السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نشے کی حالت میں دی گئی طلاق کیا واقع ہو جاتی ہے؟ اگر ہو جاتی ہے تو اس کی شرائط کیا ہیں؟ بدلائل وضاحت فرما دیں۔ جزاکم الله خیرا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ(النساء 43)
’’ اے ايمان والو تم نشہ كى حالت ميں نماز كےقريب مت جاؤ، حتى كہ جو كہہ رہے ہو اسے تم جاننے لگو ۔‘‘
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالىٰ نے نشئ كى بات كو غير معتبر قرار ديا ہے، كيونكہ وہ جانتا ہى نہيں كہ وہ كيا كہہ رہا ہے۔
ايك شخص رسول كريم ﷺ كے پاس آيا اور زنا كا اقرار كيا تو رسول كريم ﷺ نے فرمايا:
" كيا شراب نوشى كى ہے ؟ "
تو ايك شخص نے اٹھ كر اس آدمى كا منہ سونگھا تو اسے شراب كى بو نہ آئى "(صحيح مسلم حديث نمبر 1695)
يہ حديث اس كى دليل ہے كہ اگر اس نے شراب نوشى كى ہوتى تو رسول كريم ﷺ اس كے اقرار كو قبول نہ كرتے، اس ليے نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہيں ہوگى۔
عثمان بن عفان اور ابن عباس رضى اللہ تعالىٰ عنہم كا قول بھى يہى ہے اور صحابہ كرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ميں سے بھی اس قول كا كوئى مخالف نہيں ہے۔
امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كا قول ہے کہ مجنون ، پاگل اور نشئ كى طلاق نہيں۔
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہا كا قول ہے کہ نشئ اور جبر كردہ شخص كى طلاق جائز نہيں۔
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں کہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ سے يہ ثابت ہے اور ہمارے علم ميں كوئى بھى صحابى اس ميں ان كا مخالف نہيں ہے۔ (مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 32 / 252 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 18 ) الانصاف ( 8 / 433 )
واللہ تعالیٰ اعلم
وبالله التوفيق