سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) اللہ تعالی ہر چیز کا خالق اوراس کے سوا سب مخلوق ہے

  • 7391
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 5519

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ تعالی ہر چیز کا خالق اوراس کے سوا سب مخلوق ہے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالی ہر چیز کا خالق اوراس کے سوا سب مخلوق ہے

الحمدلله وحده ، والصلوة  والسلام علي من لانبي بعده، وعلي آله وصحبه _ امابعد:

میری طرف ایک بھائی نے لکھا ہے کہ  ان کے ایک دوست نے انہیں یہ کہہ کرشبہ میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اللہ تعالی آسمان ،زمین عرش کرسی اورہوچیز کا خالق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے ؟اس بھائی نے اپنے دوست کو یہ جواب دیا کہ تمہاری بات کا پہلا حصہ توٹھیک ہے لیکن دوسرا حصہ ٹھیک نہیں اوراس کے بارے میں کسی مسلمان کو بات کرنا زیب نہیں دیتا لہذا تمہیں اسی قدر کافی ہے جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافی تھا ،علم کے سمندر ہونے کے باوجود انہوں نے کبھی اس طرح کا سوال نہیں کیا تھا ،نیز انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالی نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے:

لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ‌ (الشوری۴۲/۱۱)

‘‘اس جیسی کوئی چیز نہیں اوروہ سنتادیکھتا ہے۔’’

نیز فرمایا: ﴿هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ‌ وَالظَّاهِرُ‌ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ﴾

(الحدید۵۷/۳)

‘‘وہ(سب سے)پہلااور(سب سے)پچھلا اور(اپنی قدرتوں سے سب پر)ظاہر اور(اپنی ذات کے لحاظ سے)پوشیدہ ہے اوروہ تمام چیزوں کو جانتا ہے۔’’

اس بھائی نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اس شبہ کا میں جواب دوں ،لہذا اس کا میری طرف سے جواب حسب ذیل ہے:

خوب اچھی طرح جان لیجئے۔۔۔اللہ تعالی مجھے ،آپ کو اورتمام مسلمانوں کو دین میں سمجھ بوجھ اورثابت قدمی عطافرمائے۔۔۔کہ شیاطین انس وجن مسلمانوں کو بہت سے شبہات میں مبتلا کرتے رہے اورکرتے رہیں گے،ان کا مقصود یہ ہے کہ حق میں تشکیک پیداکرکے مسلمانوں کو ایمان کے نور سےنکال کرکفر کی ظلمتوں کی طر ف لے آئیں،لیکن کافر باطل عقیدہ پر جمے رہیں،یہ بات اس اللہ کے علم وقدرت میں تھی کہ ایسا بھی ہوگا کہ جس نے اس دنیا کو آزمائش وامتحان کا گھراورحق وباطل کی کشمکش کا مقام بنایا ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ ہدایت کا طالب کون ہے اور کون نہیں ہے،سچا کون ہے اور جھوٹا کون ،مومن کون ہے اورمنافق کون،جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿الم ﴿١﴾ أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَ‌كُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ﴿٢﴾ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ﴾ (العنکبوت۲۹/۶۵)

‘‘الم0کیا یہ لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف)یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ،چھوڑدیئے جائیں گےاوران کی آزمائش نہیں کی جائے گی اورجولوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں ہم نے ان کو بھی آزمایا تھا(اوران کوبھی آزئیں گے)سواللہ ان کو ضرورظاہر کرے گاجو(انے ایمان میں)سچے ہیں اوران کوبھی جو جھوٹے ہیں۔’’

اورفرمایا:

﴿وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ حَتَّىٰ نَعْلَمَ الْمُجَاهِدِينَ مِنكُمْ وَالصَّابِرِ‌ينَ وَنَبْلُوَ أَخْبَارَ‌كُمْ﴾

(محمد۳۱/۴۷)

‘‘اورہم تم لوگوں کو ضرورآزمائیں گےتاکہ جوتم میں سے جہاد کرنے والے اورثابت قدم رہنے والے ہیں،ان کومعلوم (ظاہر)کریں اورتمہارے حالات جانچ لیں۔’’

نیز فرمایا:

﴿وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِ‌كُونَ﴾ (الانعام۶/۱۲۱)

‘‘اورشیطان(لوگ)اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اوراگرتم لوگ ان کے کہے پر چلے توبے شک تم بھی مشرک ہوجاوگے۔’’

اورفرمایا:

﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُ‌فَ الْقَوْلِ غُرُ‌ورً‌ا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَ‌بُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْ‌هُمْ وَمَا يَفْتَرُ‌ونَ ﴿١١٢﴾ وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَ‌ةِ وَلِيَرْ‌ضَوْهُ وَلِيَقْتَرِ‌فُوا مَا هُم مُّقْتَرِ‌فُونَ﴾ (الانعام۶/۱۱۲۔۱۱۳)

‘‘اوراس طرح ہم نے شیطان(سیرت)انسانوں اورجنوں کو ہرپیغمبر کا دشمن بنادیاتھا،وہ دھوکہ دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے اوراگرتمہاراپروردگارچاہتاتووہ ایسانہ کرتے،توان کو اورجوکچھ یہ افتراءکرتے ہیں،اسے چھوڑدواور(وہ ایسے کام )اس لئے بھی (کرتے تھے)کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انہیں پسند کریں اورجوکام وہ کرتے تھے ،وہی کرنےلگیں۔’’

پہلی ،دوسری اورتیسری آیت میں اللہ سبحانہ وتعالی نے یہ واضح فرمایا ہےکہ وہ ہرمدعی ایمان کی آزمائش کرتا رہتا ہےتاکہ یہ واضح ہوسکے کہ وہ اپن دعوی ایمان میں سچا ہے یا نہیں ۔ اللہ سبحانہ وتعالی نےہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اس نےہم سے پہلے لوگوں کی بھی آزمائش کی تاکہ وہ سچے اورجھوٹے کو جان لے،یہ آزمائش مال،فقر،مرض،صحت اوردشمن کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اوران مختلف شبہات کی صورت میں بھی شیاطین جن وانس پیدا کرتے ہیں،اس قسم کی آزمائش کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ دعوی ایمان میں سچاکون ہے اورجھوٹا کون اوراللہ تعالی یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ یہ ظاہر اور بیرونی طورپر موجود ہے یا نہیں ،حالانکہ اپنے علم سابق کے اعتبار سے اللہ تعالی کو یہ بات پہلے سے بھی معلوم ہے کیونکہ ہر چیز اللہ تعالی کے  علم میں ہے ،جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے:

 ﴿لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ‌ وَأَنَّ اللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا ﴾        (الطلاق۱۲/۶۵)

‘‘تاکہ تم لوگ جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے،اور یہ کہ اللہ اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔’’

نبی کریمﷺنے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوقات کی تقدیروں کا اندازہ آسمانوں کی تخلیق سے پچاس ہزاربرس پہلے مقررفرمادیا تھا اوراس وقت اللہ کا عرش پانی پر تھا

(صیح مسلم)لیکن اللہ عزوجل اپنے علم سابق کی بنیاد پر اپنے بندوں کا مواخذہ نہیں کرتا بلکہ وہ بندوں کے اعمال کو معلوم کرنے کے بعد ان کا مواخذہ کرتا یا انہیں اجروثواب سے نوازتا ہےحالانکہ بندوں کے اعمال کا اسے پہلے سےعلم ہے لیکن وہ بندوں سے جزاوسزاکامعاملہ ان کے اعمال کے خارج میں ظہورپذیرہونے کے بعد کرتا ہے۔چوتھی،پانچویں اورچھٹی آیت میں اللہ تعالی نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ شیاطین اپنے رفیقوں کے دلوں میں انواع واقسام کے شبہات اورملمع سازی کی ایسی باتیں ڈالتے ہیں جن سے وہ اہل حق کو دھوکا دے سکیں تاکہ ان لوگوں کے دل ان کی باتوں کی طرف متوجہ ہوں جن کاآخرت پر ایمان نہیں ہے اوروہ ان باتوں سے خوش ہوں،اپنی معرکہ آرائیوں کوجاری رکھ سکیں اورحق کو باطل کے ساتھ ملادیں،حق کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کردیں،انہیں ہدایت سے روک دیں لیکن اللہ سبحانہ وتعالی ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالی اپنی رحمت سے اپنے کچھ ایسے بندوں کو بھی توفیق دیتا ہے جوان شیطانوں اوران کے رفیقوں کے پھیلائے ہوئے شبہات کو طشت ازبام کردیتے ہیں اور براہین قاطعہ ودلائل ساطعہ کے ساتھ ان کے باطل نظریات کا پردہ چاک کردیتے ہیں تاکہ وہ حجت تمام کر دیں،عذر ختم کردیں اورپھر اللہ تعالی نے جوکتاب نازل فرمائی ہے،یہ بھی تو ہرچیز کو کھول کھول کربیان کررہی ہے،جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:

