سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(65) جہالت کی وجہ سے کون معذور سمجھا جائے گا

  • 7430
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-21
  • مشاہدات : 2266

سوال

(65) جہالت کی وجہ سے کون معذور سمجھا جائے گا
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ کون لوگ ہیں جنہیں جہالت کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا یعنی کیا امور فقہیہ میں جہالت کی وجہ سے معذورسمجھاجائے گایاعقیدہ اورتوحید کے بارے میں بھی جہالت کی وجہ سے کون معذور سمجھا جائے گا؟اس حوالہ سے حضرات علماءکرام پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جہالت کا دعوی اوراس کی وجہ سے عذرایک تفصیل طلب مسئلہ ہے ۔جہالت کی وجہ سے ہر شخص کو معذورقرارنہیں دیا جاسکتا کہ وہ امور جنہیں اسلام نے پیش کیا،رسول اللہ ﷺنے لوگوں کے سامنے بیا ن فرمایا،کتاب اللہ نے ان کی وضاحت فرمائی اورمسلمانوں میں یہ امور پھیل گئےتو ان کے بارے میں یہ دعوی بالکل قابل قبول نہیں ہے ۔اللہ عزوجل نے اپنے نبی حضرت محمد رسول اللہ ﷺکو اس لئے مبعوث فرمایا کہ آپ (ﷺ) لوگوں کے سامنے دین کی وضاحت اورتشریح فرمادیں ،چنانچہ آپؐ نے نہایت وضاحت کے ساتھ دین کی تبلیغ فرمائی اوردین کی حقیقت کو امت کے سامنے نہایت کھول کھول کربیان فرمادیا اوردین سے متعلق ہر چیز کو نہایت شرح وبسط سے بیان فرمادیا اورامت کوایسی روشن اورمنورشریعت دی جس نی راتیں بھی دنوں کی طرح جگمگاتی ہیں اور کتاب اللہ سراپا ہدایت ونور ہے،لہذا اگر کچھ لوگ ان امورکے بارے میں جہالت کا دعوی کریں جو بالضروردین سے معلوم ہیں اورمسلمانوں میں وہ پھیل چکے ہیں مثلا کوئی شرک اورغیراللہ کی عبادت کے بارے میں جہالت کا دعوی کرے یا یہ دعوی کرے کہ نماز واجب نہیں ہے یا رمضان کے روزے واجب نہیں ہیں یا زکوۃ واجب نہیں ہے یا استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی حج واجب نہیں ہے تو اس طرح کا کوئی دعوی بھی قابل قبول نہ ہوگاکیونکہ یہ تمام امور مسلمانوں کو معلوم ہیں اوردین اسلا م سے یہ ضروری طورپر معلوم ہیں اورمسلمانوں میں یہ امور عام ہوچکے ہیں لہذا ان میں سے کسی کے بارے میں جہالت کا دعوی قابل قبول نہ ہوگا۔اسی طرح اگرکوشخص یہ دعوی کرے کہ وہ ان امور سے جاہل ہے جسے مشرکین قبروں اوربتوں کے پاس کرتے ہیں یعنی مردوں کو پکارتے،ان سے استغاثہ کرتے ،ان کے نام پر ذبح کرتے اوران کی نذر مانتے ہیں یا مردوں ،بتوں ،جنوں،فرشتوں یا نبیوں سے شفایادشمنوں کے خلاف مددمانگتے ہیں توان میں سے ہر ہرامرکے بارے میں ضروری طورپر دین سے یہ بات معلوم ہےکہ یہ شرک اکبر ہے۔اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب میں واضح طورپر بیان فرمایاہے اوراس کے رسول ﷺنے بھی اسے صاف صاف بیان فرمادیا ہے،چنانچہ آپﷺنے مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک لوگوں کو اس شرک سے درایا ،اسی طرح دس سال تک آپﷺنے مدینہ منورہ میں اس شرک کی مذمت کی اوراس سے بچنے کی تلقین فرمائی اورواضح فرمایا کہ یہ واجب ہےکہ اخلاص کے ساتھ عبادت صرف اورصرف اللہ وحدہ لاشریک کی کی جائے ،اس سلسلہ میں آپ قرآن مجید کی درج ذیل آیات کی تلاوت بھی فرماتے:

﴿ وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ (الاسراء۱۷/۲۳)

"اور تمہارے پروردگار نے ارشادفرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔"

اورفرمایا:

﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ (الفاتحۃ۵/۱)

‘‘ (اے پروردگار!) ہم خاص تیری ہی عبادت کرتے ہیں اورصرف تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔’’

نیز فرمایا:

﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ﴾ (البینۃ۵/۹۸)

‘‘اوران کو حکم تویہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں (اوریکسوہوکر) دین کو (شرک سے) خالص کرکے اللہ کی عبادت کرو۔’’

مزید فرمایا:

﴿ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ (الزمر۳۹/۲۔۳)  

