کےلئےوصیت یہ ہےکہ تمام حالات میں تقویٰ اورخشیت الہٰی کواختیارکرو،اس کےدین پراستقامت کےساتھ عمل کرواوراس کےغضب اورناراضگی کےاسباب سےبچو۔اہم فرائض اوراعظم واجبات میں سےسرفہرست اللہ تعالیٰ کی توحیداورتمام عبادات میں اسی کےلئےاخلاص ہےاوراس کےساتھ ساتھ تمام اقوال واعمال میں رسول اللہﷺکی سنت کااتباع بھی پیش نظررہے،تمام مناسک حج اورتمام عبادات کواس طرح اداکیاجائے،جس طرح انہیں اداکرنےکااللہ تعالیٰ نےاپنےرسول وخلیل نبیناوامامناوسیدنامحمد بن عبداللہﷺکی ذبانی حکم دیاہےاسی طرح سب سےعظیم منکراورسب سےخطرناک جرم اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کےساتھ شرک ہے۔شرک کےمعنی یہ ہیں عبادت یاعبادت کےکچھ حصےکوغیراللہ کےلئےانجام دےدیاجائے،یہ ناقابل معافی جرم ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء۱۱۶/۴)
‘‘یقینااللہ تعالیٰ اس گناہ کونہیں بخشےگاکہ کسی کواس کاشریک بنایاجائےاوراس کےسوا (ہرگناہ) جس کوچاہےبخش دےگا۔’’
اللہ تعالیٰ نےاپنےنبی حضرت محمدﷺکومخاطب کرتےہوئےفرمایا:
﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (الزمر۶۵/۳۹)
‘‘اور (اےمحمدﷺ) تمہاری طرف اوران (پیغمبروں) کی طرف جوتم سےپہلےگذرچکےہیں یہی وحی بھیجی گئی ہےکہاگرتم نےشرک کیاتوتمہارےعمل بربادہوجائیں گےاورتم زیاں کاروں میں ہوجاؤگے۔’’
اےبیت اللہ الحرام کےحجاج کرام!ہمارےنبی کریم حضرت محمدﷺمدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد اپنی حیات کے آخرمیں صرف ایک ہی حج کیا ہے جسے حجۃ الوداع کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ،اسی حج میں آپ ؐنے اپنے قول وعمل کے ساتھ مناسک حج کی تعلیم بھی دی اوریہ ارشاد بھی فرمایاکہ:
( (خذوا عني مناسككم) )
‘‘لوگو!تم مجھ سے حج کے احکام سیکھ لو۔’’
لہذاتمام مسلمانون پر واجب ہے کہ وہ حج کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺکے اسوہ کو پیش نظر رکھیں اورمناسک حج اس طرح اداکریں جس طرح انہیں اداکرنے کا
رسول اللہﷺنے حکم دیا ،آپؐ ہی معلم ومرشد ہیں،اللہ تعالی نے آپؐ کو رحمۃ للعالمین اورتمام بند گان الہی کے لئے حجت بناکر مبعوث فرمایا ہے لہذا اللہ تعالی نے تمام بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کے رسول کی اطاعت کریں کیونکہ آپؐ کی اتباع واطاعت ہی جنت میں جانے اورجہنم سے بچنے کا سبب ہے۔رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اس بات کی دلیل ہے کہ بندوں کو اپنے رب سے سچی محبت ہے،نیز یہ اللہ تعالی کی اپنے بندے سے محبت کی علامت بھی ہے ۔ارشادباری تعالی ہے:
﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۖ إِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾ (الحشر۷/۵۹)
‘‘جو (چیزحکم) تم کوپیغمبر (ﷺ) دیں وہ لےلواورجس سےمنع کریں (اس سے) بازرہو۔’’
نیزفرمایا:
﴿وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ﴾ (النور۵۶/۲۴)
‘‘اورنمازپڑھتےرہو،زکوٰۃدیتےرہواور (اللہ کے) رسول (ﷺ) کےفرمان پرچلتےرہوتاکہ تم پررحمت کی جائے۔’’
