: سجدہ کو جاتے اور سجدہ سے اٹھتے وقت رفع الیدین مسنون ہے یا نہیں ؟ سجدہ کی رفع یدین کی احادیث قابل عمل ہیں یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیوں۔ حالانکہ سجدہ کی رفع الیدین کی احادیث کتب سنن و غیرسنن میں ایک جماعت صحابہ سے آئی ہیں ۔ جن میں ضعیف اور غیرضعیف بھی ہیں۔ اگرچہ ضعیف ہیں مگر کثرت طرق سے ان کا ضعف مبجز بھی ہوسکتاہے ۔ امام نسائی نے مالک بن حویرث سے باب رفع الیدین للسجود میں اور نیزدوسری حدیث بروایت نصر ابن عاصم مالک بن حویرث سے بیان کی ہیں۔ جن میں وضاحت ہے کہ سجدہ سے اٹھتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے ۔ امام احمد نے بھی مسند احمد جلد 5 ص: 83 پر اسی مفہوم کی حدیث مالک بن الحویرث سے نقل کی ہے ۔ اس حدیث پر بعض نے یہ جرح کی ہے کہ قتادہ راوی ہے جو مدلس ہے ۔ اور قتادہ نے اس روایت کو لفظ عن مروی ہیں ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام ترمذی نے مطلقا قتادہ کی ان روایتوں کو جو بلفظ عن مروی ہیں ۔بہت جگہ صحیح کہا ہے خواہ وہ شعبہ کے طریق سے ہوں یا غیرشعبہ کے طریق سے ۔ نیز حافظ ابن حجر نے قتادہ کی اس روایت کو جو بلفظ عن مروی ہے ۔ صحیح کہتے ہیں حالانکہ وہ غیرطریق شعبہ ہے۔ جیسا کہ ابوداؤد ۔ فتح الباری ۔ تفسر فتح البیان دوسرا جواب یہ ہے کہ تحفۃ الاحوذی ص 158 میں ہے۔
«وقد تقرران رواية ابی اسحاق من طريق شعبة محمولة علی السماع وان کانت معنعنة قال الحافظ ابن حجر فی طبقات المدلسين قال البيهقی وروينا عن شعبة انه قال کفيتکم تدليس ثلثة الاعمش وابی اسحاق و قتاده قال الحافظ فهذا قاعدة جيدة فی حديث هولاء الثلاثة انها اذا جاءت من طريق شعبة دلت علی السماع ولوکانت معنعنة۔»یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ابواسحاق کی شعبہ کے واسطے سے سماع پر محمول ہے ۔ خواہ عن کے ساتھ ہو ۔ حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں بیہقی سے نقل کیا ہے کہ شعبہ کہتےہیں میں نے تین کی تدلیس سے تمہاری کفایت کی ہے ۔ اعمش ،ابواسحاق ، قتادہ ۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں ۔ یہ کھرا قاعدہ ہے ۔ ان تین میں سے جب کوئی روایت شعبہ کے ذریعہ سے آئے ۔ تووہ سماع پر دلالت کرے گی۔ اگرچہ عن کے ساتھ روایت ہو۔ یہ تو تدلیس کا جواب ہے ۔اب صرف ایک اعتراض باقی ہے کہ نصربن عاصم مالک بن حویرث روایت لینے میں متفرد ہیں ۔ دودرجہ سے یہ حرج ضرور کرتی ہے ۔ ایک اس لیے کہ نصربن عاصم لیثی بصری ثقہ ہے۔ دوسری وجہ ہے کہ مالک بن حویرث کی یہ حدیث جو سننن ابی دا ؤد ص 263مع عون المعبود میں ہے تائید کرتی ہے ۔ جومیرے نزدیک راوی ثقہ اور عادل ہیں۔ اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام ابوداؤد نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کو ہمام نے بھی محمدبن حجادہ سے روایت کیا ہے لیکن اس نے سجدہ کی رفع یدین کا ذکر نہیں کیا۔ محمدبن حجادہ کے صرف ایک شاگرد عبدالوارث نے اس کو ذکر کیا ہے ۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ عبدالوارث کامتفرد ہونا ضرر نہیں کرتا کیونکہ عبدالوارث ہمام سے بڑھ کر عادل ہے ۔ کیونکہ تقریب میں ہمام کوثقاہت کا ایک درجہ دیا ہے اور عبدالوارث کو دو درجے زیادتی ثقہ احفظ کی بالاتفاق مقبول ہے۔
