سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(57) وہ امور جو اسلام کے منافی ہیں

  • 7387
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1168

سوال

(57) وہ امور جو اسلام کے منافی ہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

وہ امور جو اسلام کے منافی ہیں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وہ امور جو اسلام کے منافی ہیں

الحمد لله وحده’الصلاة والسلام علي من لا نبي بعده’وعلي آله وصحبه_اما بعد:

مسلمان بھائی!اس حقیقت کو خوب جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں پر یہ لازم قرار دیا ہے کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوں،اسے مضبوطی سے تھام لیں اور ہر اس چیز سے اجتناب کریں جو اسلام کے مخالف ہو۔اسی بات کی دعوت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمدﷺکو مبعوث فرمایا اور اللہ عز وجل نے ہمیں یہ بتایا کہ جو شخص آپﷺکی پیروی کرے گا،وہ ہدایت یافتہ ہوگا اور جو روگردانی کرے گا،وہگمراہ ہوجائے گا۔بہت سی آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اسباب ارتداد اور شرک وکفر کی تمام اقسام کے اختیار کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔علماءکرامؒ نے اپنی کتابوں کے‘‘باب حکم المرتد’’میں ذکر فرمایا ہے کہ اسلام کے منافی بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں اختیار کرنے سے ایک مسلمان مرتد ہو جاتا ہت،اس کا خون اور مال حلال ہوجاتا اور وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،ان میں سے زیادہ خطرناک اور کثرت سے وقوع پذیر ہونے والی دس باتیں ہیں جنہیں شیخ امام محمد بن عبد الوہاب اور دیگر اہل علم۔۔۔رحمھم اللہ جمعیا۔۔۔نے ذکر فرمایا ہے۔ذیل میں اختصار کے ساتھ ہم انہی باتوں کو ذکر کریں گے تاکہ آپ بھی ان سے بچیں اور دوسروں کو بھی ان سے بچائیں۔مختصر سی وضاحت کے ساتھ ان باتوں کو اس امید پر بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے محفوظ رکھے اور عافیت عطا فرمائے۔

(۱)اسلام کے منافی ان دس باتوں میں سرفہرست اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کرنا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ‌ أَن يُشْرَ‌كَ بِهِ وَيَغْفِرُ‌ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾(النساء۱۱۶/۴)

‘‘بےشک اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا جائے،اس کے سوا(اور گناہ)جس کو چاہے گا،بخش دے گا۔’’

نیز فرمایا:

﴿إِنَّهُ مَن يُشْرِ‌كْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّ‌مَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ﴾(المائدۃ۷۲/۵)

‘‘یقین مانو کہ جو شخص اللہ تعالی کے ساتھ(کسی کو بھی)شریک کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نےاس پر جنت(بہشت)حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔’’

مُردوں کو پکارنا،ان سے فریاد کرنا،اور ان کی نذر ماننااوران کے نام پر جانوروں کو ذبح کرنا بھی شرک ہے۔

(۲)جو شخص اپنے اوراللہ کے درمیان وسیلے بنالے اوران وسیلوں کو پکارے ،ان سے سوال کرے کہ وہ اس کی سفارش کریں اوران پر توکل کرے تواس پر اجماع ہے کہ یہ شخص بھی کافر ہے۔

(۳)جو شخص مشرکوں کو کافر نہ سمجھے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو صیح مانے تو وہ بھی کافر  ہے۔

(۴)جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ نبی کریمﷺکے علاوہ کسی اورکی سنت وسیرت زیادہ کامل نمونہ ہے ،یا آپؐ کے علاوہ کسی اورکا حکم زیادہ اچھا ہے جس طرح کئی لوگ طاغوتوں کے حکم کو آپؐ کے حکم پر ترجیح دیتے ہیں،تویہ بھی کافر ہے۔

(۵)جو شخص دین کے کسی ایسے حکم کو ناپسند کرے جسے رسول اللہ ﷺلے کردینا میں تشریف لائے ۔۔۔خواہ اس کے مطابق عمل بھی کرلے ۔۔۔تووہ بھی کافر ہے،ارشادباری تعالی ہے:

﴿ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِ‌هُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ﴾ (محمد۹/۴۷)

‘‘یہ اس لئے کہ انہوں نے اللہ تعالی کی نازل کردہ چیز(دین اسلام)کو ناپسند کیا تواللہ تعالی نے ان کے اعمال ضائع کردیئے۔’’

(۶)جو شخص رسول اللہ ﷺکے لائے ہوئے دین کے کسی حکم کا یا ثواب وعذاب کا مذاق اڑائے ،وہ بھی کافر ہے،اللہ تعالی کا یہ فرمان اس کی دلیل ہے:

﴿قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَ‌سُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُ‌وا قَدْ كَفَرْ‌تُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ (التوبۃ۹/۶۵۔۶۶)

‘کہہ دیجئے کیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اوراس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ،بہانے مت بناویقیناتم ایمان لانے کے بعدکافرہوچکے ہو۔’’

