سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) فلسطین میں یہودی مظالم کے شکار مسلمانوں کی مدد کے لئے اپیل

  • 7543
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1055

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فلسطین میں یہودی مظالم کے شکار مسلمانوں کی مدد کے لئے اپیل


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فلسطین میں یہودی مظالم کے شکار مسلمانوں کی مدد کے لئے اپیل

برادران اسلام!

میں اس اللہ تعالی کی حمد بیان کرتا ہوں ،جس کے سوا کوئی معبود نہیں اورجس نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا ہے کہ :

﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدۃ۲/۵)

‘‘اورنیکی اور پرہیز گاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو۔’’

اورصلوۃ وسلام بھیجتاہوں اللہ تعالی کے نبی اوررسول کریم حضرت محمد ﷺپر جنہوں نے یہ ارشادفرمایا کہ‘‘مومن مومن کے لئے ایک دیوار کی مانند ہے کہ جس کاایک حصہ دوسرے کے لئے مضبوطی کاباعث ہوتا ہے’’وبعد۔۔۔۔

اسلام کے حکیمانہ مقاصد اوربلند پایہ اغراض واہداف میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ تمام فرزندان اسلام ایک جسم کے مانند ہوں اوروہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ اورغمی وخوشی کو اپنا دکھ سکھ اوراپنی غمی وخوشی سمجھیں جیسا کہ رسول اکرم ﷺنے اس بات کو اس مثال سے سمجھایاکہ‘‘باہمی محبت،رحم دلی اورشفقت کے اعتبار سےمسلمانوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ اگرجسم کا کوئی ایک عضو بتلائے دردہو توبخار اوربیداری کے باعث ساراجسم بے قرارہوجاتا ہے۔’’اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنے مال کو اللہ تعالی کی راہ میں بےدریغ صرف کیا اورضرورت کے باوجود اپنی ذات پر اپنے بھائیوں کوترجیح دی۔اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے رہے کہ ایک اگرکوئی اپنا آدھا مال اللہ تعالی کی راہ میں صرف کرتا ہے تو دوسرا اپنا سارامال اللہ تعالی کی محبت کی خاطر نثار کردیتا ہے۔ان پاکباز لوگوں نے اپنے بھائیوں کو ٹھکانا دیا،ان کی ہر طرح کی مدد کی ،اللہ تعالی کی راہ میں اپنا مال بے دریغ قربان کردیا ،اللہ تعالی کی راہ میں اپنے مالوں اورجانوں سے جہاد کیا اللہ تعالی نے بھی ان سے ان کی جانوں اورمالوں کو جنت کی ابدی نعمتوں کے عوض خرید لیا۔انہوں نے بھی بڑے اخلاص اوربڑی خوش دلی کے ساتھ اپنا سب کچھ اپنے رب کی بارگاہ اقدس میں پیش کردیا ارشادباری تعالی ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ اشْتَرَ‌ىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ﴾ (التوبۃ۹/۱۱۱)

‘‘بلاشبہ اللہ تعالی نے مومنوں سے ان کی جانیں اوران کے مال اس بات کے عوض خرید لئے ہیں کہ ان کوبہشت ملے گی۔’’

نیزفرمایا:

﴿انفِرُ‌وا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ‌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾ (التوبۃ۹/۴۱)

‘‘ (اللہ کے راستے میں) نکلو خواہ ہلکے ہویا بوجھل اوراللہ کے رستے میں مال اورجان سےجہاد کرو۔یہی تمہارے حق میں بہتر ہے بشرطیکہ تم سمجھو۔’’

ہمارے اسلاف اوران کامل مسلمانوں نے اس بات کو سمجھ لیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نےابدی سرمدی زندگی کواس عارضی وفانی زندگی پر ترجیح دی ،ایثار وقربانی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا ،قول کی اپنے عمل سے تائید کی ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عزوشرف ،مجددبزرگی اوردنیا وآخرت ہر اعتبار سےوہ بلندو بالا اورارفع واعلی تھے انہوں نے انسانیت اورعدل وانصاف کادرس دیا اور لوگوں کو اپنے عمل سے محبت وشفقت ،ہمدردی وغمگساری اورخیر وبھلائی کا معنی ومفہوم سمجھایا وہ دنیا کا مرکز ومحور ،دینا کا جھومر اوربعد میں آنے والے تمام مسلمانوں کے لئے نمونہ بن گئے تھے لیکن افسوس کے آج مسلمانوں کی اکثریت اپنے ان عظیم اسلاف کی راہ سے دور ہوگئی ہے اوران عظیم مقاصد اورمقدس جذبات سے تہی دامن ہے جوکہ ان کے اسلاف کاطرہ امتیاز تھے حالانکہ یہ مال ودولت کی فراوانی ،دنیوی زندگی کی خوش حالی اوردنیا کی تمام نعمتوں سے بہرہ ورہیں لیکن ان کے دلوں میں ایثار اورقربانی کے جذبات ماند پڑگئے ہیں،وہ بخل اورکنجوسی میں مبتلا ہوگئے ہیں ،خیروبھلائی کی تڑپ ختم ہوگئی ہے اوراس کا نتیجہ بھی کمزوری وناتوانی ،افتراق وانتشاراورجہالت وذلت کی صورت میں ان کے سامنے ہے