علاوہ ان ہر دوروایت کے متعدد احادیث ضعیفہ اورعمل ایک جماعت صحابہ و تابعین کا ان روایتوں کو قوت دیتاہے ۔ بعض اہل علم سجدہ کی رفع یدین کی احادیث پریہ جرح کرتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن عمر اور علی بن ابی طالب اور موسیٰ اشعری ان احادیث کےمعارض ہیں ۔ کیونکہ ان کی احادیث میں سجدہ کی رفع یدین کا انکار اور نفی ہے ۔ سو یہ جرح اہل حدیث کی شان سے بعید ہے ۔ اس لیے کہ اس قسم کی احادیث کا اہل حدیث اور اصحاب الہدیٰ یہ جواب دیتے ہیں کہ روایات مشتبہ روایات نافیہ پر مقدم وترجیع رکھتی ہیں۔
۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سجدہ میں رفع یدین کی احادیث شبہ سے خالی نہیں ۔ جس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے ۔
اصول حدیث میں لکھا ہے کہ اگرکوئی محدث اسنادہ صحیح کہے تو اس سے صحبت حدیث ثابت نہیں ہوتی ۔ ہاں اگراسنادہ صحیح کہہ کر اس کے بعد کوئی جرح ذکر نہ کرے تو یہ صحت حدیث پر دلالت ہوگی کیونکہ اگر کوئی جرح ہوتی تو وہ سکوت نہ کرتا۔
الفیہ عراقی میں ہے ۔
«والحکم للاسناد بالصحة او بالحسن دون الحکم للمتن راؤ اواقبله ان اطلقه من يعتمدولم يعقبه لضعيف ينتقد»یعنی اسناد کے صحیح یا حسن ہونے کا حکم متن کے صحیح یا حسن ہونے کو نہیں چاہتا ۔ ہاں معتمد علیہ محدث اسناد پر صحیح یا حسن ہونےکاحکم کرے اور اس کےبعد کوئی ضعف بیان نہ کرے ۔ جس سے متن کی تنقید ہو تو اس صورت میں متن بھی صحیح ہوگا۔
اس عبارت کا مطلب اگر چہ بعض نے اتنا ہی بیان کیا ہے ۔ مگر اصل یہ ہے کہ اس عبارت سے دو باتیں مفہوم ہوتی ہیں ۔ ایک یہ کہ متن پر صحت یا حسن کا حکم لگانا یہ حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کاکم درجہ ہے ۔ کیونکہ اسناد پر حکم لگانےکی صورت میں یہ احتمال رہتاہے کہ شاید اس میں شذوذ یا علت وغیرہ ہو۔گویا اس احتمال کی بناپر یہ حکم لگانے سے حدیث کی صحت یا حسن اس درجہ کی نہیں سمجھیں جاتی ۔ جس درجہ کی متن پر حکم لگانے سے سمجھی جاتی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ کم درجہ معتبر ہے ۔ لیکن اس شرط پر کہ اسناد پر صحت یا حسن کا حکم لگانے کےبعد محدث سکوت کرے اور اس میں شذوذ و علت وغیرہ بیان نہ کرے جو ضعف حدیث کا باعث ہو ۔ یہ مطلب مقدمہ ابن صلاح کی عبارت سے اچھی طرح واضح ہو جاتاہے ۔ مقدمہ ابن صلاح کی نوع ثانیہ ص 16 میں ہے۔
