صرف اللہ وحدہ عبادت کا مستحق ہے
الحمدلله وحده،والصلوة والسلام علي من لانبي بعده،وعلي آله وصحبه
عبدالعزیزبن عبداللہ بن باز کی طرف سے ہر اس مسلمان کے نام جو اس تحریر سے مطلع ہو۔اللہ تعالی مجھے اور سب مسلمانوں کو دین کی سمجھ بوجھ اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے!
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ۔ اما بعد:
اس نصیحت کے ذریعےان بعض منکر امور کے سلسلہ میں تنبیہ کرنامقصود ہے جن میں بہت سے لوگ ازراہ جہالت مبتلا ہوچکے ہیں اورخواہشات نفس کا پجاری بنانے کے لئے شیطان ان کے افکار اورعقلوں سے کھیل رہا ہے۔
ان امورمیں سے ایک یہ بھی ہے ۔۔۔جیساکہ اس کے بارے میں مجھے خبر پہنچی ہے۔۔۔کہ بعض لوگ دوسروں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتے ہیں اورکئی ایسے امور کے مدعی ہیں جن سے عوام اس وہم میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ انہیں بھی اس کائنات میں تصرف حاصل ہے لہذا انہیں نفع ونقصان کے لئے پکارا جاسکتا ہے۔ حالانکہ جو شخص اپنی عبادت کی لوگوں کو دعوت دے وہ فرعون اور اس جیسے دیگر بڑےبڑے مجرموں اور کافروں سے مشابہت رکھتا ہے ۔عبادت کی مستحق صرف اورصرف اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات گرامی ہے ،اپنے کمال قدرت وعلم اورمخلوق سے بے نیازی کے باعث صرف اسی کو عبادت کا استحقاق حاصل ہے اوراس کے سوا کوئی اورمستحق عبادت نہیں ،چنانچہ اسی مقصد کی خاطر انبیاء کرام کو مبعوث کیا اورکتابوں کو نازل کیا گیا اوراسی کی خاطر جہاد کا بازار گرم کیا گیا ۔ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات۵۶/۵۱)
‘‘اور میں نے جنوں اورانسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وه میری ہی عبادت کریں’’
نیز فرمایا:
﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴿٥﴾وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ﴾ (الاحقاف۴۶/۵۔۶)
‘‘اوراس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے ،جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ،ان کے پکارنے کی خبر نہ ہو اورجب لوگ جمع کئے جائیں گےتووہ ان کے دشمن ہوں گے اوران کی پرستش سے انکار کریں گے۔’’
مزید فرمایا: ﴿وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِندَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ﴾ (المومنون۲۳/۱۱۷)
‘‘اورجو شخص اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں ،تواس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہوگا۔یقینا کافر لوگ نجات سے محروم ہوں گے۔’’
اورفرمایا:
﴿وَلَا تَدْعُ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِن فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِّنَ الظَّالِمِينَ﴾ (یونس۱۰۶/۱۰)
‘‘اوراللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارناجونہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچا سکےاورنہ تمہارکچھ بگاڑ سکے ،اگرایساکرو گے توظالموں میں ہوجاوگے۔’’
اورفرمایا: ﴿إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ﴾ (النساء۴/۴۸)
‘‘ اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایاجائے، اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہےمعاف کر دے ۔’’
اورفرمایا: ﴿إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ﴾ (لقمان۱۳/۳۱)
‘‘ شرک تو بڑا (بھاری)ظلم ہے۔’’
اورفرمایا:
﴿وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ﴾ (المائدہ۵/۷۲)
‘‘مسیح نے یہود سے یہ کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل!اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اورتمہارا سب کا رب ہے۔یقین مانو جو شخص اللہ کے ساتھ (کسی کو بھی )شریک کرتا ہے ،اللہ تعالی نے اس پر بہشت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگارنہیں ہوگا۔’’