﴿وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَ‌حْمَةً وَبُشْرَ‌ىٰ لِلْمُسْلِمِينَ﴾     (النحل ۸۹/۱۶)

‘‘اورہم نےآپ پر(ایسی) کتاب نازل کی ہے کہ(اس میں)ہرچیز کا بیان (مفصل) ہے اور مسلمان کے لئےہدایت،رحمت اوربشارت ہے۔’’

اورفرمایا: ﴿وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرً‌ا﴾ (الفرقان۲۵/۳۳)

‘‘اوریہ لوگ آپ کے پاس جو (اعتراض کی )بات لاتے ہیں ہم آپ پاس اس کا معقول اورخوب مشرح جواب بھیج دیتے ہیں۔’’

بعض سلف نے فرمایا ہے کہ یہ آیت عام ہے اورہر اس دلیل کو شامل ہے جو اہل باطل قیامت تک پیش کریں گے۔احادیث صیحہ سے یہ ثابت ہےکہ بعض صحابہ کرامؓ نے نبی کریمﷺکی خدمت میں عرض کیا ‘‘یارسول اللہ !ہمارےدل میں کبھی ایسی باتیں آتی ہیں ،جنہیں زبان پر لانا ہم بہت مشکل سمجھتے ہیں ؟’’فرمایا ‘‘کیا یہ صورت تم میں پیدا ہوگئی ہے؟’’صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ‘‘جی ہاں’’‘‘یہ تو صریح ایمان ہے۔’’بعض اہل علم نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انسان کے دل میں شیطان کبھی ایسے شکوک ووسوسے پیدا کرتا ہے کہ ان کی خرابی اورقباحت کی وجہ سے انہیں زبان پر لانا بہت مشکل محسوس ہوتا ہے حتی کہ انہیں زبان پر لانے سے یہ کہیں آسان معلوم ہوتا ہے کہ انسان آسمان سے گرپڑے ،لہذا مرد مومن کا ان وسوسوں کو منکر سمجھنا ،ان کو بہت برا سمجھنا اوران کے خلاف جنگ  کرنا صریح ایمان ہےکیونکہ اللہ تعالی کی ذات گرامی اوراس کے کمال اسماءوصفات پر سچے ایمان اوراس باات پر ایمان کہ اس کا کوئی مثیل ونظیر نہیں اوروہ خلاق ،علیم ،حکیم اورخبیر ہے ،کا بھی یہ تقاضا ہے کہ مرد مومن ان شکوک وشبہات کا انکار کردے ،ان کے خلاف جنگ  کرے اوران کے باطل ہونے کا عقیدہ رکھے ۔بلاشک وشبہ آپ کے دوست نے جو ذکر کیا یہ اسی قسم کے وسوسوں میں سے ہے ،آپ نے اس کا اچھا جواب دیا ہے اور صیح طریقہ سے اس کی تردید کی ہے۔اللہ تعالی آپ کو مزید علم وتوفیق سے نوازے۔

اس سوال کے جواب کے سلسلہ میں ،اس مسئلہ کے بارے میں وارد بعض احادیث اور اہل علم کے کلام کے بعض حوالہ جات ان شاءاللہ تعالی اب میں ذکر کروں گا تاکہ آپ کے لئے اورشبہ میں مبتلا آپ کے دوست کے لئے صورت حال واضح ہوجائے اوریہ بھی معلوم ہوجائے کہ اس قسم کے شبہات کے پیدا ہونے کے وقت ایک مومن کے  لئے کیا واجب ہے ،اللہ تعالی کی توفیق وعنایت سے اس موضوع سے متعلق کچھ دیگر ضروری باتیں بھی ذکر کی جائیں گی۔

وهو سبحانه ولسي التوفيق  والهادي الي سوآء السبيل

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ‘‘الجامع الصیح’’مع فتح الباری ص ۳۳۶ ج ۶ طبع مطبعہ سلفیہ)کے‘‘باب صفۃ ابلیس وجنووہ’’میں فرماتے ہیں(یحیی بن بکیر ،لیث،عقیل،ابن شہاب،عروہ بن زبیر کی سند کے ساتھ )کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےبیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘شیطان تم میں سے ایک کے پاس آتا ہے اوریہ کہتا ہے کہ اس چیز کو کس نے پیدا کیا ، اس  کو کس نے پیدا کیاحتی کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ؟جب کوئی آدمی یہاں تک پہنچ جائے تووہ اللہ تعالی کی پناہ چاہے(استغفارپڑھے )اوررک جائے’’پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صیح البخاری(مع فتح البخاری ص ۲۶۴ جلد ۱۳)کتاب الاعتصام میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گے حتی کہ وہ یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی ہرچیز کا خالق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کا خالق کون ہے؟’’امام مسلم نے صیح مسلم (مع شرح النووی ص ۱۰۴ ج ۲)میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے جو قبل ازیں ہم صیح بخاری کے حوالے سے ذکر کرآئے ہیں نیز انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک دوسری حدیث بھی ذکر کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گے حتی کہ وہ یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی نے تو مخلوق کو پیدا فرمایا  لیکن اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے۔جوشخص اس طرح کی کوئی بات پائے تووہ یہ کہے کہ