«قولهم هذا حديث صحيح الاسناد دون ولايصح لکونه شاذا او معللاغيران المصنف المعتمد منهم اذا اقتصر علی قوله انه صحيح الاسناد ولم يذکرله علة ولم يقدح فيه فالظاهر منه الحکم له بانه صحيح فی نفسه لان عدم العلة والقادح هوالاصل والظاهر والله اعلم»یعنی محدثین کا یہ کہنا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد یا حسن الاسناد ہے ۔ یہ ان کے قول سے کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ یا یہ حدیث حسن ہے ۔ کم ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ کہا جاتاہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور درحقیقت بوجہ شاذ یا معلل ہونے کے حدیث صحیح نہیں ہوتی ہاں معتمد مصنف صحیح الاسناد کہہ کر کوئی علت اور عیب ذکر نہ کرے تو ظاہر یہی ہے کہ اس کا یہ حکم حدیث کی صحت کے بابت ہے کیونکہ اصل اور ظاہر یہی ہے کہ کوئی علت اور عیب نہیں ورنہ وہ ذکرکرتا۔
اس عبارت سے اوپر کی دونوں باتیں اچھی طرح واضح ہوگئیں کیونکہ اسناد صحت یا حسن کے حکم لگانے کی بابت کہا ہے کہ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ حدیث صحیح ہے اور جب براہ راست حدیث پر صحت یا حسن کا حکم لگایا تو یہ حدیث کے صحیح یا حسن ہونے کی تنصیص اور تصریح ہے ۔ اور ظاہر کا درجہ تنصیص سے کم ہے ۔ کیونکہ ظاہر میں کچھ احتمال رہتا ہے ۔ جیسے احتمال ہے کہ شاید شذوذ وغیرہ کا کوئی احتمال ہو ۔برخلاف تنصیص اورتصریح کے کہ اس میں اس قسم کی گنجائش نہیں ۔ اور باوجود درجہ کم ہونے کے ظاہر پر بالاتفاق عمل ہوتاہے ۔ صرف اتنی بات ہے جب ظاہر کا اور تنصیص کا مقابلہ ہوجائے تو پھر ظاہر پر عمل نہیں رہتا جیسے صحیح الاسناد کہنے سے اگرچہ صحت حدیث ظاہر ہوتی ہے لیکن جب صحیح الاسناد کہنے کےبعد محدث کسی عیب کی تنصیص اور تصریح کردے تو پھر اس تنصیص اور تصریح پر عمل ہوگا۔ ظاہر پر عمل نہیں ہوگا۔ یعنی حدیث صحیح نہیں سمجھی جائے گی ۔ اگر یہ تنصیص اور تصریح نہ ہو۔ تو پھر ظاہر پر عمل ہوگا۔ یعنی حدیث صحیح سمجھی جائے گی تو ایک عام قاعدہ کا بیان تھا ۔ اب اس اسناد کا حال سنیے جس کو حافظ ابن حجر وغیرہ نےصحیح کہا ہے۔
حافظ ابن حجر نےطبقات المدلسین ص 2 میں مدلسین کےپانچ مراتب ذکر کئے ہیں ۔ ان سے تیسرے مرتبہ کی بابت فرماتےہیں:
’’الثالثة من اكثر من التدليس فلم يحتج الائمة من احاديثهم الا بما صرحوا فيه بالسماع ومنهم من قبلهم كابي الزبير – المكي انتهي۔،،یعنی تیسرے مرتبے کے وہ لوگ ہیں جو تدلیس بہت کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی احادیث سےائمہ نے استدلال نہیں پکڑا ۔ مگر جن روایتوں میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے وہ لائق استدلال ہیں اور بعض محدثین نےان کی احادیث کو مطلق رد کردیاہے ۔ خواہ سماع کی تصریح کریں یا نہ ۔ اور بعض محدثین نےمطلقاً قبول کرلیا ہے۔
اس کے بعدآگے چل کر اس مرتبہ کےپچاس آدمی بتلائے ہیں ۔ جن سے ایک قتادہ کو بھی شمار کیا ہے ۔ چنانچہ فرماتےہیں :
’’قتاده بن دعامة السدوسی البصری صاحب انس بن مالک رضی الله عنه کان حافظ عصره وهو مشهور بالتدليس وصفه به النسائی وغيره ،،(طبقات المدلسين ص 18)یعنی قتادہ بن دعامہ سدوسی حضرت انس رضی اللہ عنہ کے شاگرد اپنے زمانے کے حافظ تھے ۔ اور وہ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں ۔ امام نسائی وغیرہ نے ان کو مدلس کہا ہے۔
