سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(675) علمائے اہل سنت سے ایک ضروری سوال

  • 7311
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1368

سوال

(675) علمائے اہل سنت سے ایک ضروری سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

علمائے اہل سنت سے ایک ضروری سوال


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علمائے اہل سنت سے ایک ضروری سوال

قابل توجہ ایڈ یٹر صاحب ا ہلحدیث

بگرامی خدمت فخر جماعت اہلحدیث جناب مو لا نا و مخدو منادام الطا فکم اسلام علیکم التماس ہے کہ مندرجہ ذیل سوال بالضروراخبار گوہر بار اہلحدیث کی قریب تریں اشاعت میں شائیع کرکے مشکور و ممنون فر ما دیں ہمارے عنایت فرما کناب حکیم سید محمد حسین صا حب نے جو کہ مذہب شیعہ سے پوری وا قفیت رکھتے ہیں ایک روز کتا ب عطر ایمان مصنفہ سید سجاد حسین صاحب بارہوی کی خاکسار کے سا منے پیش کی کتاب عطر ایمان میں یہ عبارت مو جود تھی کہ مذہب اہل سنت میں بہ مثل صدیق فاروق زید ابن معاویہ کو حنفیہ رسول مانا گیا ہے بلکہ من بعض الو حوہ اس کی خلا فت شخین سے افضل ہے اور مذہب اہل سنت کبھی صحیح نہیں ہو سکتا جب تک کہ زید کی خلا فت کا اعتقاد نہ کریں اس وحشت ناک و حیرت انگیز بات کے دیکھتے ہی طبیعت میں ایک طغیان پیدا ہوا اگر یہ دعوی صحیح کیا ہے تو اصلیت پر مطلع کیجیے اور علاوہ اس بات کے کتب اہل سنت سے حوالہ دیتا ہوں جو کہ ایک سوال کی صورت میں ناظرین کی خد مت میں ہیش کرتا ہوں حضرات علمائے دین کی خدمت با سعادت میں گزارش کرتا ہوں کہ برا دینداری د منصب ہدایت امور ذیل کا اطمینان بخش جواب مر حمت فر ما دیں۔

حدیث مندرجہ ذیل بخاری شریف

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا يزال امرالناس ما ضيا ما ولهم اثني عشر رجلا كلهم من قريش

 ترجمہ صواعق محرقہ کے 3/پر لکھا ہے کہ تمام صحاح اور خصوص مسلم و بخاری میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا –

لا يزال هذا الامر عزيزا ينصرون علي ادعائهم مادام عليه اثني عشر خليفه كلهم من قريش-

 ہمیشہ ایں امراسلام غلبہ و نصرت می یا بد بر ہر کسے کہ یہ ایشاں دشمنی کند برا مر خلا فت تا ددازدہ خلیفہ کہ جمیع ایشان ازقریش با شند سوائے زیں دیگر مقامات پر بھی آنحضرتﷺنے برہ خلفاء کی بشارت دی ہے۔

ان الامر لايقني حتي يعضي فيهم اثنا عشر خليفه (ص ٢٣ّسطر اول ترجمه صواعق)

لايزال الاسلام عزيزا....... الي اثناعشر خليفه (ص ٢٣ سطر ٢)

لايزال امتي قائما حتي يمضي اثني عشره خلفية كلهم من قريش (ص ٢٣ سطر ٤)

لا يزال امتي قائما حتي يكون عليكم اثني عشر خليفة كلهم يجتمع عليه الامة(ص٢٣ سطر ٤)

-ازابن مسعود رضی اللہ عنہ بسند حسن مروی ست کہ ازدے سوال کروند چند خلیفہ مالک این امرا مت خواہند شد گفت از رسول پر سیدم فر مودہ اثنی عشر کعدو نقباء بنی اسرائیل یعنی دو ازدہ کس خلیفہ خواہند شد مثل عدد بنی اسرا ئیل۔ صفحہ23/سطر10

