سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(144) میرادوست نماز پڑھتا ہے اورنہ روزہ رکھتا ہے

  • 7509
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1053

سوال

(144) میرادوست نماز پڑھتا ہے اورنہ روزہ رکھتا ہے
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میراایک بہت ہی عزیز دوست جس سے مجھے بہت زیادہ محبت ہے،فرض نماز پڑھتا ہے نہ رمضان کے روزے رکھتا ہے،میں نے اسے سمجھایا ہے لیکن وہ میری بات نہیں مانتا توکیا میں اس سے دوستی رکھوں یا نہ رکھوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس اوراس جیسے آدمیوں کے ساتھ اللہ تعالی کی خاطر بغض اوردشمنی رکھنا واجب ہے حتی کہ وہ توبہ کرلیں کیونکہ علماء کے صحیح قول کے مطابق ترک نماز کفر اکبر ہے،اس لئے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے۔‘‘آدمی اورکفر وشرک کے درمیان فرق ترک نماز ہے ۔’’ (صحیح مسلم) نیزنبی علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشادگرامی ہے کہ‘‘ہمارے اوران کے درمیا ن جو عہد ہے وہ نماز ہے لہذا جو اسے ترک کردے وہ کافر ہے۔’’اس حدیث کو امام احمداوراہل سنن نے سند کے ساتھ بیان کیا ہےنیز اس مضمون کی اوربھی بہت سی احادیث ہیں۔

کسی شرعی عذر کے بغیر رمضان کے روزے ترک کرنا بھی بہت بڑے جرائم میں سے ہے۔بعض اہل علم کا یہ قول ہے کہ‘‘جو شخص مرض یا سفر وغیرہ کے کسی شرعی عذر کے بغیر رمضان کا روزہ ترک کرتا ہے تووہ کافر ہے’’لہذا واجب ہے کہ آپ اس شخص سے بغض رکھیں اوراسے چھوڑ دیں حتی کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی کے حضور توبہ کرے۔مسلمان حکمرانوں پر بھی واجب ہے کہ وہ تارک نماز سے توبہ کرائیں ،اگروہ توبہ کرے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کردیا جائے کیونکہ ارشادباری تعالی ہے:

﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ﴾ (التوبۃ۹/۵)

‘‘پھر اگروہ توبہ کرلیں اورنمازپڑھنے اورزکوۃ دینے لگیں توان کی راہ چھوڑ دو۔’’

تواس سےمعلوم ہوا کہ جو نماز نہ پڑھے اس کی راہ نہ چھوڑی جائے ،نیز نبیﷺنے فرمایا‘‘مجھے نمازیوں کے قتل سے منع کیاگیا ہے’’تواس سےبھی معلوم ہوا کہ جو نماز نہ پڑھے اس کے قتل سے آپؐ کو منع نہیں کیا گیا ۔الغرض آیات واحادیث کے ادلہ شرعیہ سے یہ ثابت ہے کہ جوشخص نماز نہ پڑھے تومسلمان حکمران پر یہ واجب ہے کہ اسے قتل کرادےبشرطیکہ وہ توبہ نہ کرے ۔ہم اللہ تعالی سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کے دوست کو توبہ اورراہ راست کی توفیق بخشے!

 

مقالات وفتاویٰ ابن باز

صفحہ 251

محدث فتویٰ

تبصرے