آمین بالجہر اور رفع یدین کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا فرمان بیان فرمائیں کہ اس میں ہمیشگی کا لفظ ہو۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل نےسوال کا جو طریقہ اختیار کیا ہے کہ آمین اور رفع یدین کے ثبوت میں آپ کے فرمان کے علاوہ ہمیشگی کا لفظ پیش کیا جائے۔ یہ ٹھیک نہیں۔ کیونکہ اس مطالبہ سے ان احکام انکار لازم آتاہے۔ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے ثابت ہوئے ہیں۔ جیسے نماز کی نیت باندھنے کے وقت رفع یدین آپ کے فعل سے ثابت ہے۔ ایسی کوئی روایت نہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوکہ تم نیت باندھنے کے وقت ہمیشہ رفع یدین کیا کرو۔ اس طرح نیت باندھ کر «سبحانک اللهم يا اللهم باعدبينی وبين خطايای» کی بابت بھی کوئی ایسی روایت نہیں آئی جس میں آپ نے فرمایا ہوکہ نیت باندھ کر یہ پڑھا کرو ۔ غرض ایسے بہت سے احکام ہیں ۔ اگر سائل کے طریق پر بات کا جواب فول ہی ہواور اس میں ہمیشگی کا لفظ بھی ہوتو معاذاللہ شریعت کے بہت سے حصے سے انکار کرنا پڑے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ آمین اور رفع یدین کے لیے ہمیشگی کا لفظ طلب کرنے والے کو ئی ناواقف ہیں۔عالم ایسا سوال نہیں کرسکتا اور یاد رہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے قول کی نسبت زیادہ متاثر ہوتے تھے ۔ یعنی آپ کے فعل کا اثر ان پر قول سے زیادہ ہوتا تھا۔ چنانچہ بخاری طبع مصر کے ص2/72 وغیرہ میں حدیث ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو قربانی کرنےکا حکم دیا صحابہ رضی اللہ عنہم باوجود حکم کے قربانی کرنے کے لیے نہ اٹھے ۔ پھر فرمایا کوئی نہیں اٹھا ۔ پھر فرمایا کوئی نہیں اٹھا ۔ اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غمگین ہوکر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس چلے آئے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے غمی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے قربانی کرنے کا کئی مرتبہ حکم دیا۔ مگر میرے حکم کی کسی نے پرواہ نہیں کی ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ سب سے پہلے قربانی کردیجئے اور حجامت بنوالیجئے۔
چنانچہ آپ نے اسی طرح کیا ۔ جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو پھر وہ ایک دوسرے سے جلدی جلدی قربانی کرنے اور حجامت بنانے لگے حتی کہ ہجوم کی وجہ سے خطرہ پیداہوگیا کہ کوئی دب کر نہ مرجائے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی نسبت فعل کا زیادہ اثر ہوتا تھا ۔ اب جو شخص قول حدیث مانگتا ہے وہ بے علم نہیں تو اور کیا ہے ۔ اللہ تعالی علم باعمل دے اور خاتمہ بالخیر کرے ۔ آمین
وباللہ التوفیق