مطلب ان جملہ احادیث مو صوف الصدرکا یہ ہے کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا بعد ہمارے بارہ خلیفہ ہوں گے جب تک وہ ختم نہ ہو لیں گے قیا مت نہ آئے گی سب کےسب پا ک وابرابر دین خدا کی مدد کرنے والے ہوں گے ان کی تعداد ہم عدد نقباء بنی اسرا ئیل ہو گی۔ شیخ ابن حجر بکی صواعق محرقہ میں صفحہ 16/ بڑی طو لا فی عبارت لکھتے ہیں جس کا ماحصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو فر مایا کہ بعد ہمارے بارہ خلیفہ ہوں گےان کے باب میں قاضی عیاض کی رائے نہایت صحیح اور بر سر صواب ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے سب آدمیوں نے اجماع کیا خلیفہ اربعہ پر بو قوع حکم حکمین پنچایت میا ن حضرت علی وامیر معاویہ خلیفہ ہوئے اور بعد صلح امام حسن امیر معاویہ پر تمام امت جمع ہو گئی زاں بعد یزید پر اتفا ق اہل اسلا م ہوا مگر حسین ابن علی کے واسطے کسی مسلمان نے خلافت نبوی کو تجویزنہیں کیا۔ ابن زبیر کے قتل ہو جا نے پر عبداللہ مالک ابن مردان خلیفہ با جماع امت ہوا پھر اس کے چار بیٹے خلیفہ ہو ئے جو کہ خلفائے مردانی کہے جاتے ہیں پس ازاں ہشام و سلیمان و یزید ثا نی سندآرائے امامت ہوئے خلفائے اربعہ کے بعد یہ سات کس خلیفہ ہوئے بارہواں یز ید بن عبدالملک ہے ان کے بعد پھر اس نوع کا اجماع کسی پر نہیں ہوا جا بجا فتنہ وفساد ہو کر طا ئفۃالملوکی شروع ہو گئی امن و ایمان اٹھ گیا۔

ابن حجر عقلانی نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں حسب عقیدہ بالا تحریر فرمایا ہے شرح فقہ اکبر کے صفحہ84/ پر بھی یہی نام درج ہیں کترالعما ل مئولفہ علی متقی کی جلد ششم کتاب الفتن مطبوعہ مطبع نظار حیدر آبادکے صفحہ44/ پر بھی یہ مضمون لکھا ہے شرح عقا ید نفی کے صفحہ104/پر عجیب مضمون نقل ہوا ہے ابو شکو ر سلمی کہتے ہیں

فاما يزيد بن معاويه قال بعض الناس خلافة كانت باستخلان معاوية وتبعه المسلمون عن اصحابه رضوان الله عنهم اجمعين وغيرهم من طريق القياس ان طاعة كانت واجبة علي ال حسين وجميع المسلمين-

یہ تقر یر قا ضی عیاض کی تو جیہ متذ کرہ بالا سے ملتی جلتی ہے یعنی جب کے معاویہ کے خلیفہ مقرر کرنے سے یز ید کی خلافت کو سب نے تسلیم کر لیا تو کل اہل اسلام اور حسین بن علی پر اس کی اطا عت وا جب ہو گئی۔

مرزا حیرت دہلوی کرزن گزٹ میں لکھتے ہیں یزید کو مجرم قتل قرار دینے سے صحا بہ کرام پر بڑااعتراض دار ہو تا ہے کیو نکہ اکثر صحابہ نے اس کو امام جا ئز الا طا عت سمجھ بعیت کر لی تھی اور کبھی اس کو نہیں تو ڑا مرتے دم تک اسی عقیدہ پر قا ئم رہے

جناب مولوی خلیل احمد صاحب مدرس مدرسہ سہار نپور نے ہدایت ارشید کے صفحہ401/ پر مفاد احادیث وہی تحریر فر مایا ہے جس کو اوپر سے لکھا چلا آرہا ہوں آپ فرما تے ہیں جس قدر اوصاف ائمہ دوازدا گا نہ کے بیان ہوئے ہیں ان سب کا حال یہ ہے کہ اس خلا فت کو قوت و شوکت ہو گی اور اس میں اضطراب دتز لز ل ووقوع فتن نہ ہو گا وہ اپنے اعدا پر غالب رہیں گے اور بمقا بلہ ان کے کفار مغلوب و منکوب ہوں گے جملہ عبارت مندرجہ بالا کا نتیجہ یہ ہوا کہ یزید خلیفہ جائز تھا اصحاب رسول نے اسکو مجتمع ہو کر امام امت مان لیا تھا اور ایک جائز دوی حق خلیفہ امیر معاویہ نے اس پر احکام استخلا ف جاری فرمائے۔ حضرا ت علمائے کرام فرض منصبی سمجھ کر اموارات ذیل کا جواب مرمت فرمایئں۔