((امنت بالله ورسله)) میں اللہ تعالی اوراس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔’’

اس کے بعد امام مسلم نے اس حدیث کو کچھ دوسرے الفاظ کے ساتھ بھی روایت کیا ہے اورپھر حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے جس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ‘‘اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا ہے،‘‘ آپ کی امت کے لوگ یہ کہتے رہیں گے کہ یہ کیا ہے ،یہ کیا ہے حتی کہ وہ بھی کہنے لگیں گے کہ اللہ تعالی نے مخلوق کوپیدافرمایا لیکن اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے؟’’امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نےحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی ذکر کی ہے کہ نبی کریمﷺکی خدمت  میں کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حاضر ہوئے اورانہوں نے کہا کہ ہم اپنے نفسوں میں کچھ ایسی باتیں پاتے ہیں کہ جنہیں زبان پر لانابہت بڑا کام محسوس ہوتا ہے۔آپؐ نے فرمایا ‘‘ کیا تم نے  یہ صورت حال پا لی ہے ؟’’صحابہ کرامؓ نے جواب دیا‘‘جی ہاں’’توآپﷺ نے فرمایا ‘‘یہ تو صریح ایمان ہے۔’’پھر امام مسلم نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی بیان کی ہے کہ نبی کریمﷺسے وسوسہ کے بارے میں پوچھاگیا توآپ ؐنے فرمایا کہ‘‘یہ تومحض(خالص)ایمان ہے۔’’امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ‘‘شرح مسلم’’میں ان احادیث کے ذیل میں فرمایا ہے کہ جہاں تک ان احادیث کے معانی اورفقہ کا تعلق ہے توان میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ‘‘یہ تو صریح ایمان ہے’یہ محض ایمان ہے۔’’توان کے معنی یہ ہیں کہ تمہاراان باتوں کے زبان پر لانے کو بہت بڑا سمجھنا صریح ایمان ہے کہ اسے بڑا سمجھنااورعقیدہ رکھنا توبڑی دورکی بات ہے ،شدت خوف کی وجہ سے اسے زبان پرلانے کو بھی بہت گراں سمجھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان یقینا مکمل اورتمام شکوک وشبہات سے پاک ہے،دوسری روایت میں اگرچہ اس بات کو بڑا سمجھنے کا ذکر نہیں ہے لیکن اس سے بھی مرادیہی ہے ،یہ گویا پہلی روایت ہی کااختصار ہے ۔یہی وجہ ہے کہ

امام مسلم نے پہلی روایت کو پہلے ذکرفرمایا ہے۔اس حدیث کے یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ شیطان جب انسان کو گمراہ کرنے سے مایوس ہوجاتا ہے تووہ اس کے دل  میں وسوسے ڈال کراسے پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے،جب کہ وہ کافر کے پاس جیسے چاہتا ہے آتا جاتا ہے اوراس کل سلسلہ میں صرف وسوسہ پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ تووہ جس طرح چاہتا ہے ،کھیلتا ہے تواس اعتبار سے حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ وسوسہ کا سبب محض ایمان ہے یا یہ کہ وسوسہ ایمان کے خالص ہونے کی علامت ہے ،چنانچہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویہ فرمایا ہےکہ جوشخص ایسا محسوس کرے تووہ یہ کہے کہ