اب یہاں دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ حافظ ابن حجر نےقتادہ کی تدلیس کااعتبار نہ کیا ہو ۔ اور اس کی حدیث کو مطلقاً قبول کرتے ہوئے اسناد صحیح کہہ کر سکوت کیا ۔ جس سے اوپر کے قاعدہ کے مطابق یہ حدیث ادنیٰ درجہ کی صحیح ہوگئی ۔ دوسری صورت یہ کہ قتادہ چونکہ تدلیس کےساتھ مشہور ہیں ۔ اس لیے اسناد صحیح کے بعد اس بات کے ذکر کی ضرورت نہ سمجھی کہ اس میں قتادہ مدلس ہیں ۔ کیونکہ شہرت بمنزلہ ذکر کے ہے ۔ پس اس صورت میں حدیث ضعیف ہوگی ۔ میرے خیال میں اس صورت کو ترجیع ہے ۔ کیونکہ جب ائمہ حدیث تیسرا مرتبہ والوں کی احادیث کے لائق استدلال نہیں سمجھتے تو حافظ ابن حجر سےان کی مخالفت بعید ہے ۔ اور امام ابوداؤد کا اس کو اپنی کتاب میں لانا اس کی صحت کی دلیل نہیں ۔ کیونکہ وہ ایسی ضعیف احادیث بھی لے آتے ہیں جوتائید کے قابل ہوں ۔ اور اگر بالفرض دوسری صورت کو ترجیع نہ ہو توبھی معاملہ مشکوک رہا ۔ کیونکہ احتمال ہے کہ حافظ ابن حجر اسنادہ صحیح پر شہرت کی بنا پر سکوت کیا ہو۔اور احتمال ہے کہ تدلیس کا اعتبار نہ کرتے ہوئے سکوت کیا ہو۔بہر صورت حافظ ابن حجر کےاسنادہ صحیح کہنے سے اس حدیث کی صحت سمجھنا ڈبل غلطی ہے۔اور ابن سیدالناس کے کلام کوبھی اسی پر قیاس کر لیں بلکہ ابن سیدالناس نےو رجالہ ثقات کہہ کر اسنادہ صحیح کی تفسیر کردی ہے ۔ یعنی اسنادہ صحیح سےمراد ہے کہ راوی ثقہ ہیں ۔ اور قتادہ اگرچہ مدلس ہیں لیکن ثقہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اور فتح البیان اور عون المعبود کی عبارت کا بھی یہی مطلب ہے اور اگر کچھ اور ہے توان کی غلطی ہے ۔ اور امام شوکانی کے سکوت کی وجہ بھی شہرت ہے ۔ یعنی قتادہ کی تدلیس مشہور ہے اس لیے کچھ کلام نہیں کی............ جب اس حدیث کی صحت میں شبہ رہا جس کی نسبت اسنادہ صحیح صراحۃ کہاگیا ہے تو سجدہ میں رفع یدین کی حدیث کی نسبت کس طرح تسلی ہوسکتی ہے ۔ رہی یہ بات کہ شعبہ کی روایت اعمش ۔ ابی اسحاق اور قتادہ سےسماع پر محمول ہے ۔ سواس کی نسبت عرض ہے کہ اعمش اور ابی اسحاق سےتوخواہ سماع پر مجہول ہو ۔ مگر شعبہ کی روایت کاسماع پر محمول ہونا مشکوک ہے جس کی وجہ مندرجہ ذیل ہے۔
طبقات المدلسین کی عبارت جومولوی صاحب مرحوم نےتحفۃ الاحوذی میں نقل کی ہے وہ پوری اس طرح ہے:
(وقال البيهقی ، فی المعرفة روينا عن شعبة قال کنت اتفقد فم قتادة فاذا قال حدثنا وسمعت حفظته واذقال حدث فلاں ترکته وروينا عن شعبة انه قال کفيتکم تدليس ثلاثة الاعمش وابی اسحق وقتاده (قلت فهذه قاعدة جيدة۔الخ(طبقات المدلسين ص 21)یعنی بیہقی نے معرفہ میں کہاہے کہ ہم نے شعبہ سے روایت کی۔ فرماتے تھےکہ جب قتادہ حدیث سناتے تو میں ان کے منہ کی طرف خیال رکھتا ۔ جب حدثنا اور سمعت کہتے تو میں یاد کرلیتا ۔ جب حدیث کہتے تو میں چھوڑ دیتا۔نیز بیہقی نےکہا ہم نےشعبہ سے روایت کیا فرماتے تھے میں نے تین کی تدلیس سے تمہاری کفایت کی ۔