اورفرمایا:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ﴾ (النساء۴/۸۰)
‘‘جس شخص نے رسول کی فرماں برداری کی بے شک اس نے اللہ کی فرماں برداری کی۔’’
اورفرمایا:
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا﴾ (الاحزاب۲۱/۳۳)
‘‘یقینا تمہارے لئے رسول اللہ کی ذات میں عمدہ ( بہترین) نمونہ موجود ہے، (یعنی) ہراس شخص کے لئے جسےاللہ (سے ملنے) اورروزقیامت (کےآنے) کی امید ہواوروہ اللہ کا ذکر کثرت سے کرتا ہو۔’’
اورفرمایا:
﴿وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ﴾ (النساء۴/۱۳۔۱۴)
‘‘اور جو شخص اللہ اوراس کے رسول (ﷺ) کی فرمان برداری کرےگا،اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرےگا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں۔وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور (یہ) بہت بڑی کامیابی ہے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرےگااوراس کی حدوں سے نکل جائےگا اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں ڈالےگاجہاں وہ ہمیشہ رہےگااوراس کو ذلت کا عذاب ہوگا۔’’
نیزفرمایا:
﴿قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (الاعراف۱۵۸/۷)
‘‘ (اے محمد ﷺ!) کہہ دیجئے کہ لوگو!میں تم سب کی طرف اللہ تعالی کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) وہ جو آسمانوں اورزمین کابادشاہ ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہی زندگانی بخشتا ہے اوروہی موت دیتا ہےتواللہ اس کےرسول،پیغمبر امی پرایمان لاوجواللہ اوراس کے تمام کلام پر ایمان رکھتے ہیں،اورتم ان کی پیروی کروتاکہ ہدایت پاو۔’’
مزید فرمایا:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ﴾ (آل عمران۳/۳۱)
‘‘ (اے پیغمبرلوگوں سے) کہہ دیجئے کہ اگرتم اللہ سےمحبت کرتے ہوتومیری پیروی کرو،اللہ بھی تم سے محبت کرے گااورتمہارے گناہ معاف کردے گا۔’’
اس مضمون کی اوربھی بہت سی آیات ہیں لہذا آپ کے لئے اوراپنے لئے میری یہی وصیت ہے کہ تمام حالات میں تقوی الہی کو اختیار کیا جائے اورصدق دل کے ساتھ اس کے نبی حضرت محمد ﷺکے اقوال وافعال کی اتباع کی جائے تاکہ دنیا وآخرت کی سعادت ونجات حاصل کی جائے!
اے بیت اللہ الحرام کے حجاج کرام!جب ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ تھی توہمارے نبی کریم حضرت محمد ﷺمکہ مکرمہ سے منی کی طرف لبیک کہتے ہوئے ۔روانہ ہوئے آپ ؐ نے حضرات صحابہ کرام کے لئے رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ اپنی رہائش گاہوں سے حج کا احرام باندھ لیں اورمنی کی طرف روانہ ہوں ،آپؐ نے انہیں طواف وداع کا حکم نہیں دیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ سنت یہ ہے کہ جو شخص حج کا ارادہ کرے خواہ اس کا تعلق اہل مکہ سے ہویا ان لوگوں سے جو مکہ میں باہر سے آکر مقیم ہوں ،یا عمرہ کا احرام کھول کر حلال ہونے والوں سے یا دیگر حجاج کرام سے ہو وہ آٹھ تاریخ کو حج کا تلبیہ پڑھتے ہوئے منی کی طرف روانہ ہو،اسے کعبہ کے طواف وداع کے لئے مسجد حرام میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔
مسلمان کے لئے یہ محستب ہے کہ حج کا احرام باندھتے وقت بھی اسی طرح غسل خوشبو اورصفائی کا اہتمام کرے،جس طرح میقات سےاحرام باندھتے وقت کیا تھا
نبی کریمﷺنے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اسی طرح حکم دیا تھا جب انہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا لیکن مکہ میں داخلہ کے وقت ان کے ایام شروع ہوگئے اورمنی کی طرف جانے سے پہلے ان کے لئے طواف مشکل تھا،تورسول اللہ ﷺنے انہیں حکم دیا کہ غسل کر کے حج کا احرام باند ھ لیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیاتو ان کا یہ حج قران ہوگیا۔
رسول اللہ ﷺاورحضرات صحابہ کرام کے لئے رضی اللہ عنہم نے ظہر ،عصر ،مغرب،عشاء اورفجر کی نمازیں منی میں ادافرمائیں ،ان نمازوں کو قصر تو کیا لیکن انہیں جمع کرکے نہیں بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت پر اداکیا تورسول اللہ ﷺکے اسوہ پر عمل کی وجہ سے سنت یہی ہے کہ اس دن نمازوں کو قصر لیکن جمع کے بغیر اداکیا جائے۔حاجیوں کے لئے اس سفر میں مسنون یہ ہے کہ وہ تلبیہ ،اللہ عزوجل کے ذکر،قرآن مجید کی تلاوت اورنیکی کے دیگر کاموں مثلا دعوت الی اللہ ،امر بالمعروف ،نہی عن المنکر اورفقراء کے ساتھ احسان وغیرہ میں مشغول رہیں۔جب عرفہ کے دن سورج طلوع ہو اتونبی کریمﷺاورحضرات صحابہ کرام کے لئے رضی اللہ عنہم عرفات کی طرف روانہ ہوئے کچھ لوگوں کی زبان پر تلبیہ تھا اور کچھ تکبیرات پڑھ رہے تھے جب آپؐ عرفات پہنچے توآپؐ بالوں سے بنائے گئے ایک قبہ میں فروکش ہوئے جوخاص طورپر آپؐ کے لئے لگایا گیا تھا۔نبی علیہ الصلوۃوالسلام نے اس کے سائے سے استفاوہ کیا تومعلوم ہوا کہ حاجیوں کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ خیموں اوردرختوں کے سائے سے استفادہ کریں۔
جب سورج ڈھل گیا تو نبی علیہ الصلوۃوالسلام اپنی سواری پر سوار ہوئے لوگوں کو آپؐ نے خطبہ دیا ،انہیں وعظ ونصیحت کی ،مناسک حج سکھائے ،سوداور اعمال جاہلیت سے ڈرایا اورانہیں بتایا کہ ان کے خون ،مال اورعزتیں ان پر حرام ہیں۔آپؐ نے اللہ کی کتاب اوراس کے رسول کی سنت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا اورفرمایا کہ جب تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺکو مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔تمام مسلمانوں پر یہ واجب ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺکی اس وصیت پر عمل پیرا ہوں،جہاں کہیں بھی ہوں اس پر عمل کریں،خصوصا مسلمانوں کے تمام حکمرانوں پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لیں اورتمام امورومعاملات میں انہیں کے مطابق عمل کریں،اپنی اپنی قوموں سے بھی ان کے مطابق عمل کرائیں کیونکہ دنیا وآخرت میں عزت ،سربلندی ،سعادت اورنجات کی یہی راہ ہے۔اللہ تعالی ہم سب کو اس راہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے!