﴿وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّـهُ وَلَـٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴾ (النحل۱۶/۳۳)

اورہاں !اس امت کے آخری دور کی اصلاح بھی صرف اورصرف اسی چیز سے ہوگی جس سے امت کے ابتدائی دورکی اصلاح ہوئی تھی،مسلمان اپنی عظمت رفتہ کو صرف اسی صورت میں حاصل کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے دین کی طرف رجوع کرلیں اورعزت ،غلبہ اورفتح ونصرت صرف اسی صورت میں حاصل کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پر غلبہ پائیں اوربرائی،بخل اورانانیت کے خلاف اپنے نفسوں سے جنگ کریں۔

مسلمان بھائیو!آپ کے گردوپیش میں اورآپ کے اپنے اسلامی وعربی وطن میں آپ کے کچھ ایسے بے یارومددگاربھائی ہیں جنہیں ان کے گھروں سے نکال دیا گیا ہے،ان کی جائیدادیں چھین لی گئی ہیں ،ان کے افراد خانہ کو قتل یا جلا وطن کر دیا گیا ہے ،وہ فاقہ ،محرومی اورمفلسی کی آزمائش سے دوچار ہیں،ان کا بستر خاک اوران کا لحاف آسمان ہے اوروہ بھوک،سردی اوربرہنگی کے باعث ایسی کلفتوں میں مبتلا ہیں کہ جسے سن کر دل خون کے آنسو روتا ،جگر شق ہوجاتا اورآنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں اوراسلام میں اس بات کی ممانعت ہے کہ آپ سیر ہوں اور آپ کے بھائی بھوکے ہوں،آپ نے لباس زیب تن کررکھا ہواوروہ برہنہ ہوں آپ اپنے مسکنوں میں رہائش پزیر ہوں اوروہ دردرکی ٹھوکریں کھارہے ہوں،آپ امن واطمینان سے ہوں اور وہ آلام ومصائب کا تختہ مشق بنے ہوئے ہوں ۔لہذا آپ سے شریعت کا مطالبہ یہ ہے کہ آپ اپنے ان بھائیوں کی طرف دست تعاون دراز کریں،ان کے دکھوں میں شریک ہوں،ان کی مصیبتوں میں ان سے تعاون کریں اوراللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے آپ کو اپنی جن بے پایاں نعمتوں سے سرفراز فرما رکھا ہے،ان کے حوالہ سے بھی واجب ہے کہ آپ ان سے اللہ تعالی کا حق اداکریں،نعمتوں پر اس کا شکر بجالائیں اورکفر ان نعمت کی روش کو ترک کردیں ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَ‌بُّكُمْ لَئِن شَكَرْ‌تُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْ‌تُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ (ابراھیم۱۴/۷)

‘‘اورجب تمہارے پروردگار نے (تمہیں) آگاہ کیا کہ تم شکرکروگے تومیں تمہیں زیادہ دوں گا اوراگرناشکری کروگے (یادرکھوکہ) میراعذاب (بھی) سخت ہے۔’’

تو اےبرادران اسلام!آپ خرچ کریں اللہ تعالی آپ کو اورعطافرمائے گا،آپ احسان کریں،اللہ تعالی آپ کےاحسان کا اچھا بدلہ عطافرمائے گا،آپ صدقہ وخیرات کریں اس سے آپ کا مال محفوظ رہے گا،اللہ تعالی کی طرف سے برکت حاصل ہوگی اوریہ مال آپ کے اس وقت کام آئے گا جب آپ کو اس کی بہت زیادہ ضرورت ہوگی یعنی اس وقت کہ

