السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جب کوئی شخص مر جائے،اور اس کی نمازیں و روزے رہتے ہوں تو ان کا کیا کفارہ ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!نماز اور روزہ دو فرض عین عبادات ہیں،ان کو ادا کرنا ہر شخص پر ذاتی طور پر لازم و واجب ہے۔ شرعی عذر کے بغیر رمضان کا فرض روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے،اگر کوئی شخص شرعی عذر کے بغیر روزہ فرض چھوڑ دیتا ہے تو اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ،بلکہ اس پر اللہ سے توبہ کرنا اور اپنے گناہ کی معافی مانگنا لازم ہے۔ کفارہ صرف اسی روزے کی قضا ہے ،جو عذر (یعنی سفر اور مرض وغیرہ)کی بنیاد پر چھوڑا جائے۔ اور میت کی جانب سے ورثاء کے لئے جن روزوں کی قضا کا تذکرہ حدیث میں موجود ہے ،اسے اکثر اہل علم نے نذر کے روزوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔ جیسا کہ امام ابودائود کہتے ہیں، میں نے امام احمد کو فرماتے ہوئے سنا : ’’ لَا یُصَامُ عَنِ الْمَیِّتِ اِلَّا فِی النَّذْرِ قَالَ اَبُوْدَاوٗدُ قُلْتُ لِأَحْمَدَ فَشَھْرُ رَمَضَانَ؟ قَالَ یُطْعَمُ عَنْہُ ‘‘ [مسائل أحمد بروایۃ أبی داوٗد (ص ۹۶)]’’میت کی طرف سے صرف نذر ہی کے روزے رکھے جائیں۔‘‘ ابودائود کہتے ہیں میں نے امام احمد سے کہا: ’’تو رمضان کے روزے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’اس کی طرف سے کھانا کھلایا جائے۔‘‘ جبکہ نماز چھوڑنے کا شریعت میں کوءی عذر بھی مقبول نہیں ہے،ہر حال میں نماز پڑھنا لازم اور فرض ہے۔ اگر کسی کی کوئی نماز رہ جاتی ہے ،اور فوت ہو جاتا ہے تو اس پر بھی کوئی کفارہ نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاوی مکیہ |