پھر آنحضرت ﷺنے لوگوں کو میدان عرفات میں ظہر وعصر کی نمازیں قصروجمع ۔۔۔جمع تقدیم۔۔۔کے ساتھ ایک اذان اوردواقامتوں سے پرھائیں ،پھر آپؐ موقف کی طر متوجہ ہوئے اورقبلہ رخ ہوکر اپنی سواری پر کھڑے ہوکر اللہ کا ذکر کیا اورہاتھ اٹھا کر دعا کی حتی کہ سورج غروب ہوگیا،اس دن آپؐ نے روزہ بھی نہیں رکھا ہوا تھا تو اس سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کے لئے شرعی حکم یہی ہے کہ وہ اسی طرح کریں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے عرفات میں کیا تھا اللہ کے ذکر ،دعا اورتلبیہ میں غروب آفتاب تک مشغول رہیں ،دعا ہاتھ اٹھا کرکریں اوراس سن روزہ بھی نہ رکھیں ۔صحیح حدیث سے ثابت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ‘‘جس طرح اللہ تعالی کثرت کے ساتھ عرفہ کے دن لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اسی طرح کسی اوردن اللہ تعالی کثرت سے آزاد نہیں کرتا،اس دن اللہ تعالی اپنے بندوں کے بہت قریب ہوجاتا ہےاوران کی وجہ سے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر کا اظہار فرماتا ہے ۔’’ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺنےفرمایاکہ عرفہ کے دن اللہ تعالی اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ ‘‘میرے بندوں کی طرف دیکھو!یہ میرے پاس پراگندہ حال اورغبارآلودآئے ہیں،یہ میری رحمت کے امیدوار ہیں لہذا میں تمہیں گواہ بنا کر یہ کہتا ہوں کہ میں نے اپنے ان بندوں کے گناہوں کو معاف کردیا ہے۔’’صحیح حدیث سے یہ بھی ثابت ہے آپؐ نے فرمایاکہ‘‘میں یہاں کھڑا ہوا ہوں لیکن ساراعرفہ موقف ہے۔’’
غروب آفتاب کے بعد رسول اللہ ﷺتلبیہ پڑھتے ہوئے مزدلفہ کی طرف روانہ ہوئے ،وہاں آپؐ نے مغرب کی تین اورعشاء کی دورکعتیں پڑھیں،دونوں نمازوں کے لئے اذان ایک مگر اقامتیں دوتھیں ،مزدلفہ ہی میں آپؐ نے شب بسر فرمائی ،نماز فجر بھی آپؐ نے یہاں ادافرمائی ،فجر کی دو سنتیں بھی پڑھیں ،اذان بھی ایک اوراقامت بھی ایک تھی ،پھر آپؐ مشعر کے پاس تشریف لے آئے ،یہاں آپؐ نے اللہ کا ذکر کیا ،تکبیر وتہلیل اوردعا میں مصروف رہے ،دعا ہاتھ اٹھا کرمانگی اورفرمایا کہ ‘‘میں یہاں کھڑا ہوا ہوں اور ساراعرفہ موقف ہے۔’’اس سے معلوم ہوا کہ سارامزدلفہ حاجیوں کے لئے موقف ہے،ہر حاجی اپنی جگہ رات بسر کرسکتا ہے اوراپنی جگہ پر اللہ تعالی کا ذکر اوراستغفارکرسکتا ہے اور اس بات کی ضرورت نہیں کہ ضروراسی جگہ کھڑا ہوجہاں
نبی ﷺکا موقف تھا۔ نبی ﷺنے مزدلفہ کی رات کمزوروں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ رات کے وقت ہی منی کی طرف جاسکتے ہیں لہذا معلوم ہوا کہ اس رخصت پر عمل کی وجہ سے اگر عورتیں ،مریض ،بوڑے اورجوان کےتابع ہوں اگررات کے آخری نصف حصہ میں مزدلفہ سے منی چلے جائیں تواس میں کوئی حرج نہیں تاکہ رخصت پر عمل بھی ہوجائے اوربھیڑ کی وجہ سے مشقت سے بھی بچ جائیں ،نیز یہ لوگ جمرہ کو رات کے وقت بھی رمی کرسکتے ہیں جیسا کہ حضرت ام سلمہ اورحضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا سے یہ ثابت ہے۔
حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہا نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریمﷺنے عورتوں کو اس کی اجازت عطافرمادی تھی اورپھرجب دن خوب روشن ہوگیا توآپؐ تلبیہ کہتے ہوئے منی کی طرف روانہ ہوئے ،جمرہ عقبہ کا قصدفرمایااورسات کنکریاں ماریں،ہرکنکری کے ساتھ آپؐ اللہ اکبر پڑھتے تھے پھر آپؐ نے قربانی کے جانور کو نحر کیا،پھرسرمبارک منڈایااورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپؐ کو خوشبو لگائی،پھر آپؐ نے یہاں سے بیت اللہ شریف کا قصد فرمایااورطواف کیا ۔قربانی کے دن رسول اللہ ﷺسے پوچھا گیا کہ اگر کسی نے رمی سے پہلے قربانی کرلی،یا ذبح سے قبل حجامت بنوالی یا رمی سے قبل بیت اللہ چلاگیا توان تمام سوالوں کے جواب میں آپؐ نے فرمایا‘‘لاحرج’’اس میں کوئی حرج نہیں ۔راوی کا بیان ہے کہ اس دن تقدیم یا تاخیر کی جس صورت کے بارے میں بھی آپؐ سے سوال کیاگیا توآپؐ نے فرمایا‘‘اب کرلو کوئی حرج نہیں۔’’چنانچہ ایک آدمی نے سوال کیا:
یا رسول اللہ !میں نے طواف سے قبل سعی کرلی ہے توآپؐ نے فرمایا کوئی حرج نہیں، تواس سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کے لئے سنت یہ ہے کہ عید کے دن وہ رمی جمرہ سے آغاز کریں پھر قربانی کریں اگر ان پر ہدی لازمی ہوپھر بال منڈوائیں یا کتروائیں لیکن یادرہے کہ بال کتروانے سے منڈوانا افضل ہے کہ بال منڈوانے والوں کے لئے نبی کریمﷺنے تین بارمغفرت اوررحمت کی دعا فرمائی تھی اوربال کتروانے والوں کے لئے صرف ایک باردعاء فرمائی تھی۔۔۔اس سے حاجی کو تحلل اول حاصل ہوجاتا ہے یعنی اب وہ سلا ہوا کپڑا پہن سکتا ہے ،خوشبو استعمال کرسکتا ہے اورعورت کے سوا ہر وہ چیز اس کے لئے حلال ہوجاتی ہے ،جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھی اورپھر وہ بیت اللہ جائے اورعید کے دن یا اس کے بعدطواف کرے۔۔۔۔۔اوراگرمتمتع ہوتو صفاومروہ کی سعی بھی کرے اوراس سےاس کے لئے عورت سمیت ہروہ چیزحلال ہوجائے گی جو جو احرام کی وجہ سے حرام ہوئی تھی۔
اگرحاجی مفرد یا قارن ہے تواس کے لئے وہ پہلی سعی ہی کافی ہوگی جو اس نے طواف قدوم کے ساتھ کی تھی اوراگراس نے طواف قدوم کے ساتھ سعی نہیں کی تھی تواب طواف افاضہ کے ساتھ اس کے لئے سعی واجب ہوگی۔
پھر نبیﷺمنی واپس تشریف لے آئے اورآپؐ نے عید کا باقی دن اورگیارہ بارہ اورتیرہ کے ایام یہیں گزارے ،ان ایام تشریق میں سے ہر دن آپؐ زوال کے بعد رمی جمارکرتے،ہر جمرہ کو سات کنکریاں مارتے ،ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبرپڑھتے ،جمرہ اولی وثانیہ کی رمی سے فراغت کے بعد ہاتھ اٹھا کردعا کرتے،دعا کے وقت آپؐ جمرہ اولی کو اپنی بائیں طرف اور جمرہ ثانیہ کودائیں طرف کرلیتے لیکن تیسرے جمرہ کے پاس آپؐ نہیں ٹھہرتے تھے ،پھر تیرہ تاریخ کو رمی جمارکے بعد آپؐ روانہ ہوئےاورمقام ابطح میں قیام فرمایااورظہر ،عصر،مغرب اورعشاء کی نمازیں ادافرمائیں!
