سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) سجدہ کے درمیان رفع الیدین

  • 742
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2006

سوال

(61) سجدہ کے درمیان رفع الیدین

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص نسائی، مسنداحمد،ابی داؤد،ابن ماجہ،دارقطنی،جزء رفع الیدین امام بخاری،طبرانی،بیہقی فی الخلاقیات،صحیح ابن عوانہ، ابویعلی، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق ،تلخیص الحبیرکی روایات کی بناء پر سجدہ میں جاتے ہوئے اور بین السجدتین احیاناً رفع یدین کرتا ہے۔

(1)مانعین مصیب ہیں یاعامل؟ (2)کیا حدیث صحیح ہے؟(3)اگر صحیح ہے تو فی زمانہ اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟(4)اگرمجروح ہے تو سنن نسائی کی دوروایتیں جو من طریق شعبہ اور سعیدبن ابی عروبہ مروی ہیں۔ ان پر کو نسی جرح ہے ۔مبہم جرح نہ ہو۔ اصل بناان ہی دو حدیثوں پر ہے باقی سب روایات انہی کی تائیدمیں ہیں۔عام اس سے کہ صحاح ستہ سے ہوں یا صنعاف سے۔(5) کیا یہ رفع یدین منسوخ ہوچکا ہے(6) اگر منسوخ ہوگیا ہے تو حدیث ناسخ کو بمعہ اسناد تحریر فرمائیے(7)اگر منسوخ نہیں ہوا تو کونسے صحابہ رضی اللہ عنہ اس کے عامل تھے(8)اور کون کون سے تابعین اس طرف گئے ہیں(9)کیا اس کے عامل کی اقتداء میں نماز ہوسکتی ہے(10)جوشخص اس فعل کو روافض کے ساتھ تشبیہ دے اور ناراض ہوکر مخالفت کرے اس کا کیا حکم ہے۔۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

(1) مانعین مصیب ہیں۔

            (2)حدیث صحیح نہیں

            (3)چونکہ حدیث صحیح نہیں اس لیے عمل نہیں۔

            (4)یہ دو طرح سے مجروح ہے ایک یہ کہ اس میں قتادہ مدلس ہے اور اپنے استادنصربن عاصم سے سماع کی تصریح نہیں کی بلکہ کلمہ عن کے ساتھ روایت کرتاہے اور مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ شعبہ اور سعیدبن ابی عمرو بہ کے شاگردوں میں اختلاف ہے کوئی سجدہ میں رفع الیدین کا ذکرکرتاہے کوئی نہیں کرتا۔نسائی میں دونوں طرح کی روایتیں موجود ہیں۔         (ملاحظہ ہو باب رفع الیدین للسجود اور کتاب الافتتاح)

اگر کہا جائے کہ زیادت ثقہ مقبول ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ زیادت ثقہ کے خلاف کو ترجیح ہوتو پھر زیادت ثقہ معتبر نہیں۔ اور یہاں اس کے خلاف کوترجیح ہے۔ ایک تو متفق علیہ روایت میں سجدہ میں رفع الیدین کی نفی آئی ہے۔ دوم شعبہ کے جن شاگردوں نے سجدہ میں رفع الیدین کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی روایت میں قتادہ نے اپنے استاد نصربن عاصم سے سماع کی تصریح کی ہے۔

پس یہ روایت صحیح نہ ہوئی ۔ ملاحظہ ہونسائی کتاب الافتتاح۔

اس کے علاوہ مالک بن حویرث صحابی رضی اللہ عنہ سے سجدہ میں رفع الیدین کرنے کی روایت نقل کی جاتی ہے ۔ ان کا خود اس پرعمل نہیں۔ اس قسم کے اور کئی وجوہات ہیں ۔ جن کی بناء پر یہ حدیث ناقابل عمل ہوگئی ہے اس لیے اس پر عمل متروک ہے۔