اعمش ۔ ابواسحاق ۔ قتادہ میں (حافظ ابن حجر) کہتا ہوں ۔ یہ عمدا قاعدہ ہے ۔ ان تینوں سے جب کوئی روایت شعبہ کےواسطہ سے آئے تو وہ سماع پر دلالت کرے گی۔ خواہ عن ہی کے ساتھ روایت ہو۔
اس عبارت کے پہلا حصہ میں ہے کہ شعبہ نے قتادۃ سے وہی روایتیں لی ہیں جن میں سماع کی تصریح ہے باقی چھوڑدی ہیں ۔ تو اب عن والی روایت شعبہ سے آہی نہیں سکتی تو اس کے سماع پر محمول ہونے کے کیا معنی؟اور اس صورت میں قتادۃ کی تدلیس کی کفالت کرنے سے شعبہ کا یہ مطلب ہوگا کہ جب قتادۃ کا کوئی دوسرا شاگرد ایسے صیغہ کے ساتھ روایت کرے جس میں سماع کی تصریح نہ ہوتو وہ روایت میرے پاس لاؤ۔ میں اس کی تمیز کردوں گا کہ وہ سماع والی ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں اس کی بڑی جستجورکھتا تھا ۔ پس یہ عبارت اس بات کی دلیل ہوئی کہ یہ عن والی روایت شعبہ کی نہیں بلکہ کسی راوی کی غلطی سے شعبہ کی طرف نسبت ہوگئی ہے اور اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ مالک بن حویرث راوی حدیث کا اپنا عمل اس حدیث پر نہیں کیونکہ وہ صرف رکوع کو جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرتے تھے ۔ چنانچہ مسلم باب استحباب رفع الیدین الخ ،میں ، اور بخاری باب رفع الیدین الخ ہے۔ ہاں اگر تدلیس کی کفایت کرنے سے شعبہ کا مطلب یہ لیا جائے کہ جن روایتوں میں قتادہ نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ ان کی بابت بعد کو شعبہ نے قتادہ سے تحقیقات کرکے سماع والی اور غیر سماع والی تمیز کرلیں۔ اورروایت کرتے وقت اسی لفظ سے روایت کیں۔ جس لفظ کے ساتھ سنیں تھیں جوسماع کےلفظ کےساتھ سنیں وہ سماع کے لفظ کے ساتھ روایت کیں۔ اور جو عن وغیرہ کے ساتھ سنیں وہ عن وغیرہ کے ساتھ روایت کیں تو اس وقت بیشک حافظ ابن حجر کاقاعدہ کہ شعبہ کی روایت ان تینوں سے سماع پرمحمول ہے درست ہوگا۔ اور اس قاعدہ کی بنا پررفع الیدین کی حدیث صحیح ہوگی۔ لیکن شعبہ کے مطلب میں چونکہ شبہ پڑگیا ہے ۔ اس لیے تسلی اسی طرح نہیں ، کیوں؟اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال۔
اس کے علاوہ مالک بن حویرث کا صرف دوجگہ رفع الیدین کرنا بتلارہا ہے کہ سجدہ کی رفع یدین کوئی مستقل رفع الیدین نہیں ۔بلکہ یہ وہی ہے جو سجدہ کو جاتے اور سجدہ سے سراٹھاتے وقت ہاتھ رکھے اوراٹھائے جاتے ہیں ۔ کیونکہ احادیث کے مطابق دونوں ہتھیلیاں سجدہ میں کبھی کندھوں کے برابر کبھی منہ کے دونوں طرف رکھی جاتی ہیں ۔اور سجدہ سے سراٹھاتے وقت ساتھ اٹھائی جاتی ہیں۔ اس کی شکل و صورت بظاہر رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتےوقت رفع الیدین کی سی بن جاتی ہے۔ اس کی شکل وصورت کا لحاظ کرتے ہوئے رکوع کے رفع الیدین کے ساتھ اس کا بھی ذکر کردیا۔ اور کبھی یہ خیال کرتے ہوئے کہ یہ رکوع کا رفع یدین مستقل ہے اور یہ کوئی مستقل رفع الیدین نہیں۔ اس کا ذکر چھوڑ دیا۔