﴿يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ ﴿٨٨﴾ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ﴾ (الشعراء۲۶/۸۸۔۸۹)

‘‘جس دن نہ مال کچھ فائدہ دے سکے گا اورنہ بیٹے ۔ہاں !جو شخص اللہ کے پاس تسلیم (ورضا) کا پیکر دل لے کر آیا (وہ بچ جائے گا) ’’

جیسا کہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایاہے کہ:

﴿وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ‌ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّـهِ هُوَ خَيْرً‌ا وَأَعْظَمَ أَجْرً‌ا﴾ (المزمل۷۳/۲۰)

‘‘اورجونیک عمل تم اپنے لئے آگے بھیجوگے اس کو اللہ کے ہاں بہتر اورصلے میں بزرگ ترپاوگے۔’’

اے مومن بھائیو!اس مبارک مہینے میں جو خرچ کرنے اوردوگنے چوگنے اجروثواب کے حاصل کرنے کا مہینہ ہےاخلاص اورخوش دلی کے ساتھ خرچ کیجئے اوراس فرمان باری تعالی کو یاد رکھتے ہوئے خرچ کیجئے کہ :

﴿مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦١﴾ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُ‌هُمْ عِندَ رَ‌بِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ (البقرۃ۲/۲۶۱۔۲۶۲)

‘‘جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان (کے مال) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں اورہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں اوراللہ جس

 (کے مال) کو چاہتا ہے ،زیادہ کرتا ہے وہ بڑی کشائش والا (اور) سب کچھ جاننے والا ہے ، جو لوگ اپنا مال اللہ کے راستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا

 (کسی پر ) احسان رکھتے ہیں اورنہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں ان کا صلہ ان کے پروردگارکے پاس (تیار) ہے اورقیامت کے دن نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اورنہ وہ غمگین ہوں گے۔’’

نیزارشادربانی ہے:

﴿آمِنُوا بِاللَّـهِ وَرَ‌سُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ‌ كَبِيرٌ‌﴾ (الحدید۵۷/۷)

‘‘اللہ اوراس کے رسول پر ایمان لاو اورجس (مال) میں اس نے تمہیں

 (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے اس میں سے خرچ کرو ،جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کرتے رہے ،ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔’’

اورنبی اکرمﷺنے ارشاد فرمایا ہے کہ ‘‘جس نے کسی غازی کو تیا رکیا اس نے گویا غزوہ میں خود شرکت کی اور جس نے غازی کے اہل خانہ کی خبر گیر ی کی ،اس نے بھی غزوہ میں حصہ لیا۔’’

مسلمان بھائی!اللہ مالک کریم کے اس ارشادپر بھی غور فرمائیے کہ :

﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ‌ الرَّ‌ازِقِينَ﴾ (سبا۳۴/۳۹)

‘‘اورتم جو چیز خرچ کرو گے،وہ (اللہ تمہیں) اس کا عوض دے گا اوروہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔’’

اللہ تعالی نے آپ کوجس مال ودولت سے سرفراز فرما رکھا ہے،یہ تودرحقیقت آپ کے ہاتھ میں امانت ہے،یہ مال بھی اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ایک آزمائش اورامتحان ہے لہذا اس مال کو اللہ تعالی کی خوشنودی اورجنت کے حصول کاذریعہ بنالیں،

کسی نے کیا خوب کہا ہے:

وماالمال والاهلون الا ودائع

ولابد يوما ان ترد الودائع

‘‘مال اوراولاد توامانتیں ہیں اورامانتوں کو ایک نہ ایک دن واپس لوٹانا ہی پڑتا ہے۔’’

آپ تو ان شاء اللہ نیک کاموں میں حصہ لینے والے ہیں لہذا اپنے مظلوم بھائیوں کی آپ جو مددکرنا چاہیں،وہ ہمارے پاس بھیج دیں یا ہر شہر کے کسی بھی سبیعی یا راجحی سینٹر (بینک) میں جمع کروادیں ،ان شاء اللہ آپ کی یہ مددقابل اعتمادذرائع سے مستحق لوگوں تک بہت جلد پہنچ جائے گی ۔اللہ تعالی ہم سب کو اپنی رضا کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطافرمائےاورہمارے اورآپ کے نیک قول عمل کو شرف قبولیت سے نوازے۔

عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

چیئرمین

تاسیسی کونسل برائے رابطہ عالم اسلامی

 

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 271

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