‘‘امنت باللہ’’اوردوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالی کی پناہ چاہے اوراس وسوسہ سے رک جائے تواس کے معنی یہ ہیں کہ اس باطل خیال کوجھٹک دےاوراس کے ازالہ کے لئے اللہ کی طرف توجہ کرے۔امام زری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے رسول اللہ ﷺنے  حکم یہ دیا ہے کہ وسوسوں کو نظر واستدلال کے طریق سے باطل قراردینے کی بجائے ان سے اعراض کرکے اورانہیں جھٹک کر دورکرنا چاہئے تواس سلسلہ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وسوسوں کی دوقسمیں ہیں (۱)وہ جو مستقل نہیں ہیں اورنہ وہ شبہات کی پیداوار ہیں تواس قسم کے وسوسوں کواعراض اورروگردانی کے ذریعہ ختم کیا جاسکتا ہے،چنانچہ پہلی حدیث کو اسی معنی پر محمول کیا جائے گااوراس طرح  کی کفیت کو وسوسہ کا نام دیا جائے گا،گویا جب کسی اصل کے بغیر کوئی امر طاری ہوتواسے دلیل پر غوروفکرکئےبغیر ردکردیاجائے گاکہ اس کا کوئی اصل ہے ہی نہیں کہ اس کا جائزہ لیا جائے لیکن اس کے برعکس جو وسوسے شبہات کی پیداوار ہیں ،انہیں باطل قراردینے کے لئے نظر واستدلال ہی کا طریقہ اختیار کیا جائے گا۔واللہ اعلم۔

 نبی کریمﷺنے جو یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ‘‘اللہ تعالی کی پناہ چاہے اوراس سےرک جائے۔’’تواس کے معنی یہ ہیں کہ جب یہ وسوسہ پیدا ہوتوآدمی کوچاہئے کہ اس کے شرکو دورکرنے کے لئے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراس کے بارے میں غوروفکر سے بازرہےاورجان لے کہ یہ خیال باطل شیطانی وسوسہ ہے اورشیطان کی یہ کوشش ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرکے فتنہ وفساد میں مبتلاکرد ےلہذا وسوسہ کی  طرف مائل ہونے سے فورا اعراض کرنا چاہئے اوراسے ختم کرنے کے لئے اسے ذہن سے جھٹک کر آدمی کو چاہئے کہ کسی اورکام میں مشغول ہوجائے۔

(شرح صیح مسلم از امام نووی،ص:۱۵۶)

حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ‘‘فتح الباری’’میں اس جواب کے شروع میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ‘‘تمہارے رب کوکس نے پیدا کیا،جب یہاں تک پہنچ جائے تو اللہ تعالی کی پناہ مانگے اوررک جائے۔’’یعنی اس وسوسہ کو مزید جاری رکھنے سے رک جائے ،اس کے ازالہ اورخاتمہ کے لئے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اورجان لے کہ اس وسوسہ کے ذریعے شیطان اس کے دین وعقل کو خراب کرنا چاہتا ہے لہذا کسی دوسری بات میں مشغولیت اختیار کرکے اسے ترک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم  یہ ہے کہ جب شیطان وسوسہ ڈالے اورانسان اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہوئے اس وسوسہ کو مزید وسعت دینے سے رک جائے ،تووسوسہ ختم ہوجاتا ہے ۔انسان کا انسان کے ساتھ معاملہ ہوتواسے حجت وبرہان کے ساتھ خاموش کیا جاسکتا ہے کیوں کے انسان کے ساتھ کلام سوال وجواب کی صورت میں ہوتا ہے اور یہ کلام محدود ہوتا ہے ۔اگرانسان صیح اسلوب اختیار کرے اورصیح دلیل پیش کرے تومدمقابل جو انسان ہو وہ خاموش ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس شیطان کے وسوسہ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔انسان جب ایک دلیل دیتا ہے توشیطان اس کے مقابلہ میں دوسری دلیل پیش کرتا ہے اوریہ سلسلہ جاری رہتا ہے حتی کہ انسان حیران وپریشان ہوجاتا ہے۔ ((نعوذ بالله ذلك))

خطابی فرماتے ہیں کہ شیطان کا یہ کہنا کہ ‘‘تیرے رب کو کس نے پیدا کیا ۔’’یہ ایک بے معنی کلام ہے جس کا آخری حصہ پہلے کے مخالف ہے کیونکہ جو خالق ہواس کےلئے یہ محال ہے کہ وہ مخلوق ہو ۔اس سوال  کواگر صیح مان لیا جائے تو اس سے تسلسل لازم آتا ہے اوروہ محال ہے اورعقل نے یہ ثابت کیا ہے  کہ محدثات کسی محدث کی محتاج ہیں اوراگرمحدث بھی کسی اورمحدث کا محتاج ہو تو وہ محدث نہ رہا بلکہ وہ بھی محدثات میں سے ہوگیا۔علامہ خطابی نے  یہاں جو شیطانی وسوسہ اورانسانی کلام میں فرق کیا ہے یہ محل نظر ہے کیونکہ صیح مسلم میں جو حدیث ہشام بن عروۃ عن ابیہ  کی سند سے ہے،اس میں یہ الفاظ ہیں کہ لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گےکہ اس مخلوق کو تو اللہ نے پیدا کیا ہے تواللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟جو شخص اس طرح کی کوئی بات پائے تووہ یہ کہے کہ

