سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) سعی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بالوں کو مروہ ہی پر کٹا لینا؟

  • 7346
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2003

سوال

(15) سعی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بالوں کو مروہ ہی پر کٹا لینا؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا یہ جائز ہےکہ سعی سے فارغ ہونے کے بعد ہم اپنے بالوں کو مروہ ہی پر کٹا لیں؟ کیا سر کے بعض حصے کا حلق و قصر کافی ہے اور جو گنجا ہو یا اپنا سر اس سے قبل منڈا چکا ہو اسے کیا کرنا چاہیے؟کیا طواف سعی کرنے والوں کو اجازت ہے کہ اگر سعی و طواف کے دوران تھک جائیں تو بیٹھ کر آرام کرلیں؟ حلق و تقصیر میں کون سا عمل افضل ہے؟ دلیل سے بیان فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب انسان عمرہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو اس پر حلق یا قصر واجب ہے البتہ حلق افضل ہے کیونکہ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تعظیم زیادہ ہے اور اس لیے بھی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حلق کرانے والوں کے لیے تین بار اور قصر کرانے والوں کے لیے صرف ایک بار دعا فرمائی ہے۔ ([1])

جو شخص گنجا ہو یا پہلے اپنا سر منڈوا چکا ہو تو اس کے اوپر سے حلق و تقصیر کا حکم ساقط ہو جائے گا کیونکہ اس کے سر میں بال ہی نہیں کہ اس کا حلق یا تقصیر کرائے گنجے کے بارے میں تو یہ حکم واضح ہے کیونکہ اس کے سر میں بال اگتے ہیں نہیں لیکن جس نے حلق کرا لیا ہو اس کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسے انتظار کرنا ہو گا اور جب تھوڑے بال اگ آئیں تو اس پر حلق واجب ہو گا۔

سر کے بعض حصے کا منذوانا یا کٹانا کافی نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ:

﴿مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ﴾

ترجمہ: یعنی اپنے سر کے بالوں کو منڈوائے ہوئے یا کٹائے ہوئے۔

اس لیے ضروری ہے کہ حلق و تقصیر پورے سر کی ہو اور تقصیر کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ قصر اس مشین سے کرایا جائے جو آج کل لوگوں میں رائج ہے کیونکہ اس سے کامل تقصیر ہوتی ہے اور سارے بال برابر کٹتے ہیں اس لیے قینچی سی بہتر ہے۔

حلق کی افضلیت سے متعلق ہمارا یہ کہنا صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے صرف تقصیر ہے۔

سوال کی ایک اور شق باقی رہ گئی وہ یہ کہ سعی وطواف کرنے والا جب تھک کر (آرام کے لیے) بیٹھ جائے تو کیا اس میں کوئی حرج ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ بات مدنظر رہے کہ زیادہ دیر نہ بیٹھے بلکہ تھوڑی دیر بیٹھ کر جب دم ٹھکانے آ جائے اور اعضاء جسم آرام کر لیں تو پھر طواف وسعی شروع کر دے اسی طرح اگر دوسری، تیسری اور چھوتی بار بھی بیٹھنے کی ضرورت پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔


 (10) البخاری: 1728 الحج باب الحلق والتقصیر عند الاحلال۔ ومسلم: 1301 باب تفضیل الحلق علی التقصیر عن ابن عمر رضی اللہ عنہ

 

فتاوی مکیہ

صفحہ 15

محدث فتویٰ

تبصرے