ارشادگرامی ہے:
﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ﴾ (التوبۃ۳۱/۹)
‘‘انہوں نے اپنے علماء اورمشائخ اورمسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنالیا حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اوران لوگوں کے شریک مقررکرنے سے پا ک ہے۔’’
اورفرمایا:
﴿ وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ﴾ (الاسراء۱۷/۲۳)
‘‘اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔’’
پس ان اوران جیسی دیگر آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غیراللہ کی عبادت یا اللہ تعالی کی عبادت کے ساتھ ساتھ غیر اللہ مثلا انبیاء،اولیاءاصنام،اشجاراوراحجارکی عبادت ،اللہ عزوجل کے ساتھ شرک اوراس کی اس توحید کے منافی ہےجس کی خاطر اللہ تعالی نے جنوں اورانسانوں کو پیدا فرمایا اوراس کے بیان کرنے کے لئے رسولوں کو مبعوث اوراپنی کتابوں نازل فرمایااوریہی معنی ہیں ‘‘لا الہ الا اللہ’’کے یعنی اللہ کے سوا کوئی اورمعبودحقیقی نہیں ہے۔یہ کلمہ غیر اللہ کی عبادت کی نفی کرکے ،اسے اللہ تعالی کے لئے ثابت کردیتا ہے۔جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ ﴾ (الحج۲۲/۶۲)
‘‘یہ اس لئے کہ اللہ ہی بر حق ہے اور(کافر)جس چیز کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں،وہ باطل ہے۔’’
یہی دین کی اصل اورملت کی اساس ہےاوراگریہ اصل واساس صیح ہوگی تو عبادت صیح ہوں گی جیسا کہ اس نے فرمایا ہے:
﴿ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ (الزمر۳۹/۶۵)
‘‘اور(اے محمد !(ﷺ) آپ کی طرف اوران(پیغمبروں) کی طرف جوآپ سے پہلے ہوچکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے عمل برباد ہوجائیں گے اورتم زیاں کاروں میں سے ہوجاوگے۔’’
اورفرمایا: ﴿وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴾ (الانعام۸۸/۶)
‘‘اور اگر وہ(سابقہ انبیاء) شرک کرتے تو جوعمل وہ کرتے تھے، وه سب ضائع ہوجاتے۔’’
اس امر عظیم کی خاطر اللہ تعالی نے رسولوں کو مبعوث اورکتابوں کو نازل فرمایاتاکہ توحید کو بیان کیا جائے ،ا س کی دعوت دی جائے اورغیر اللہ کی عبادت سے منع کیا جائے ،
جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
﴿ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ﴾ (النحل۱۶/۳۶)
‘‘اور ہم نے ہر امت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور بتوں(کی پرستش) سے اجتناب کرو۔’’
نیز فرمایا:
﴿وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ﴾ (الانبیاء۲۱/۲۵)
‘‘اور جوپیغمبر ہم نے آپ سے پہلے بھیجےان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو تم میری ہی عبادت کرو۔’’
اللہ عزوجل کا ایک اورارشاد:
﴿ الر ۚ كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ ﴿١﴾ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّـهَ ۚ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ ﴾ (ھود۱۱/۱۔۲)
‘‘یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور اللہ حکیم وخبیر کی طرف سےبالتفصیل بیان کر دی گئی ہیں(وہ یہ)کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تم کو ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔’’
مزید فرمایا:
﴿هَـٰذَا بَلَاغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ (ابراھیم۱۴/۵۲)
‘‘یہ(قرآن )لوگوں کے نام(اللہ کا پیغام)ہےتاکہ ان کو اس سے ڈرایا جائے اوروہ جان لیں کہ وہی اکیلا معبود ہے اوراہل عقل نصیحت پکڑیں۔’’
اس مفہوم کی اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