امنت بالله‘‘میں اللہ تعالی پرایمان رکھتا ہوں’’تو اس حدیث میں اس بات میں غوروغوض کو جاری رکھنے سے منع فرمادیا ہے اوراس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کیا کہ سائل بشرہے یا کوئی اور۔

صیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ اس کے بارے میں مجھ سے دوآدمیوں نے پوچھا لیکن جب سوال ہی بے معنی تھا تووہ جواب کا مستحق نہ تھا یا اس قسم کے وسوسہ سے رک جانا اسی طرح ہے جس طرح صفات وذات باری کے بارے میں غوروغوض سے روک دیا گیا ہے۔علامہ مازری بیان کرتے ہیں کہ وسوسوں کی دوقسمیں ہیں (۱) جو مستقل  نوعیت کےنہیں ہوتےاورنہ وہ شبہ کی پیداوار،انہیں اس طرح دور کیا جاسکتا ہے کہ ان سےروگردانی کرلی جائےجیسا کہ حدیث میں ہے،اس قسم کے خیا کو وسوسہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔(۲)وہ خیالات جومستقل نوعیت کے ہوتے ہیں اورشبہات کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں ،ان کا ازالہ نظرواستدلال سے کیا جاتا ہے۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکم یہ ہے کہ وسوسہ کے وقت اللہ تعالی کی پناہ طلب کی جائے اورکسی دوسرے کام میں مشغولیت اختیارکرلی جائے لیکن اس کے بارے میں یہ حکم نہیں ہے کہ اس پر غور کیا جائے اوردلیل دی جائے کیونکہ اس بات کا علم کہ اللہ عزوجل اپنے موجد سے بے نیاز ہے،ایک ضروری امر ہے جس میں کسی قسم کے مناظرہ کو کوئی گنجائش نہیں اورپھر اس مسئلہ میں زیادہ سوچ بچارکرنے سے انسان کی حیرت میں اضافہ ہوگا اورجس کایہ حال ہواس کا علاج یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے اوراسی کی ذات گرامی کے ساتھ وابستگی اختیار کرے۔اس حدیث میں ایسے امور کے بارے میں کثرت سوال کی مذمت کا اشارہ بھی ہے ،جن سے آدمی کو کوئی فائدہ نہ ہو اوروہ ان سے بے نیاز ہو،اس حدیث میں نبوت کی صداقت کی یہ دلیل بھی ہے کہ جن باتوں کے وقوع پذیر ہونے کی آپ نے پیش گوئی فرمائی،وہ واقع ہو کر رہیں ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب‘‘موافقۃ صحیح المنقول لصریح المعقول’’میں فرماتے ہیں کہ لفظ تسلسل سے مراد تسلسل فی الموثرات ہوتا ہے۔۔۔اوریہ کہ حادث کو کوئی فاعل اورفاعل کا پھر کوئی فاعل ہو۔۔۔اوریہ بات صریح عقل اوراتفاق عقلاء کی روشنی میں باطل قرارپائی ہے اور یہی وہ تسلسل ہے جس کے بارے میں نبی کریمﷺنے یہ حکم دیا ہےکہ اس سے اللہ تعالی کی پنا ہ مانگی جائے۔اس سے آپ ؐنے رک جانے کا حکم بھی دیاہے اوریہ بھی حکم دیا ہے کہ اس موقع پر یہ کہا جائے کہ

امنت باللهجیساکہ صیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘‘شیطان تم میں سےکسی ایک کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس  کو کس نے پیدا کیا حتی کہ وہ اس سے یہ  کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیاہے؟’’آپؐ نے فرمایا‘‘آدمی جب یہاں تک پہنچ جائے تووہ اللہ تعالی کی پناہ مانگےاوررک جائے۔’’اورایک روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘لوگ ہمیشہ سوال کرتے رہیں گے حتی کہ وہ یہ بات بھی پوچھیں گے  کہ اللہ تعالی نے تو مخلوق کو پیدا فرمایا ہے لیکن اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ہے؟’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابھی مسجد ہی میں تھا کہ میرے پاس کچھ بدوی لوگ آئے اورانہوں نے کہا کہ  ابوہریرہ !یہ مخلوق تو اللہ تعالی نے پیدا فرمائی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کو کس نے پیدافرمایا ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ میں کنکریاں پکڑ کران پر دے ماریں اورکہا کہ کھڑے ہوجاہ ،کھڑے ہوجاو،میرے خلیل(ﷺ)نے بالکل سچ فرمایا تھا’’صیح میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے ،‘‘آپ کی امت کے لوگ ہمیشہ یہ سوال کرتے رہیں گےکہ یہ کیا ہے؟ حتی کہ وہ کہیں گے  کہ اس مخلوق کو اللہ تعالی نے پیدا فرمایا ہے تو اللہ تعالی کو کس نے پیدا کیا ؟’’

