اقامت سے پہلے صبح کی دو سنتیں نہ پڑھی جائیں تووہ سورج نکلنے کے بعد ادا ہوسکتی ہیں۔؟
میری سمجھ اس مسئلہ پریہ ہےکہ اگرجماعت ہورہی توترک سنت کرکےفرضوں کی اقتدا کرے اوراگرصبح کاوقت ہوتوبعد فرض ادا کرے۔چنانچہ مدت تک اس مسئلہ پر عمل رہا۔ چنانچہ یوم ہوئے ایک حنفی بھائی نے ابن ماجہ کی حسب ذیل حدیث پیش کی۔
میرے پاس ابن ماجہ کی شرح قلمی کفایہ الحاجہ شرح ابن ماجہ موجود تھی اس کودیکھا تواس میں یہ لکھا ہوا ہے ۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تدلیس کہتے ہیں ۔اپنے ملاقاتی سے ایسے لفظ کےساتھ روایت کرے جس سے سماع کا وہم ہو۔اورحقیقت میں سنا نہ ہومثلاً عن فلان کہےیاقال فلاں کہے ایسے راوی کومدلس کہتے ہیں ۔مروان بن معاویہ مدلس ہے جس کی روایت عن کےساتھ کرنے کی صورت میں بالکل ضعیف ہوتی ہے۔ہاں اگرسماع تصریح کرے توپھر صحیح ہوجائے گی مگریہاں عن کے ساتھ روایت کی ہے۔رہا بخاری اورمسلم کااس کی روایت کرنا تووہ سماع کی تصریح کی صورت میں ہے یا مؤید کی صورت میں ۔
اس کے علاوہ اس راوی میں ایک اورعیب بھی ہے وہ یہ کہ اپنے استادوں کے مشہور نام بدل کرغیر مشہورکردیتا ہے جس سے بعض دفعہ ضعیف کوثقہ سمجھ لیا جاتا ہے یا ضعیف پرپردہ پڑ جاتا ہے یامعلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں حافظ ابن حجر ؒ نے طبقات المدلس کےصفحہ 13 ،14 میں اس کا ذکر کیا ہے اورایسے راوی کی روایت بغیر تحقیق کے نہیں لی جاسکتی ۔اوراس روایت کی حقیقت کاکچھ علم نہیں اس لئے یہ قابل استدلال نہیں ۔
اسکے علاوہ اس کے مقابلہ میں حسن حدیث موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی سنتیں رہ جائیں توفرضوں کے بعد پڑھ لی جائیں تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ امتیازی مسائل ملاحظہ ہو۔
وباللہ التوفیق