1۔ یہ کہ جو حوالہ کتب دیے گئے ہیں یہ صحیح ہیں یا غلط؟

2۔ بصورت صحتاب اسلام ہے اور ہم مسلمان یہ کہنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ احایث میں یہ الفاظ ہیں یہ دین زئل نہ ہو گا جب تک بارہ خلیفے نہ ہو لیں ہر گاہ بارہ کی تعداد آخر صدی اول یا شروع صدی دوم میں ختم ہو گئی تو اسلام کہاں رہا اگر بقاء اسلام کا اعتقاد کیا جائے تو ارشاد نبوی میں تنا قض لا زم ہے

3۔ تو ضیح مفاد حدیث میں کہا گیا ہے کہ ان برہ کے اوقات حکو مت می فتنہ برپا نہ ہوگا پس امام بخاری وسلم نے اپنی اپنی کتابوں میں ابواب مسمی یہ فتن کیوں قائم کیے اور خلیفہ ثالث کا قتل فتنہ سے ہوا یا امن و امان سے واسلام۔

(خریدار اہلحدیث نمبر3255۔ /قادربخش ریاست بھر تیپور)

ایڈیٹر

ان حدیثوں کے سمجھنے کے لئے خلیفہ کے معنوں پر غور کر نا مقدم ہے شیعہ نے اپنے ذہن میں جما رکھا ہے کہ منصب خلافت مغل منصب نبوت ہے

(اخبار ذلوالفقارلاہور 5/مئی17ء)

اسلئے ہم ہمیشہ اس جستجومیں رہتے ہیں کہ خلیفہ میں کوئی امر خلاف شرح نہ پایا جائے مگر اہل سنت کے نزدیک یہ بنا غلط ہے اہل سنت کہتے ہیں نبی کو جو تعلق خدا کے ساتھ ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں ہونا چاہئےخلیفہ ہو یا غیر خلیفہ نبی محل وحی اور پیغام خدا کا برا ہ راست مبلغ ہے امتی کوئی بھی ہو اس کو یہ درجہ نصیب نہیں ہو سکتا اور نہ نبی ااور امتی میں کیا فرق ہوگا اس لئے اہل سنت کہتے ہیں خلیفہ وہ ہو نا چاہئےجو اسلام کا محافظ سیاست کی قابلیت رکھتا ہو صحیح الدماغ ملکی ضروریات اور اعداکی حرکات اور زمانہ کے نشیبو فراز سے خوب واقف ہو اس کے ذاتی اعمال جن کا اثر اس کی ذات تک ہو کچھ بھی ہوں اس سے ہمیں بحث نہیں قرآن مجید نے مسئلہ خلافت کو خود حل کر دیا ہے جہاں بنی اسرا ئیل کے قصہ میں طالوت کی خلا فت کا ذکر ہے وہاں بنی اسرائیل کے جواب میں فرمایا ہے-( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ )’’خدا نے طالوت کو تم پر بر گزیدہ کیا ہے اور اس بر گزیدگی کیوجہ یہ ہے کہ اس کو علم اور جسم میں بڑائی بخشی ہے‘‘ یعنی اس کو سیا ست کا علم ہے اور وہ جنگی کاموں کے قا بل ڈیل ڈول اچھی رکھتا ہے پتلا دبلا منحنی سا نہیں۔

ان معنی سے ہم ان بارہ خلیفوں کو جانتے پہچنتے ہیں تو یزید جیسے بد اعمال کو بھی خلیفہ ما ننے میں کوئی قبا حت نظر نہیں آتی اسی لئے صحا بہ کرام نے اس کو مانا تھا کیو نکہ اس کے کار ناموں میں دماغی قابلیت اور سیا ست کا ثبوت ہم کو ملتا ہے آج کل کی ریا ستوں کی حکو متوں کو دیکھ کر اس زمانہ کے با رہ خلیفوں کی قدر معلوم ہو تی ہے۔

 ریاست میں کفارہ اور کفر کی اشاعت کر رہے ہیں رئس ان کو امداد دیتے ہیں مسلمان کسی غیر مسلم کو مسلمان بنا دیں تو ذراسی شکا یت پر رئس کی طرف سے ان پر عناب ہوتا ہے ایسا کرنے سے اپنی بے تصبی کا ثبوت دیتے ہیں علماء جو اشاعت اسلام کریں ان کے وعظ بند کر دیتے ہیں اور غیروں کو اجازت ہو تی ہے کہ وہ ہو لیوں وغیرہ میں جو چاہیں سونا پسندیدہ افعال کریں ایسے رئس خلیفہہ اسلام نہیں ہو سکتے ہاں جن کو حیرت اسلام ہو چاہے ان کے ذاتی اعمال کم و بیش کیسے ہی کمزور ہوں وہ خلیفہ اسلام ہو سکتے ہیں پس سائل کے سوالوں کے جوا بات درج ذیل ہیں۔

