سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(674) ایک سوال قابل جواب

  • 7310
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1097

سوال

(674) ایک سوال قابل جواب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک سوال قابل جواب


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک سوال قابل جواب

فضیلت ماب مولانا مولوی صاحب دام برکاتہ بعد از سلام مسنون واضح رائے عالی باد کہ ایک ضروری مسئلہ کی بابت آپ کو تکلیف دیتا ہوں امید ہے کہ آپ تکلیف گوارا فرمائے کر اس مسئلہ پر روشنی ڈالیں گے اور بزریعہ علیحدہ والا نامہ جواب سے مشکور فرما کر میری تسلی فرما دیں گے بلکہ ضرور درج اخبار بھی فرما دیں گے مسئلہ ز یر بحث حسب ذیل ہے میرا عقیدہ اور عمل قرآن شریف اور احا دیث پر عمل کرنے کا ہے اور احا دیث بھی وہ جو کہ آیات قرآنی کے موافق ہوں اور جن کی تا ئید قرآن شریف میں موجود نہ ہو اس پر میں عمل کرنا نہیں چاہتا خواہ علمانے اس کو صحیح حدیث ہی قرار دیا ہو کیونکہ میں صحیح حدیث کے پر کھنے کا معیار صرف قرآن شریف ہی کو سمجھتا ہوں اس ضمن میں بڑی بھا ری بات کو پیش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ احاد یث سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ قیا مت کے قر یب یا اس سے کچھ عرصہ پہلے امام مہدی صاحب آ ئیں گے اور یہ کریں گے وہ کریں گےاور جو ان پر ایمان نہ لائیں گے وہ کافر اور مرتد کے درجہ تک پہنچے گا یعنی جہا لت کی مو ت مرے گا آپ خیا ل فرما سکتے ہیں کہ یہ کس قدر باریک مسئلہ ہے جس پر قر یبا دین کا دار و مدار ہے اس کا ذکر تک قرآن مجید میں نہیں ہے یا تو اس پر عمل در آمد کو جزوایمان تصور کرنا چاہئے اگر جزو ایمان تصو کیا جاوے تو اس کا ذکر بھی قرآن شریف میں آنا ضروریات سے ہو نا چاہیے کیونکہ اليوم اكملت لكم دينكم تو تب ہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا ضروری امر متنازع اور شک میں زر ہے میرا تو اپنا یہ خیال ہے کہ قرآن شریف ایک جامع کتاب ہے اس میں سب کچھ آچکا ہے یہ ایک بات ہے کہ۔ میں یا میرے جیسے لا علم اس کے مفہوم کو بو جہ نا لیا قتی نہ سمجھتے ہوں امیدہے کہ آپ مسئلہ بالا کو درج اخبار فرما کر میری تسلی فر ما دیں گے ناچیز (سید جلال گیلانی نا ئب تھیلدار دا توں جنوبی وزیر ستان۔ )

