کچھ عرصہ قبل مجھے ایک ہسپتال میں داخل ہونے کا اتفاق ہوا ۔میں جس کمرہ میں رہ رہا تھا اس میں دوآدمی اوربھی تھے اوراس کمرہ میں ہم تین تک رہے ،میں تو اس مدت میں نماز پڑھتا رہا لیکن وہ دونوں آدمی نماز نہیں پڑھتے تھے حالانکہ وہ بھی مسلمان اورمیرے ہی شہر کے باشندے تھے میں نے اس سلسلہ میں ان سے کوئی بات بھی نہ کی توکیا مجھے اس کا گناہ ہوگا کہ میں نے انہیں نماز کا حکم کیوں نہ دیا ؟اگریہ گناہ ہے تو اس کا کفارہ کیا ہے؟
آپ پر یہ واجب تھا کہ ان دونوں کو نصیحت کرتے اوراس منکر عظیم یعنی ترک نماز کے ارتکاب کی مذمت کرتےتاکہ حسب ذیل ارشادباری تعالی پر عمل ہوجاتا کہ :
﴿وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ﴾ (آل عمران۳/۱۰۴)
‘‘اورتم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اوراچھے کام کرنے کا حکم دے اوربرے کاموں سے منع کرے،یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔’’
اورنبی ﷺکے اس ارشاد پر عمل ہوجاتا کہ‘‘تم میں سے جو شخص برائی دیکھے تواسے ہاتھ سے مٹا دے ،اگراس کی طاقت نہ ہو توزبان سے (سمجھائے) اوراگراس کی بھی طاقت نہ ہو تودل سے (براسمجھے) اوریہ ایمان کاکمزورترین درجہ ہے ۔’’ (صحیح مسلم)
جب آپ نے فرض کو ادانہیں کیا تواب واجب یہ ہے کہ اس معصیت کی وجہ سے خالص توبہ کریں۔ خالص توبہ کامطلب یہ ہے کہ پہلے جو کوتاہی ہوئی اس پر ندامت کا اظہار کریں،اب اس سے رک جائیں اوریہ پختہ عزم کریں کہ آئندہ ایسا نہیں کریں گے اوریہ سب کچھ اللہ تعالی کے لئے اخلاص ،تعظیم ،اس سے ثواب کی امید اوراس کے عذاب کے خوف کی وجہ سے کریں۔جو صدق دل سے توبہ کرے اللہ تعالی اس کی توبہ کو شرف قبولیت سے نوازتا ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ﴾ (طہ۲۰/۸۲)
‘‘اورتحقیق جو شخص توبہ کرے اورایمان لائے اورنیک عمل کرے پھر سیدھے راستے پرچلے،اس کو میں بخشنےوالاہوں۔’’