صیح بخاری وصیح مسلم میں ہے کہ نبی کریمﷺسے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟توآپؐ نے فرمایا‘‘یہ کہ کسی کو اللہ کا ‘‘ند’’بناوحالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔’’ ‘‘ند’’کے معنی نظیر ومثیل کے ہیں توجوشخص بھی غیر اللہ کو پکارے یا غیراللہ کی عبادت کرے یا اس سے فریاد کرے یا اس کےلئے نذر مانے یا اس کے لئے ذبح کرے یا اس کے لئے کسی بھی قسم کی عبادت کرے تو اس نے اسے اللہ تعالی کا شریک بنا لیا ہے خواہ وہ نبی ہویا ولی ،فرشتہ ہویا جن،بت ہویا کوئی اورچیز !کیونکہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی کے لئے خاص ہے،کوئی اور اس کا ہرگز ہرگز مستحق نہیں ہے۔’’
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘‘اے معاذ!کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟’’میں نے عرض کیا‘‘اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔’’آپ نے فرمایا‘‘اللہ کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ شرک نہ کرے،وہ اسے عذاب نہ دے۔’’
اللہ تعالیٰ نے اسی امرعظیم کے لئے جنوں اور انسانوں کو پیدا فرمایا یعنی یہ کہ اس کی توحید کا اقرار کریں،صرف اسی کو مستحق عبادت سمجھیں اور اس کے شرکاء،نظراء اور انداد کو ترک کر دیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں،اس کے سوا کوئی رب نہیں،جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے یا یہ کہے کہ وہ مستحق عبادت ہے تو وہ کافر ہے۔واجب ہے کہ اس سے توبہ کرنے کا مطالبہ کیا جائے،اگر توبہ کرے تو فرست ورنہ مسلمان حاکم کے لئے واجب ہے کہ ایسے شخص کو قتل کر دے کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے‘‘جو شخص اپنے دین کو بدل دے،اسے قتل کر دو۔’’(بخاری)
یہ بھی واضح گمراہی اور بہت بڑی جہالت کی بات ہے کہ غیب کی خبریں دینے کے سلسلہ میں کاہنوں،پروہتوں،رمالیوں،نجومیوں،شعبدہ بازوں اور دجالوں کی تصدیق کی جائے۔یہ بہت منکر کام اور کفر کی ایک شاخ ہے کیونکہ نبی کریمﷺنے فرمایا ہے‘‘جو شخص کسی نجومی کے پاس جائے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں پوچھے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔’’(صحیح مسلم)
رسول اللہﷺسے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے کاہنوں کے پاس جانے اور ان سے سوال کرنے سے منع فرمایا ہے۔اہل سنن نے نبی کریمﷺکا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ‘‘جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس کی بات کی تصدیق کرے تو اس نے اس چیز کا انکار کیا جسے اللہ تعالیٰ نے اہنے نبی حضرت محمد(ﷺ)پر نازل فرمایا ہے۔’’
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی احادیث مبارکہ ہیں لہٰذا تمام مسلمانوں کے لئے یہ واجب ہے کہ وہ کاہنوں،نجومیوں اور ان تمام شعبدہ بازوں سے سوال کرنے سے اجتناب کریں،جو غیب کی خبریں دینے کے دعویدار ہیں اور جاہلوں کی عقلوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔اللہ کے سوا امورغیب کو اورکوئی نہیں جانتا صرف وہی ہے جو سینوں کے بھیدوں اور دلوں کی دھڑکنوں کو بھی جانتا ہے،اس کے سوا اور کوئی حتٰی کہ انبیاء،مرسلین اور فرشتے بھی امور غیب کو نہیں جانتے،وہ صرف اتنا جانتے ہیں جو اللہ تعالیٰ انہیں بتا دے۔جیسا کہ اس نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ﴾(النمل۶۵/۲۷)
‘‘(اے پیغمبرﷺ!)آپ کہہ دیجئے کہ آسمان اور زمین والوں میں سے اللہ کے سوا کوئی غیب کی باتیں نہیں جانتے!اور وہ تو یہ بھی نہیں جانتے کہ کب(زندہ کر کے)اٹھائے جائیں گے۔’’
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺکو یہ حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں کہ:
﴿قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ﴾(الانعام۵۰/۶)