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے مقصودپوراہوگیا۔شاید اب سائل اوراس کے دوست کے سامنے بات واضح ہوگئی ہو جس نے یہ  شبہ پیش کیا تھا ۔ہم نے آیات ،احادیث اوراہل علم کے جن اقوال کو ذکر کیا ہے ان سے اس شبہ کا نہ صر ف یہ کہ ازالہ ہوجاتا ہے بلکہ یہ اس شبہ کو بیخ وبن سے اکھاڑ کر اسے بالکل باطل کردیتے ہیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا نہ کو ئی شبیہہ ہے ،نہ ہم سراورنہ شریک ۔وہ اپنی ذات ،اسماء ،صفات اورافعال میں کامل ہے ،وہ ہر چیز کا خالق ہےاوراس کے سوا ہرچیز مخلوق ۔اللہ تعالی نے اپنی کتاب مقدس میں اپنے رسول امین ﷺکی زبانی ہمیں وہ سب کچھ بتادیا ہےجس کا اللہ سبحانہ وتعالی کے حوالے سے اعتقاد رکھنا واجب ہے اورہمیں وہ سب کچھ بھی بتادیا ہے جس سے ہمیں اللہ تعالی کی ذات گرامی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔یہ معرفت اس کے اسماء وصفات اوراس کی پیداکرداہ اورصاف نظر آنے والی نشانیوں سے بھی حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی کی پیدا کردہ انہی نشانیوں میں سے خود انسان کا اپنا وجود بھی ہے کہ یہ بلاشبہ ایک ایسی نشانی ہے جو اللہ تعالی کی قدرت وعظمت اوراس کے کمال علم وحکمت پر دلالت کناں ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایاہے:

﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ‌ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ﴾ (آل عمران۳/۱۹۰)

‘‘بے شک  آسمانوں اورزمین کی پیدائش اوررات اوردن کے بدل بدل کرآنے جانے میں عقل والوں کے  لئے بہت بڑی نشانیاں ہیں۔’’

نیزفرمایا:

﴿وَفِي الْأَرْ‌ضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ﴿٢٠﴾ وَفِي أَنفُسِكُمْ ۚ أَفَلَا تُبْصِرُ‌ونَ﴾ (الذاریات۵۱/۲۰۔۲۱)

‘‘اوریقین کرنے والوں کے لئے زمین میں (بہت سی)نشانیاں ہیں اورخود تمہارے نفوس میں بھی ،توکیا تم دیکھتے نہیں؟۔’’

باقی رہی اللہ تعالی کی ذات گرامی کی حقیقت وکیفیت اوراس کی صفات کی کیفیت ،تواس کاتعلق اس علم غیب سے ہےجس پر اللہ تعالی نے ہمیں مطلع نہیں فرمایا،اس پر ایمان لانا ،اسے تسلیم کرنا اوراس میں غورو غوض کرنا واجب ہےجیسا  کہ ہمارے سلف صالح ، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم نے اس میں غورو غوض نہیں کیا،نہ اس کے بارے میں سوال کیا بلکہ ان  کا اللہ تعالی کی ذات گرامی پر اوراس پر جو اس  نے اپنی کتاب میں  اپنے بارے میں فرمایایاجسے اپنے رسول حضرت محمد ﷺکی  زبانی بیان فرمایا،ایمان تھا اوراس پر انہوں نے اپنی طرف سے کچھ اضافہ نہ کیا،ان  کا ایمان تھا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کےمثل کوئی چیز نہیں ہے اور وہ سمیع وبصیر ہے۔

جو شخص بھی اس طرح کا کوئی وسوسہ محسوس کرے یا اس کے سامنے اس طرح  کو کوئی وسوسہ پیش کیا جائے تو اسے چاہئے کہ اسے زبان پر لانے کو بہت بڑا سمجھے اوردل کی