ایڈیٹر

آپ کا یہ فقرہ جو حدیث قرآن کے موافق ہو تشریح طلب ہے موافق سے مراد اگر یہ ہے کہ جو مضمون قرآن میں ہے وہی حدیث میں ہو اس کا تو کوئی مطلب نہیں کیو نکہ اس سے حدیث بجائے خود کوئی چیز نہ ہوئی پھر یہ کہنا کہ قرآن و حدیث کا پا بند ہوں کچھ معنے خیز فقرہ نہیں اگر اس فقرہ زیر خط سے یہ مراد ہے کہ جو مضمون قرآن مجید میں ہو حدیث اس کی مخالف ہو تو یہ مطلب ٹھیک ہے حدیث مخالف تا ویل پذیر ہو گی یا متروک اس فقرہ کی تشریح کو سوال کے حل ہو نے میں بہت دخل ہے قرآن مجید پر تدبر کرنے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ قرآن کے سوا نبی کا جملہ اقوال بشرط صحت ثبوت حجت اور واجب العمل ہیں صحابہ کرام ان دونوں کی تعیل میں سر مو فرق نہ کرتے تھے ہاں جو صحابہ خدا داد مزید فہم رکھتے تھے وہ دونوں تطبیق دینے کی کو شش کر تے تھے حضرت امیر المو منین رئیسہ الجتہدین عا ئشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ وعن ابہا کو اس میں خاص مذاق تھا کوئی حدیث خواہ زبان الہا م ترجمان نبی ﷺسے سنیں۔ فورا قرآن کے مضا مین پر ان کی نظر پڑتی اور جب تک تطبیق نہ دلوا لیں چین سے رہتیں سماع ہو تی اور حسا با یسرا وغیرہ واقعات مشہور ہے ایسا ہی آپ کا یہ فقرا حدیث صحیح کے پر کھنے کا معیار صرف قرآن شریف کو ہی سمجھتا ہوں بھی تشریح طلب ہے قرآن مجید حدیث کا مصداق ہو کیا معنے اس مضمون کی کھلے لفظوں میں تا ئید کرتا ہو یا یہ معنی کہ اس مضمون کی تردید کرتا ہو آپ چو نکہ مجسٹر یٹہیں اس لئے آپ کو قا نو نی اصطلاح کی طرف تو جہ دلا تا ہوں ایکٹ اور قا نون میں جو نسبت ہے یہ آپ کے خیال میں موا فقت کی ہے مخا لفت کی دوسری صورت تو آپ نہیں کہیں گے۔ ورنہ قانون کو رد کر نا پڑے گا ایکٹ ایک مجمل بیان ہو تا ہے قانو ن اس پر مبنی مگر حرف بحرف آپس میں ایک نہیں ہو تے اسی طرح قرآن اور حدیث میں مطا بقت ما ننے سے سوال حل ہو سکتا ہے یہی مذہب ہے امام شا فعی کا ملا حظہ ہوا تقان اس اصول سے امام مہدی کا سوال یوں حل ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اس کا ذکر مجمل بہت اجمال یوں آیا ہے

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ﴿١٠ أُولَـٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ ﴿١١ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿١٢ ثُلَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ ﴿١٣ وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ ﴿١٤

’’نیک کا موں میں بڑہنے والے کی رحمت کی طرف بڑھیں گے وہی خدا کے مقرب ہوں گے نعمتوں کے با غوں میں ایسے لو گ پہلے طبقے سے بہت اور پچھلے سے کم ہوں گے۔‘‘

اس آیت میں یہ بتلایا ہے کہ پچھلے لو گوں میں بھی بعض لوگ پہلے لوگوں کے مشا بہ ہوں گے اسی مضمون کی تفسير حدیث میں یوں آئی ہے کہ اس پچھلے زمانہ میں ایسے ایسے امام پیدا ہوں گے جن کے اثر صحبت سے لوگ ہدایت پا ئیں گے رہا یہ کہ امام مہدی کا ماننا جزوا یمان ہو گا یا نہیں یہ ایک ایسا سوال ہے کہ نہ قرآن میں اس کا ذکر ہے نہ حدیث میں ہاں قرآن نے اپنے مذاق کے مطابق اسکا مختصر ذکر یوں فر مایا ہے

كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿١١٩

’’اے مسلما نوں صادقین کا ساتھ دیا کرو‘‘ اور ساتھ ہوا کرو پس جس شخص کو ہم دین کی کو شش میں صادق پائیں ہمارا فرض ہے کہ اس کا ساتھ دیں اسی کلیہ میں امام مہدی کی اطاعت اور اعتقاد بھی شامل ہے پس آپ کا اعتقاد کہ قرآن شریف ایک جا مع کتا ب ہے اس میں سب کچھ آچکا ہے بتشر یح بالا بالکل صحیح ہے۔ خدا تعالی آپ کو اس پر قا ئم رکھے اور ہم سب کو اسی پر مارے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 704

محدث فتویٰ

تبصرے