‘‘اے پیغمبر!آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ(یہ کہ)میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے(اللہ کی طرف سے)آتا ہے۔آپ پوچھئے کہ بھلا اندھا اور آنکھ والا برابر ہوسکتے ہیں؟تو پھر تم غور(کیوں)نہیں کرتے ہو؟’’
اورفرمایا:
﴿قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (الاعراف۱۸۸/۷)
‘‘اے پیغمبر(ﷺ)آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنے فائدے اورنقصان کا کچھ بھی اختیا رنہیں رکھتامگرجواللہ چاہے،اوراگرمیں غیب کی باتیں جانتا ہوتا توبہت سے فائدے جمع کرلیتااورمجھ کو کوئی تکلیف نہ پہنچتی،میں تو مومنوں کوڈراورخوشخبری سنانے والا ہوں۔’’
ان آیات کریمہ اوران کے مفہوم کی دیگر آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول ﷺبھی غیب نہیں جانتے حالانکہ آپؐ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سےبہتر اورافضل ہیں جب آپؐ غیب نہیں جانتے تو مخلوق میں سے کوئی اورکس طرح جان سکتا ہے؟لہذا جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ رسول اللہ ﷺیا مخلوق میں سے کوئی اورغیب جانتا ہے تو وہ شخص اللہ تعالی پر بہت بڑا بہتان لگاتا ،دورکی کوڑی لاتا ،زبردست گمراہی میں مبتلا ہوتا اوراللہ سبحانہ وتعالی کے ساتھ کفر کرتا ہے۔امور غیب کو جاننا اللہ تعالی کا خا صہ ہے اورعلم غیب کو اللہ تعالی نے اپنی ذات کے لئے خاص کرلیا ہے،چنانچہ ارشادباری تعالی ہے :
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ﴾ (لقمان ۳۴/۳۱)
‘‘صرف اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اوروہی مینہ برساتاہےاور وہی (حاملہ کے )پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے(کہ نرہے یا مادہ)اورکوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اورکوئی متنفس نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اسےموت آئےگی،بے شک اللہ تعالی ہی جاننے والا(اور)خبردارہے۔’’
حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ان پانچ چیزوں
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ﴾ (لقمان ۳۴/۳۱) کے سوانبی کریم ﷺکو ہرچیز کا علم عطاکیا گیا ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان پانچ باتوں کو اللہ تعالی کے سوا اورکوئی نہیں جانتا،انہیں مقرب فرشتہ جانتا ہے اور نہ کوئی نبی مرسل۔جوشخص یہ دعوی کرے کہ و ہ ان پانچ چیزوں میں سے کسی کو جانتا ہے تووہ قرآن کے ساتھ کفر کرتا ہےکیونکہ اس طرح اس نے قرآن مجید کی مخالفت کی ہے،ہاں البتہ انبیاء کرام علیہم السلام غیب کی ایسی بہت سی باتوں کو ضرور جانتے ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں معلوم کرادی ہیں۔ایمان بالغیب،ایمان کا رکن ہے اورسچے مومنوں کی صفات میں سے ایک صفت ہےاورعلم غیب کا دعوی کرنا اور امورغیب کی خبر دینا ان کاہنوں کی صفت ہے جوہدایت سے محروم ہیں نیز یہ ان دجال ،شعبدہ باز اورنجومیوں کا دعوی ہے جو خود بھی صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں اورجاہل مسلمانوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔اارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُو﴾(الانعام۵۹/۶)
‘‘اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں،جن کو اس کے سوقا کوئی نہیں جانتا۔’’
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا‘‘غیب کی چابیاں پانچ ہیں’’اور پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی:
﴿إِنَّ اللَّـهَ عِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ﴾(لقمان۳۱/۳۴)
‘‘صرف اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور وہی مینہ برساتا ہے۔’’