اور عبداللہ بن عمراور حضرت علی رضی اللہ عنہما وغیرہ کی احادیث میں جو وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے اس سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے۔ یعنی انہوں نے بھی اس کے مستقل نہ ہونے کی وجہ سے نفی کردی ہے ۔ آپ نے ان احادیث کو معارض بتایا ہے ۔ حالانکہ یہ مؤید ہیں پھرآپ کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ عدم روئیت اور عدم روئیت اور اثبات روئیت کے منافی نہیں ۔ کیونکہ یہاں عدم روئیت اور اثبات روئیت کا مقابلہ نہیں بلکہ روئیت عدم اورروئیت اثبات کا مقابلہ ہے ۔ یعنی جن روایتوں میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں رفع یدین نہیں کرتے تھے۔ ان کی کئی روایتوں میں روئیت کی تصریح ہے۔ ملاحظہ ہو مسلم باب مذکورہ اور بخاری باب الی این رفع یرفع یدیہ فتامل فیہ۔ اور سندھی کااس طرح سے تطبیق کرنا کہ آں حضرت صلعم سجدہ کی رفع یدین کبھی کرتے کبھی نہ کرتے۔ یہ اس وقت مناسب ہے جب سجدہ کی رفع یدین مستقل طور پر ثابت ہو جائے۔ مگر جب سبب ہی مشکوک ہے تو اس کی ضرورت ہی کیا؟ اس کے علاوہ ہم کہتےہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث میں رکوع میں رفع یدین کا اثبات ہے اور سجدہ میں نفی ہے۔ اگراس کا مطلب یہ لیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں کبھی چھوڑ دیتے تھے ۔ اور راوی نے جیسا کہ دیکھا اسے بیان کردیا۔ تو اس پر سوال ہوگاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں کیوں چھوڑا۔ کیا جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا یا بھول کرچھوڑا یا منسوخ ہونے کی وجہ سے چھوڑا۔ بلاوجہ بھول کر نسبت آپ کی طرف غیر مناسب ہے۔نیز بھول میں آپ کی اقتداء نہیں ہوتی تو گویا مطلب یہ ہواکہ سجدہ میں ہمیشہ رفع الیدین کرنا چاہیے۔ حالانکہ سندھی کی یہ مراد نہیں۔ اس طرح نسخ کی صورت کو سمجھ لینا چاہیے کیونکہ نسخ کی صورت میں لازم آئے گا کہ سجدہ میں بالکل نہیں کرنا چاہیے۔حالانکہ سندھی کی یہ بھی مراد نہیں۔ اب رہی پہلی صورت یعنی جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا۔ سو اس کی بابت عرض ہے کہ سجدہ میں جواز بتلانے کی غرض سے چھوڑا ہے تو رکوع میں نہ چھوڑنے کا مطلب عدم جواز ہوگا۔ یعنی رکوع میں چھوڑنا جائز نہیں ہوگا۔ حالانکہ سندھی کی یہ مراد بعید ہے۔ کیونکہ نسائی کتاب الافتتاح کی پہلی حدیث پر سندھی نے رکوع میں بھی ترک جواز تسلیم کیا ہے۔
پھر یہاں ایک اور ڈبل اعتراض پڑتاہے وہ یہ کہ اثبات اور نفی دونوں قسم کی احادیث میں استمرار کا صیغہ ہے جو ہمیشگی اور استمرار کو چاہتاہے تو اب اس طرح سے موافقت نہیں ہوسکتی کہ کبھی کرتے کبھی نہ کرتے بلکہ اس کی صورت یہی ہے کہ سجدہ میں رفع الیدین سے مراد مستقل رفع یدین نہیں بلکہ وہی شکل و صورت رفع یدین والی ہے۔ فتامل فیہ