‘‘ (اے نبی!) خالص اللہ ہی کی بندگی کیا کرو۔’’

ایک اورارشاد:

﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَ‌بِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِ‌يكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْ‌تُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ﴾ (الانعام۶/۱۶۲۔۱۶۳)

‘‘ (اے نبی!) کہہ دو کہ میری نماز،میری قربانی،میراجینااورمیرا مرناسب اللہ رب العالمین ہی کے لئےہے جس کا کوئی شریک نہیں اورمجھ کو اسی بات کا حکم ملا ہے اورمیں سب سے اول فرماں بردارہوں۔’’

اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے رسول (ﷺ) سے مخاطب ہوکر فرمایا:

﴿إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ‌ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَ‌بِّكَ وَانْحَرْ‌﴾ (الکوثر۱۰۸/۱۔۲)

‘‘ (اے محمد!ﷺ) ہم نے آپ کو کوثر عطا فرمائی ہے تو اپنے پروردگار کے لئے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔’’

ارشادباری تعالی ہے:

﴿فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا﴾ (الجن۱۸/۷۲)

‘‘پس اللہ کے سوا کسی اورکی عبادت نہ کرو’’

اورفرمایا:

﴿وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ‌ لَا بُرْ‌هَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَ‌بِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُ‌ونَ﴾ (المومنون۲۳/۱۱۷)

‘‘اورجو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی بھی سندنہیں تواس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہوگا،کچھ شک نہیں کہ کافررستگاری (چھٹکارا) نہیں پائیں گے۔’’

اسی طرح دین کا مذاق اڑانا ،دین میں طعنہ زنی کرنا ،دین کے ساتھ استہزاء کرنا اوردین کو گالی دینا ،یہ سب کفر اکبر ہے۔اس کے ارتکاب کرنے والے کو بھی معذورتصور نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ بات بھی ضروری طور پر دین سے معلوم ہےکہ دین کو گالی دینایا رسول اللہ کو گالی دینایا استہزاءومذاق اڑانا بھی کفر اکبر ہے۔ارشادباری تعالی ہے:

﴿قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَ‌سُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُ‌وا قَدْ كَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ۹/۶۵۔۶۶)

‘‘کہوکیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ؟بہانے مت بناوتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو۔’’

لہذا اہل علم پر واجب ہے ،خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی رہتے ہوں ،کہ یہ باتیں لوگوں کو بتائیں اوران کے سامنے انہیں ظاہر کریں تاکہ عوام کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے اوریہ امر عظیم لوگوں میں عام ہوجائے اوروہ مردوں کے ساتھ تعلق اوراستغاثہ کو چھوڑ دیں،خواہ اس کا تعلق دنیا میں کسی جگہ سے بھی ہو،مصر سے ہو یا شام سے ،عراق سے ہو یا مدینہ میں نبی کریمﷺکے روضہ کے پاس سے یا مکہ مکرمہ سے ہویا کسی بھی اورجگہ سے تاکہ حاجیوں کو بھی یہ بات معلوم ہوجائے اورعام لوگوں میں بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالی کا دین کیا ہے اوراس کی شریعت کیا ہے؟

علماء کے سکوت کی وجہ سے عوام کے تباہی وبربادی اورجہالت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے اہل علم پر یہ واجب ہے ،خواہ وہ دینا میں کسی بھی جگہ کے رہنے والے ہوں،کہ وہ لوگوں کے پاس اللہ کے دین کو پہنچائیں،انہیں اللہ تعالی کی توحید کا علم سکھائیں اوربتائیں کہ شرک کی کون کون سی قسمیں ہیں تاکہ وہ علی وجہ البصیرت شرک کو ترک کردیں اوراللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ۔اسی طرح بدوی یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ یا شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی قبروں کے پاس جوکچھ ہوتا ہے یا مدینہ منورہ میں نبی ﷺکی قبر شریف کے پاس جوہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ علماءلوگوں کوسمجھائیں اوربتائیں کہ عبادت صرف اورصرف اللہ وحدہ کا حق ہے،اس حق میں اس کے ساتھ کوئی سہیم وشریک نہیں ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے کہ :

﴿وَمَا أُمِرُ‌وا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينََ﴾ (البینۃ۵/۹۸)

‘‘اوران کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص عمل کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں’’

اورفرمایا:

﴿ فَاعْبُدِ اللَّـهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ﴾ (الزمر۳۹/۲)  

‘‘اللہ کی عبادت کرو (یعنی) اس کی عبادت کو (شرک) سے خالص کر کے،دیکھوخالص عبادت اللہ ہی کے لئے (زیبا) ہے۔’’

مزید فرمایا:

﴿ وَقَضَىٰ رَ‌بُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ (الاسراء۱۷/۲۳)

"اور تمہارے پروردگار نے ارشادفرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔"