رات کے آخری پہر آپؐ مکہ مکرمہ تشریف لے آئے اورصبح کی نماز لوگوں کو پڑھائی،طواف وداع فرمایااورچودہ تاریخ کو نماز فجر کے بعد آپؐ مدینہ منورہ کی طر ف روانہ ہوگئےتھے۔
عليه من ربه افضل الصلاة والتسليم
اس سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کے لئے سنت یہی ہے کہ وہ ایام منی میں اسی طرح کریں جس طرح نبی ﷺنے کیا تھایعنی ہر روز زوال کے بعد تینوں جمروں کو رمی کی جائے،ہر جمرہ کو سات سات کنکریاں ماری جائیں ،ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر پڑھا جائے،پہلی رمی کے بعد رک کر قبلہ رخ ہوکر اورہاتھ ٹھا کراس طرح دعا کی جائے جہ جمرہ بائیں طرف ہو،دوسری رمی کے بعد بھی اسی طرح کیا جائےاوردعاکے وقت جمرہ کو اپنے دائیں طرف رکھا جائے،اس طرح کرنا مستحب ہے،واجب نہیں ہے اورتیسری رمی کے بعد وقوف نہ کیا جائے۔اگرزوال کے بعد اورغروب آفتاب سے قبل رمی آسانی سے ممکن ہو تو علماء کے صحیح قول کے مطابق اس غروب ہونے والے سورج کے دن کی رمی رات کے آخری پہر تک کی جاسکتی ہے،یہ اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے رحمت ووسعت کے پیش نظر ہے۔اگر کوئی شخص بارہ تاریخ کی رمی جمارکے بعد،تیرہ تاریخ کی بھی رمی کرے تواس میں کوئی حرج نہیں لیکن رسول اللہ کے عمل کی موافقت کی وجہ سے افضل یہ ہے کہ تیرہ تاریخ کی رمی کو تیرہ تاریخ ہی کو کیا جائے۔
حاجی کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ گیارہ تاریخ کی رات منی ہی میں گزارے ،بہت سے اہل علم کے نزدیک ان راتوں کو منی میں بسر کرنا واجب ہے ،اگر رات کا اکثر حصہ بسرکرلیا جائے تویہ بھی کافی ہے ،جن لوگوں کے پاس کوئی شرعی عذر ہو مثلا کارکن اورچرواہے وغیرہ توان کے لئے منی میں شب بسر کرنا واجب نہیں ہے اگر حجاج جلدی کرلیں اورغروب آفتاب سے قبل منی سے روانہ ہوجائیں توپھر تیرہ تاریخ کی رات منی میں بسر کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر رات آگئی تو پھر تیرہ تاریخ کی رات منی گزارنا ہوگی اوریہ رات منی میں بسر کرنے کے بعد یہاں سے روانہ ہونا ہوگا ،تیرہ تاریخ کے بعد رمی نہیں ہے ،خواہ کو ئی منی ہی میں مقیم کیوں نہ ہو۔
جب حاجی اپنے ملک میں واپس جانے کا ارادہ کرے ،ا س پر واجب ہے کہ طواف وداع کے طور پر بیت اللہ کے گرد سات چکر لگائے کیونکہ نبی کریمﷺکافرمان ہے کہ ‘‘تم میں سے کوئی شخص رخصت نہ ہو حتی کہ وہ اپنا آخری وقت بیت اللہ میں گزارے۔’’ہاں البتہ حیض ونفاس والی عورتوں پر طواف ودار نہیں ہے کیونکہ حضرت ابن عباس
رضی اللہ عنہ سے یہ ثابت ہے کہ انہوں نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ روانہ ہونے سے پہلے آخری وقت بیت اللہ میں گزاریں الا یہ کہ کسی عورت کے ایام شروع ہوگئے ہوں۔
اگرکسی نے طواف افاضہ کو مئوخر کیا ہو اوروہ سفر شروع کرنے سے پہلے یہ طواف کرنا چاہتا ہوتو مذکورہ احادیث کے عموم کے پیش نظر طواف افاضہ ،طواف وداع سے بھی کفایت کرجائے گا۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے،ہمارے اورتمہارےحج کو شرف قبولیت سے نوازے ،ہمیں اورآپ کو جہنم کی آگ سے آزادی نصیب فرمائے،بلاشبہ وہی قادرو کارساز ہے۔
وصلي الله علي نبينا محمد وعلي آله واصحابه وسلم _ والله ولي التوفيق