سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) صلہ رحمی کی حدود

  • 7399
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 2563

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شک صلہ رحمی اور اچھے اخلاق کے مظاہرے کا سبق دیا اور صلہ رحمی کے حق دار رشتے دار بھی ہیں لیکن میرے چند رشتے دار ابھی حدود پھلانگتے جا رہے ہیں، روز روز میری ماں کو اذیتیں دینا، بلاوجہ کے اعتراضات کرنا ،چھوٹی چھوٹی بات پر گھر آنا چھوڑ دینا ان کا معمول ہے۔ میں حتی الامکان کوشش کرتا ہوں کہ ان سے پھر بھی اچھے سے بات کروں ان کی باتوں کو اگنور کروں لیکن اب معاملات حد سے بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں میرے فرائض کیا ہیں؟ کیا میں ان کی ناراضگی کی پرواہ کروں؟ اگر میں انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں چاہے وہ میرے گھر آئیں نہ آئیں تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا؟ اگر میں ان کی فضول ناراضگیوں پر انھیں نہیں مناتا ان کے مستقبل کے فتنے کے ڈر سے خاموش ہی رہتا ہوں تو کیا اس حدیث کا اطلاق مجھ پر بھی ہو گا کہ جو اپنے مسلمان بھائی سے تین دن بات نہ کرے اللہ پاک اس سے ناراض ہوتے ہیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صلہ رحمی ہوتی ہی اس وقت ہے ،جب دیگر رشتہ دار قطع رحمی اور ظلم وستم کا مظاہرہ کریں،ان کے حسن سلوک کے جواب میں اچھا سلوک کرنا صلہ رحمی نہیں بلکہ ادلے کا بدلہ ہے،ان کے ان ناروا سلوک کے باوجود آپ حتی الامکان صلہ رحمی کی ہی کوشش کریں، اسلام میں اسی کا حکم ہے اور اسی میں ہی اجر وثواب ہے۔ کہ آپ ان کی اذیتوں پر صبر سے کام لیتے ہوئے رشتوں کو قائم رکھیں۔

سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:

«أن رجلاً قال: یا رسول اﷲ ﷺ إن لي قرابة أصلھم ویقطعوني وأحسن الیھم ویسیئون إلي وأحلم عنھم ویجھلون علي فقال ﷺ: لئن کنت قلت فکأنما تسفھم الملّ ولا یزال معک من اﷲ ظھیر علیھم ما دمتَ علی ذلک» (صحیح مسلم:6525)

'' ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہا: میرے کچھ رشتہ دار ہیں ، میں ان سے صلہ رحمی کرتاہوں اور وہ قطع رحمی کرتے ہیں ۔ میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں ۔ میں ان سے بُردباری سے پیش آتاہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا معاملہ کرتے ہیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر معاملہ تمہارے کہنے کے مطابق ہو تو جب تک تم ایساکرتے رہو گے، تب تک ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔''

دوسری جگہ فرمایا:

«لیس الواصل بالمکافي ولکن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلھا»

'' برابربدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے، صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔'' (صحیح بخاری:5991)

اس سے معلوم ہوا کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینا یا ملنے والوں سے ملنا تو مکافات کہلاتا ہے اور روٹھوں کو ملانا صلہ رحمی ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاوی مکیہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