کے معنی یہ ہیں کہ تمہارے پروردگارنےیہ حکم دیا ہےکہ ۔۔۔۔۔لہذا تمام اسلامی ممالک کے اہل علم پر ،ان ملکوں کے اہل علم پر جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اوردنیا میں کسی بھی جگہ رہنے والے اہل علم پر یہ واجب ہے کہ لوگوں کو اللہ کی توحید سکھائیں ،انہیں علی وجہ البصیرت اللہ تعالی کی عبادت کرنے کی تعلیم دیں اوراللہ تعالی کی ذات گرامی کے ساتھ شرک سے انہیں ڈرائیں کہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے اورلوگوں کو بتائیں کہ اللہ تعالی نے جنوں اورانسانوں کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ یہ اس کی عبادت کریں جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات۵۶/۵۱)

‘‘اور میں نے جنوں اورانسانوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه میری ہی عبادت کریں’’

اوراس کی عبادت یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے،اس کے رسول ﷺکی تابعداری کی جائے،اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کی جائے اوردلوں کو اس کی طرف متوجہ کیا جائے،ارشادباری تعالی ہے :

﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴾ (البقرۃ۲/۲۱)

‘‘لوگواپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اورتم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔’’

باقی رہے وہ مسائل جو مخفی ہوتے ہیں مثلا مسائل معاملات،نمازاورروزہ کے بعض مسائل توان میں جاہل کو معذورتصور کیا جائے گا جس طرح نبی کریمﷺنے اس آدمی کو معذورسمجھا تھا جس نے ‘‘جبہ’’میں احرام باندھ لیا اوراسے خوشبوسے معطر بھی کررکھا تھا تو آپؐ نے اس سے فرمایا‘‘جبہ اتاردو،اپنے جسم سے خوشبو کو دھو ڈالواورعمرہ میں بھی اسی طرح کرو جس طرح حج میں کرتے ہو۔’’اس شخص کی جہالت کی وجہ سے آپؐ نے اسے فدیہ اداکرنے کا حکم نہیں دیا۔اسی طرح بعض دیگر مسائل جو مخفی ہوتے ہیں ان کے بارے میں جاہل کو بتایااورسکھایا جائے گالیکن وہ امور جو اصولی ہیں جن کا تعلق اصول عقیدہ ،ارکان اسلام اورمحرمات ظاہرہ سے ہے ،ان میں جہالت کا عذر قابل قبول نہ ہوگا۔اگرکوئی شخص مسلمانوں میں رہتے ہوئے یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ زنا حرام ہے تو اس کا یہ عذر قبول نہ ہوگا ،بلکہ اس پر حد زنا جاری کی جائے گی یا مسلمانوں میں رہتے ہوئے اگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ شراب حرام ہے تو اس کا بھی یہ عذر قبول نہ ہوگابلکہ اس پر شراب کی حد جاری کی جائے گی یااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ والدین کی نافرمانی حرام ہے تواس کی یہ بات درست تسلیم نہ کی جائے گی،بلکہ اسے سزادی جائے گی اورادب سکھایا جائے گایااگرکوئی یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ لواطت۔۔۔ (ہم جنس پرستی) ۔۔۔حرام ہے تواس کا یہ عذر قابل قبول نہ ہوگا اوراس پر حدجاری کی جائے گی کیونکہ یہ ظاہری امور ہیں جو مسلمانوں میں معروف ہیں اوریہ بات بھی معروف ہے کہ ان کے بارے میں اسلام کا نکتہ نظر کیا ہے۔

ہاں!اگر کوئی شخص کسی ایسے علاقے میں ہو جہاں دوردورتک اسلام نہ ہو یاوہ افریقہ کے کسی ایسے گمنام علاقے میں ہو جہاں مسلمان نہ ہوں تو اس کا دعوی جہا لت قبول کیا جائے گااورجب وہ اس حالت میں فوت ہوجائے تواس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہوگا اوراس کا حکم اہل فترت جیسا ہوگا اورصحیح بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا روز قیامت امتحان ہوگا اگریہ امتحان میں کامیاب ہوئے اورانہوں نے اللہ تعالی کی اطاعت کی ،توجنت میں داخل ہوں گےاوراگرنافرمانی کی توجہنم رسید ہوں گے ۔لیکن جو شخص مسلمانوں میں رہتے ہوئے کفرکا ارتکاب کرتا اورمعلوم شدہ فرائض وواجبات کو ترک کرتا ہے تو ایسے شخص کا عذر قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ معاملہ بالکل واضح ہے ۔مسلمان بحمدا للہ موجود ہیں جو نماز پڑھتے ،روزہ رکھتے اورحج کرتے ہیں اورجانتے ہیں کہ زنا ،شراب اوروالدین کی نافرمانی حرام ہے اوریہ تمام باتیں مسلمانوں میں مشہورومعروف ہیں ،لہذا ان حالات میں جہالت کا دعوی ایک باطل دعوی قرارپائے گا۔واللہ المستعان۔

 

فتاویٰ ابن باز

تبصرے