(5۔6)جب صحت ثابت نہیں تو ناسخ منسوخ کا سوال بے محل ہے۔

(7) نیل الاوطارجلد2 ص74 میں بحوالہ ابوداؤد ذکر کیا ہے کہ میمون مکی نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو سجدہ میں دونوں ہتھیلیوں سے اشارہ کرتے دیکھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز دیکھنا چاہتا ہے تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر۔

            اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ دوصحابی رضی اللہ عنہما اس کے قائل ہیں مگر نیل الاوطار میں ذکر ہے کہ اس کی اسناد میں عبداللہ بن لہیعہ ہے جس میں کلام مشہورہے۔

(8) نیل الاوطار کے اسی مقام میں بحوالہ ابوداؤد ۔ نسائی ذکر کیا ہے۔ نصربن کثیرسعدی کہتے ہیں کہ میں نے مسجد خیف میں عبداللہ بن طاؤس کے ایک کنارے نماز پڑھی ۔ جب پہلا سجدہ کیا اور سر اٹھایا تو انہوں نے منہ کے برابر ہاتھ اٹھائے۔ میں نےاس کو انوکھا سمجھ کر وہیب بن خالد کے پاس ذکر کیا۔ انہوں نے عبداللہ بن طاؤس سے کہاآپ ایسا کام کرتے ہیں جو کسی کو میں نے یہ کام کرتے نہیں دیکھا۔ عبداللہ بن طاؤس نے جواب دیا کہ میں نے اپنے والد کو یہ کام کرتے دیکھا ہے۔ اور میرے والدنے کہا۔ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ کام کرتے دیکھا اور مجھے یاد پڑتاہے کہ انہوں نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کام کرتے دیکھا ہے۔

            اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تابعین سے طاؤس اس کے قائل ہیں۔مگر نیل الاوطار میں ہے کہ نصربن کثیر ضعیف ہے۔ اور حافظ ابواحمدنیشاپوری سے نقل کیاہے کہ یہ حدیث عبداللہ بن طاؤس کی حدیث کی جہت سے منکرہے۔

اس کے بعد نیل الاوطار میں کہاہے کہ دارقطنی نے علل میں حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ ہر نیچے جانے اور اٹھنے کے وقت رفعیدین کرتے اور فرماتے میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں زیادہ قریب ہوں۔ اور یہ احادیث استدلال کے لائق نہیں۔پس لازم یہی ہے کہ معاملہ (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ) سجدہ میں رفعیدین کی نفی (ہے) جس کو بخاری مسلم نے روایت کیا ہے۔ پر باقی چھوڑدیا جائے۔ یہاں تک کہ دلیل صحیح قائم ہو جائے جیسے دو رکعت میں تشہد پڑھ کر اٹھنے کے وقت رفع یدین پر دلیل صحیح قائم ہوگئی ہے اور سجدہ میں رفعیدین کے استحباب کے اصحاب شافعی سے ابوبکربن المندر اور ابوعلی طبری اور بعض اہلحدیث بھی قائل ہیں۔

(9)نماز ہوسکتی ہے۔ کیونکہ اس مسئلہ میں بوجہ احادیث کےاجتہادی غلطی لگ سکتی ہے۔ اور اجتہادی غلطی میں مواخذہ نہیں۔

(10) یہ شخص غلطی کرتا ہے۔ روافض کے ساتھ مشابہت نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ اجتہادی غلطی ہے۔

نوٹ:نواب صاحب نے بھی دلیل الطالب علی ارجح المطالب میں اس مسئلہ کی کافی تفصیل کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ سجدہ میں رفع یدین نہیں مگر انہوں نے زیادہ تربنا اس پر رکھی ہے کہ مالک بن حویرث کا شاگرد نصربن عاصم ضعیف ہے لیکن نواب صاحب کو اس میں ڈبل غلطی لگی ہے۔ انہوں نے نصربن عاصم انطاکی سمجھا ہے جوواقعی ضعیف ہے مگر یہاں نصربن عاصم بصری ہے جو ثقہ ہے تفصیل کے لیے تہذیب التہذیب وغیرہ ملاحظہ ہوں۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الصلوۃ،نمازکی کیفیت کا بیان، ج2 ص134 

محدث فتویٰ


تبصرے