حوالجات صحیح ہیں گو بعض روایات ہذات خود صحیح نہیں۔

ان حوالجات میں ان برہ خلیفوں کا ضروری آنا مراد ہے یہ نہیں کہان کے آنے کے بعد ساتھ ہی قیا مت آ جائے گی بلکہ ایسے کلام سے یہ مراد ہو تی ہے کہ یہ واقعات ضرور ہوں گے۔ ان خلیفوں کے زمانہ میں جو فتنے ہوئے وہ فوری ہوئے اور ختم ہو گئے دونوں گروہوں کو اسلامی خیر خواہی دل میں جا گز ین تھی دونوں کو اسلامی حفا ظت کا شوق غرض یہ کہ اس زمانے کے فتنے حالی مر حوم کی اس مسدس کے مصداق تھے

اگراختلاف ان میں باہم دگرتھا                  تو بالکل مداران کا اخلاص پر تھا

جھگڑتے تھے لیکن نہ جھگڑوں میں شر تھا    خلاف آخستی سے خوش آیندہ تر تھا

یہ موج پہلی اس آزا دگی کی                         ہراس سے ہو نے کو تھا با غ گیتی

شعیوں سے تعجب

شعیہ منصب خلا فت کو مثل نبوت تو کہتے ہیں مگر خلیفے جو ہمارے لئے پیش کرتے ہیں ان کی خلا فت لکھنو کےبے ملک نوابوں کیسی دکھا تے ہیں جو ساری عمر گوشہ تنہائی میں بیٹھے تقیہ میں زندگی کے دن کا ٹ رہے ہیں یہاں تک خوف زدہ ہیں کہ کو ئی نا چیز سے ناچیز سنی آکر مسئلہ پو چھتا ہے تو اپنے مذہب کے خلا ف اور اس کے مذہب کے موافق بتلا دیتے ہیں اور حاشیہ نشین مریدوں کے سوال کرنے پر کہتے ہیں ہمارا ایسا کرنا تہارے اور ہمارے حق میں بہتر ہے ورنہ ہم مارے جا یئں گے۔ (اصول کلینی37/)

میرے خیال میں سلطان عبدالحمید خاں سابق سلطان ترکی بھی جو آجکل نظر بند قید ہیں ایسا خوف زدہ نہ ہو گا جیسے شعیوں کے خلیفہ حالت خلا فت میں حضرات شعیہ غور کر یں کہ خلیفہ اور معمولی واعظ میں کیا فرق ہے۔ اہل سنت کے نزدیک فرق بین ہے کہ واعظ تو زبا ن سے وعظ و نصحیت کرتے ہیں خلیفہ اس وعظ کو حکو مت کے زور سے منواتا ہے خلیفہ کا ایک سر کلر دس کروڑ واعظوں کے وعظ سے زیا دہ ز بردست ہو تا ہے۔ کیو نکہ اس میں سیا ست ہے ان میں سیا ست نہیں آیئے ہم قرآن مجید سے جو مسلمہ فر یقین حکم عدل ہے اس مسئلہ کا فیصلہ کرایئں غور سے سنیے قرآن مجید ارشاد فر ما تا ہے

(يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَق)

''اے داؤد ؑ ہم نے تجھ کو زمین نے خلیفہ بنایا ہے پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ حکو مت کر۔‘‘ اس آیت میں دو لفظ قابل غور ہیں خلیفہ بنانا اور اس پر ف لا کر انصاف سے حکو مت کر نے کا حکم دینا یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ خلا فت کی فرع سیا ست اور حکومت ہے پس جس خلا فت میں حکو مت نہ ہو وہ اس مصرع کی مصداق ہے

شیر قا لین دگرا ست شیر نیتاں دگرست

بمو جب اس تشریح کے اہل سنت نے برہ خلیفوں کے نام بتا دئے اب ہم سننا چا ہتے ہیں کہ شعیہ ان با رہ اماموں کی تعداد کس طرح پو ری کر تے ہیں بتلائے ہوئے ذرا خلیفہ کی جا مع ما لع تعریف اور اس کی فرع بھی بتلا یئں ہم سننے کے شائق ہیں۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 706

محدث فتویٰ

تبصرے