رہی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کو آپ نے اصل قراردیا ہے۔ اس میں عبدالوارث بن سعیدبےشک ہمام سے زیادہ ثقہ ہے۔ لیکن ہمام کو خارج سے تقویت بہت ہے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ وغیرہ کی متفق علیہ احادیث جن میں سجدہ میں رفع یدین کی نفی ہے اس کے شواہد ہیں پھر شرح نخبہ میں صحت کے چنددرجے مقرر کیے ہیں اول نمبر بخاری ، مسلم کی روایات پھر بخاری کی ، پھر مسلم کی، پھر جوبخاری و مسلم کی شرط پرہوں ۔ پھر جوبخاری کی شرط پر ہوں ۔پھر جو مسلم کی شرط پر ہوں۔ اور اس روایت کو مسلم نے بھی روایت کیا ہے ۔ لیکن اس میں سجدہ میں رفع یدین نہیں۔
پس اس جہت سے بھی اس روایت کوتقویت ہوگئی پھر عبداللہ بن وائل کے استاد میں اختلاف ہے عبیداللہ بن عمربن میسرہ رضی اللہ عنہ جو اعلی درجہ کے ثقہ ہیں جن کی بابت تقریب میں ثقہ ثبت لکھاہے یہ عبدالوارث سے وائل بن علقمہ نقل کرتے ہیں۔ اور ابوحیثمہ زہیربن حرب بھی اسی اعلی درجہ کے ثقہ ہیں وہ بھی عبدالوارث سے بواسطہ عبدالصمدبن عبدالوارث ’’وائل بن علقمہ ہی روایت کرتے ہیں۔اور ابراہیم بن الحجاج سامی جس کو تقریب میں ثقة يهم قليلا کہا ہےیعنی ثقہ ہے کچھ وہم کرتاہے۔ اور عمران بن موسیٰ ابوعمروالبصری کو تقریب میں صدوق کہا ہے۔ یہ دونوں عبدالوارث سے علقمہ بن وائل نقل کرتے ہیں ۔ اور صحیح یہی ہے۔ چنانچہ تہذیب میں اور تقریب میں ابن حجر نے اس کی تصریح کی ہے۔ اب دیکھئے عبیداللہ اور حیثمہ اعلی درجہ کے ثقہ ہیں۔ دونوں کی بابت تقریب میں لکھا ہے۔ اور ابراہیم اور عمران یہ ان کی نسبت بہت ہلکے درجہ کے ہیں کیونکہ دوسرے کو صرف سچا کہا ہے۔اس کے حافظہ وغیرہ کی تعریف نہیں کی اور پہلے اس کےلیے جامع لفظ بولا ہے جو حافظہ وغیرہ کوبھی شامل ہے لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ کچھ وہم کرتاہے مگرباوجود اس کے عبدالجباربن وائل کے استاد کی نسبت انہی کا قول درست ہے یہ کیوں؟ اس لیے کہ ان کےقول کو خارج سے تقویت پہنچ گئی ہے۔ وہ یوں عفان بن مسلم بصری نے ہمام بن یحیٰ بصری سے علقمہ بن وائل نقل کیا ہے۔ اور اسحاق بن ابی اسرائیل نے بھی عبدالصمد سے علقمہ بن وائل نقل کیاہے۔ اور کے بعد اور خارجی قرائن بھی ہیں جو عبدالحبار کا استاد علقمہ بن وائل ہونے کے مقتضی ہیں۔
اس سے معلوم ہواکہ کوئی ضروری نہیں کہ زیادہ ثقہ کی بات کو ہمیشہ ترجیح ہواکرے بلکہ بعض خارجی شواہد ادنی کو اعلی کردیتے ہیں۔ اور اسی کی بات درست ہوتی ہے۔ پس اس بناء پر ہمام کی روایت کو ترجیح ہونی چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ امام مسلم۔ ہمام کی روایت اپنی کتاب میں لائے ہیں۔ اور عبدالوارث کی نہیں لائے ۔ ملاحظہ ہو باب وضع یدہ المنی الخ۔ پس جس روایت کو آپ نے اصل خیال کیا تھا وہ محل استدلال میں فرع بھی نہ رہی۔ اس کے علاوہ مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ کی حدیث میں سجدہ میں رفع یدین سے مراد مستقل رفع یدین مراد نہ ہو تو اس میں بھی وہی مرادلینا چاہیے تاکہ سب احادیث میں موافقت ہوجائے اور کسی قسم کا اختلاف نہ رہے۔
وباللہ التوفیق