طلباءعلم پر واجب ہے کہ اس بات میں لوگ جس زبردست غلطی میں مبتلا ہوچکے ہیں اس پر انہیں تنبیہہ کریں کیونکہ کل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان سے بازپرس ہوگی،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴾(المائدہ۶۳/۵)
‘‘بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں۔’’
اسی طرح یہ اعتقاد رکھنا کہ سیدوں(بنی ہاشم)کے سارے گناہ معاف ہیں خواہ وہ کوئی بھی عمل کریں،یہ حد درجہ جہالت وضلالت کی بات ہےکیونکہ اللہ تعالی حسب ونسب کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو یہ دیکھتا ہے کہ اس کے اوامر کی اطاعت کون بجالاتا اوراس کے نواہی سے اجتناب کون کرتا ہے ؟تقوی کس میں ہے اوراس کی معصیتوں اورنافرمانیوں سے کون دور ہے؟ حسب ونسب کسی کو فائدہ نہ پہنچاسکے گا ،فرمان باری تعالی یہ ہے:
﴿إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ﴾ (الحجرات۱۳/۳۹)
‘‘بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیز گار ہے۔’’
اوررسول اللہ ﷺنےبھی فرمایا ہےکہ‘‘اللہ تعالی تمہاری صورتوں اورتمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تو تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے’’اسی طرح آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے‘‘خبردار!آگاہ رہوکہ جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ اگر وہ صیح ہوجائے توسارا جسم صیح ہوجاتا ہےاوراگروہ خراب ہوجائے توسارا جسم ہی خراب ہوجاتا ہے۔آگاہ رہووہ ٹکڑا دل ہے۔’’دیکھئے ابوطالب ،رسول اللہ ﷺکا حقیقی چچا تھا مگر رسول اللہ ﷺسے یہ قرابت اورحسب ونسب کی بلندی اس کے کچھ کام نہ آئی۔رسول اللہ ﷺکی خواہش تھی کہ ابوطالب کلمہ پڑھ لے تاکہ آپؐ دربارالہی میں اس کی سفارش کرسکیں لیکن اس نے کلمہ نہ پڑھا کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کے بارے میں ازل میں یہ لکھ دیا تھا کہ وہ اپنے آباواجدادکےدین پرفوت ہوگااوروہ دین ،شرک اوربت پرستی ہے اس لئے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو ان کے لئے استغفار(بخشش کی دعا)کرنے سے بھی منع فرمادیا:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ (التوبۃ۹/۱۱۳)
‘‘نبی(ﷺ)اورمومنوں کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ مشرکوں کے لئے اس بات کے واضح ہوجانے کے بعد کہ وہ دوزخی ہیں ،بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ (مشرک ،مومنوں اورنبیﷺ)کےقرابت دارہی کیوں نہ ہوں۔’’
اللہ تعالی نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ اگروہ کسی کو ہدایت نہ دینا چاہے تو نبی بھی اسے ہدایت دینے کا اختیار نہیں رکھتا
﴿إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ﴾ (القصص۲۸/۵۶)
‘‘اے محمد!(ﷺ)آپ جسے چاہیں ،ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہےہدایت دیتا ہے۔’’
اسی طرح ابولہب بھی نبیﷺکا چچا تھا،اس کا بھی کفر پر خاتمہ ہوا اس کی مذمت میں اللہ تعالی نے ایک مستقل سورت نازل فرمادی جسے قیامت تک پڑھا جائے گا،یعنی:
﴿تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ﴾ (المد۱۱۱/۱)
‘‘ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹیں اوروہ ہلاک ہوگیا۔’’
حقیقی معیار یہ ہے کہ قولی ،عملی اوراعتقادی طور پر قرآن کریم اور سنت مطہرہ کی پیروی کی جائے،باقی رہے حسب ونسب تویہ کسی کے کچھ کام نہ آئیں گے۔رسول اللہ ﷺنے فرمایاہے‘‘جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا ،حسب ونسب اسے آگے نہ لے جاسکے گا۔’’نیزآپؐ نے فرمایا‘‘اے گروہ قریش!اللہ تعالی سے اپنی جانوں کو خرید لو،میں اللہ کے دربار میں تمہارے کچھ کام نہ آوں گا۔’’اسی طرح آپؐ نے اپنے چچا عباس ،پھوپھی صفیہ اورلخت جگرفاطمہ رضی اللہ عنہم سےبھی یہی فرمایا۔اگرحسب ونسب کی بلندی کسی کے کام آسکتی توان لوگوں کے ضرورکام آتی۔