(۷)محبت یا نفرت پیدا کرنے کے لئے جادو کا استعمال بھی اسی قبیل سے ہے۔جو شخص جادوکرے یا اس پر راضی ہو،وہ کافر ہے اوراس کی دلیل حسب ذیل ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ﴾ (البقرۃ۱۰۲/۲)

‘‘اوروہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہ دیتے کہ ہم تو( ذریعہ) آزمائش ہیں،تم کفر میں نہ کر۔’’

(۸)مشرکوں کو غالب کرنا اورمسلمانوں کے مقابلہ میں ان کی مددکرنا بھی کفر ہےاوراس کی دلیل حسب ذیل ارشادباری تعالی ہے:

﴿وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ (المائدہ۵/۵۱)

‘‘اورجو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہی میں سے ہوگا،بے شک

 اللہ تعالی ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔’’

(۹)جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ بعض لوگوں کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺکی شریعت سے مستثنی ہوں تویہ بھی کفر ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ‌ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَ‌ةِ مِنَ الْخَاسِرِ‌ينَ﴾ (آل عمران۳/۸۵)

‘‘اورجو شخص اسلام کے سوا کسی اوردین کا متلاشی ہو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گااورایسا شخصآخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔’’

(۱۰)اللہ تعالی کے دین سے روگردانی کرنا ،نہ اسے سیکھنا اور نہ اس کے مطابق عمل کرنا،یہ بھی کفر ہے۔ارشادباری تعالی ہے :

﴿وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ‌ بِآيَاتِ رَ‌بِّهِ ثُمَّ أَعْرَ‌ضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِ‌مِينَ مُنتَقِمُونَ﴾ (السجدۃ۲۲/۳۲)

‘‘اوراس  شخص سے بڑھ کر  ظالم کون ہے جس کو اس کے پروردگار کی آیتوں سے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے۔ہم گناہ گاروں سے ضروربدلہ لینے والے ہیں’’

اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ اسلام کے منافی ان امور کا ازراہ مذاق ارتکاب کرتا ہے یا سنجیدگی سے یا ڈر اور خوف کی وجہ سے ،ہاں البتہ وہ شخص ضرور مستثنی ہے جسے مجبور کردیا گیا ہو۔یہ تمام جرائم بہت خطرناک بھی ہیں اوربکثرت وقوع پذیر ہونے والے بھی ،لہذا ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ ان سے اجتناب کرے اورڈرتا رہے کہ وہ کہیں ان کا ارتکاب نہ کربیٹھے۔ہم اللہ تعالی سے پناہ مانگتے ہیں ایسے امور سے جواس کے غضب وعقاب کو واجب کودینے والے ہوں ۔امام محمد بن عبدالوہاب کی بات یہاں ختم ہوئی۔

وصلي الله علي عبده ورسوله محمد واآله وصحبه

ان میں چوتھے نمبر میں یہ بات بھی داخل ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ وہ نظام اورقوانین جولوگوں کے وضع کردہ ہیں،وہ اسلامی شریعت سے افضل ہیں ،یا اس کے مساوی ہیں یا انہیں نافذ کرنا بھی جائز ہے تووہ بھی کافر ہے جو خواہ یہ عقیدہ رکھے کہ اسلامی شریعت ہے تو افضل لیکن اس بیسویں صدی میں اس کا نفاذ ممکن نہیں ہے یا یہ کہنا کہ اسلامی شریعت پر عمل مسلمانوں کی پسماندگی کا سبب ہے یا یہ کہنا کہ شریعت کا تعلق صرف ان امور سے ہے جو بندے اوراس کے رب کے مابین ہیں اورزندگی کے دیگر امورومعاملات سے اس کاکوئی تعلق نہیں،وہ بھی کافر ہے نیز اس میں یہ کہنا بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی نے جو یہ حکم دیا ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اورشادی شدہ زانی کو سنگسارکردیا جائے تویہ سزائیں عصر حاضر میں مناسب نہیں،یا یہ عقیدہ رکھنا کہ معاملات اورحدودمیں اللہ تعالی کی شریعت کے حکم کے بغیر بھی فیصلہ کرنا جائز ہے خواہ اس حکم کو حکم شریعت سے افضل نہ بھی سمجھے توبھی وہ کافر ہے کیونکہ اس طرح اس نے ان امور کو حلال ٹھہرالیاجن کے بارے میں اجماع ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں حرام قراردیا ہواہےاورہروہ شخص جوان امور کو حلال قراردے جن کو اللہ تعالی نے حرام قراردیا ہے مثلا زنا،شراب،سوداوراللہ تعالی کی شریعت کے بغیر کسی اورقانون کے مطابق فیصلہ کرنا تواس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وہ یقینی کافر ہے۔

اللہ تعالی سے  دعا ہے کہ وہ ہم سب کو یہ توفیق دے کہ ہم اس کی مرضی کے مطابق عمل کریں نیز ہمیں  اورتمام مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔

انه سميع قريب’ وصلي الله علي نبينا محمد واآله وصحبه

 

فتاوی مکیہ

تبصرے