اتھاہ گہرائیوں سے اس قسم کے وسوسوں کو مستردکردےاوریہ کہے کہ اللہ اوراس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں ،نیز شیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالی کی پناہ چاہے، وسوسوں کو جھٹک دے اوران سے فورا اعراض کرلے جیسا کہ سابقہ ذکر کی گئی احادیث میں رسول اللہ ﷺنے ہمیں یہی حکم دیا ہےاورآپؐ نے فرمایا ہے کہ  ان وسوسوں کو بڑا سمجھنااورانہیں ردکردینا صریح ایمان ہے اوراس کے ساتھ ساتھ آپؐ نے یہ بھی تلقین فرمائی ہے کہ اس باب میں سوال کرنے والوں کے ساتھ گفتگوکو طول بھی نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس موضوع میں طول کلام،انسان کو بہت زیادہ شراور نہ ختم ہونے والے شکوک وشبہات تک پہنچادے گا۔شکوک وشبہات اور وسوسوں کے خاتمہ اوران سے محفوظ رہنے کے لئے سب سے بہتر علاج یہ ہےکہ نبی کریمﷺکے   ارشادات کی تعمیل کی جائے، آپﷺکے   ارشادات کو مضبوطی سے تھام کر انہی کے ساتھ وابستگی اختیار کی جائے اوران مسائل میں غوروغوض نہ کیا جائے اوریہ طرز عمل اللہ تعالی کے اس ارشاد گرامی سے بھی ہم آہنگ ہے کہ :

﴿وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ﴾ (فصلت۳۶/۴۱)

‘‘اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو،بےشک وہ سنتا جانتا ہے۔’’

اللہ سبحانہ وتعالی کی پناہ مانگنا،اس کی طرف رجوع کرنا اور ان باتوں غور وخوض نہ کرنا جنہیں وسوسہ پیدا کرنے والوں،باطل کلام پیش کرنے والے فلسفیوں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے دیگر لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے اسماءوصفات اور علم غیب کے باب میں کسی حجت وبرہان کے بغیر مشہور کر رکھا ہے۔یہ اہل حق وایمان کا طریقہ ہے اور یہی سلامتی،نجات اور شیاطین جن وانس کے مکر وفریب سے محفوظ رہنے کا طعیقہ ہے۔اللہ تعالیٰ مجھے،آپ کو اور تمام مسلمانوں کو شیطان کی وسیسہ کاریوں سے محفوظ رکھے۔

حضرت ابوہریرۃؓ سے جب بعض لوگوں نے وسوسہ کے باری میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دینے کی بجائے انہیں کنکریاں ماریں اور کہا کہ میرے خلیل(ﷺ)نے بالکل سچ فرمایا تھا۔

اس سلسلہ میں مومن کے لئے اییک اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرے اور خوب تدبر سے کام لے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی صفات،اس کی عظمت اور اس کے وجود کے بارے میں ایسے ایسے دلائل ہیں جو دلوں کو ایمان،محبت اور تعظیم سے بھر دیتے ہیں اور جن سے یہ پختہ اعتقاد پیدا ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی ہر چیز کا رب اور مالک ہے۔وہی ہر چیز کا خالق وعالم ہے،اس کے سوا نہ کوئی معبود ہے اور نہ رب۔اسی طرح مومن کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی بکثرت کرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اسے مزید علم نافع،بصیرت وفراست اور حق پر ثابت قدمی عطا فرمائے اور ہدایت کے بعد کج روی سے بچائے۔اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بندوں کو یہ توجہ دلائی ہے کہ وہ اس سے سوال کریں،دعا مانگنے کی اس نے ترغیب دی اور اپنے بندوں کی دعاؤں کو شرف قبولیت سے نوازنے کا اس نے وعدہ فرمایا ہے،چنانچہ ارشاد گرامی ہے:

﴿وَقَالَ رَ‌بُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُ‌ونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِ‌ينَ﴾(غافر۶۰/۴۰)

‘‘اور تمہارے پروردگار نہ کہا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری(دعا)قبول کروں گا جو لوگ میری عبادت سے اذراہ تکبر اعراض کیا کرتے ہیں عنقریب وہ جہنم میں ذلیل ہوکر داخل ہوں گے۔’’

اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔میں اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ وہ ہمیں،آپ کو،آپ کے دوست کو اور تمام مسلمانوں دین کی فقاہت(سمجھ)اور ثابت قدمی عطا فرمائے۔ہم سب کو گمراہ کن فتنوں اور شیاطین جن وانس کی وسیسہ کاریوں اور وسوسوں سے محفوظ رکھے،وہی قادر وکارساز ہے۔

والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته‘وصلي الله علي عبده ورسوله نبينا محمد’وعلي آله وصحبه


فتاوی مکیہ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