میری مشکل یہ ہے کہ میں نماز میں حرکات بہت کرتا ہوں ۔میں نے سنا ہے ایک حدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے نماز میں تین سے زیادہ حرکات کیں تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟نماز میں فضول حرکتوں سے کس طرح نجات حاصل کی جائے؟
مومن کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ پوری توجہ ،انہماک اورقلبی وجسمانی خشوع وخضوع کے ساتھ نماز اداکرےخواہ وہ فرض ہویا نفل کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشادگرامی ہے:
﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١﴾ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ﴾ (المومنون۲۳/۱۔۲)
‘‘یقینا ایمان والے کامیاب ہوگئے جونماز میں عجزونیازکرتے ہیں۔’’
اورنماز کو پورےاطمینان وسکون سے اداکرے۔اطمینان نماز کے ارکان وفرائض میں سے بےحد اہم ہے،جس شخص نے اطمینان وسکون کے بغیر برے طریقے سےنماز کو پڑھی تھی تونبی کریمﷺنے اس سے یہ فرمایا تھا‘‘واپس لوٹ جاو اوردوبارہ نماز پڑھوکیونکہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں ہے ۔’’جب اس طرح تین بار ہوا تو اس آدمی نے عرض کیا‘‘اس ذات کی قسم!جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے،میں اس سے زیادہ اچھے طریقے سے نماز ادانہیں کرسکتا ،مجھے نماز پڑھنے کا طریقہ سکھا دیجئے۔’’
تو نبی کریم ﷺنے اس سے فرمایا‘‘جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کروتو خوب اچھے طریقے سے وضو کرو،پھر قبلہ رخ کھڑے ہوکر اللہ اکبر کہو،پھر جوآسانی سے ممکن ہو قرآن مجید پڑھو ،پھر خوب اطمینان سےرکوع کرو۔پھر رکوع سے سر اٹھاواوربالکل سیدھے کھڑے ہوجاو،پھر خوب اطمینان سے سجدہ کرو،پھر سجدہ سے سراٹھاواوراطمینان سے بیٹھ جاو،پھر بے حد اطمینان سےسجدہ کرو،پھرساری نماز ہی اسی طرح اطمینان (وسکون) سےاداکرو۔’’ (متفق علیہ)
صحیح حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طمانینت نماز کا اتنا بڑا رکن اورفرض عظیم ہے کہ اس کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی ،جوشخص ٹھونگیں مارے اس کی نماز نہیں ہوتی۔خشوع وخضوع نماز کا خلاصہ اورروح ہے ،لہذا مومن کو چاہئے کہ وہ نماز کا خصوصی اہتمام کرے،خوب ذوق شوق سے نماز اداکرے۔یہ کہنا کہ اگر تین حرکتیں ہوگئیں تو وہ طمانینت اورخشوع کے منافی ہیں تواس کا نبی کریمﷺکی کسی حدیث سے کوئی ثبوت نہیں ہے بلکہ یہ بعض اہل علم کا قول ہےاوراس کے لئے کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے۔
ہاں!البتہ نماز میں حرکات فاضلہ مثلا ناک ،داڑھی اورکپڑوں وغیرہ کے ساتھ کھیلنا اورمشغول ہوجانا مکروہ ضرورہے،اوراگراس طرح کے فضول کام نماز میں کثرت اورتواترسےہوں تواس سے نماز باطل ہوجائے گی اوراگر حرکت ایسی ہوکہ اسے عرف میں زیادہ نہیں بلکہ کم ہی سمجھا جاتا ہو،یا زیادہ توہو مگرمتواترنہ ہو تواس سے نماز باطل نہ ہوگی لکن مومن کو چاہئے کہ نماز میں خشوع وخضوع کی حفاظت کرے اورفضول حرکتوں کو چھوڑ دے خواہ وہ کم ہوں یا زیادہ ،تاکہ نماز کو تمام وکمال انداز میں اداکرسکے ۔
اس بات کی دلیل کہ عمل قلیل ،حرکات قلیلہ اور متفرق وغیر متواتر عمل وحرکت سے نماز باطل نہیں ہوتی ،یہ ہے کہ نبی کریمﷺنے نماز پڑھتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے آنے پر دروازہ کھول دیا تھا اوراسی طرح حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ آنحضرت ﷺنے ایک دن اپنی نواسی امامہ بنت زینب رضی اللہ عنہاکو گود میں اٹھا کرنماز پڑھائی ،جب آپؐ سجدےمیں جاتے تواسے اتار (بیٹھا) دیتے اورجب کھڑے ہوتے تواسے اٹھا لیتے تھے ۔ ( ( واللہ ولی التوفیق) )