سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(663) مفتی صاحب مدرسہ دیوبند کا ایک فتویٰ

  • 7299
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3212

سوال

(663) مفتی صاحب مدرسہ دیوبند کا ایک فتویٰ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مندرجہ زیل سوال عرض کرتا ہوں۔ اگر جناب قولہ تعالیٰ۔وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ﴿١٠ سورة الضحى... کومد نظررکھ کر جواب باصواب سے مستفید فرمایئں۔ تو اسلامی حمیت سے بعید نہ ہوگا۔

سوال۔ سورہ بنی اسرایئل میں جب محمدر سول اللہﷺ سے پوچھا گیا۔وَقَالُوا لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ تَفْجُرَ لَنا﴿٩٠سورة الإسراء.. یعنی چند ایک معجزات ہمیں دکھلا۔ مثلا چشموں کا پھوٹ نکلنا یا آسمان جا کر کتاب لانا تو اس جواب میں خدا نے ارشاد فرمایا۔

هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا﴿٩٣سورة الإسراء..

مفتی صاحب مدرسہ دیوبند کا ایک فتویٰ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل حدیث مورخہ ء انتیس مئی میں ہم نے ایک مضمون لکھا تھا۔ جس کا عنوان تھا ''مدرسہ دیوبند اور اہلحدیث کانفرنس''اس میں ہم نے یہ ثابت کیا تھا یا کرنے کی کوشش کی تھی۔ کہ یہ دونوں شاخیں در اصل ایک ہی تنے کی ہیں۔ ابھی اسی مضمون کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی ہوگی کہ ہمارے پاس ایک فتویٰ مفتی صاحب مدرسہ دیو بند کا پہنچا جس پر مفتی صاحب کی مہر نہ تھی۔ تو ہم اس کی نسبت مترددرہتے کہ یہ فتویٰ کسی دیوبند عالم کا ہے یا نہیں۔ مگر مہر دیکھ کر ہم اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہیں۔

فتویٰ مذکور کیاہے بس ایک معمولی خیال کا اظہار ہے۔ ہم کو مدرسہ دیوبند کے علماء سے جو علمی حسن ہے۔ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ ہماری ذات خاص کا تعلق جو دیو بند ہے اس کی بناء پر ہم اپنی ذات خاص کے تو زمہ دار ہیں مگر یہ فتویٰ چونکہ مسلک اہل حدیث کےمتعلق ہے۔ لہذا بحیثیت منصب خاموش رہنا ہمارے حق میں پسندیدہ نہیں۔ اس لئے مجبوراً اس فتوے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ حقیقت میں صحیح واقعہ یہ ہے کہ اس فتوے سے ہمیں بذات خاص بھی بہت صدمہ ہوا ہے۔ کیونکہ ہم اس فتوے کو کسی علمی اصول پر مبنی نہیں پاتے۔ ناضرین فتویٰ مذکور خود ملاحظہ فرمالیں۔ جو سوال وجواب کی صورت میں درج زیل ہے۔

(1)کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین اس بارہ میں کہ ہم حنفی مذہب کے ہمراہ شامل صف نماز ہوکر کسی شخص کا پکار کر آمین کہنا ہمارے لئے موجب فساد نماز یا کراہیت نماز ہے یا نہیں؟اگر اس آمین کہنا ہمارے لئے موجب فساد نماز یا باعث کراہیت ہے تو یہ حنفی مذہب کی کونسی کتاب میں لکھا ہے۔

(2)ایسے شخص کو مسجد کے آنے سے روکنا کہ شریک ہماری جماعت میں نہ ہو۔ بلکہ ہم لوگوں کی مسجد میں نہ آوے۔ اور ایسےشخص کومسجد پر لعن طعن وحرامی کہنا خارج از ایمان اور واجب القتل سمجھنا۔ اور السلام و علیکم ترک کرنا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ اس حالت میں آمین بالجہر کہنے والے کو جن لوگوں نے مسجد سے نکال دیا ہو وہ کیا کہے جاویں گے۔ اب و ہ لوگ داخل اسلام ہیں یا نہیں؟

(3)جو حنفی مذہب آمین بالجہر کہنے والے سے ضد نہیں رکھتے ان کو وہابی سمجھنا اوردرپے ایذا کا ہونا شرعاً درست ہے یا نہیں؟

(4)مثلا زید آمین بالجہر قریب تین سے برابر کہتا چلا آیا ہے۔ اور بکر وعمر اس کا مخالف ہے۔ یعنی چند روز سے مانع ہوا۔ بعد ازاں اس کے بکروعمر نے دعویٰ کیا۔ مقدمہ فرضی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا۔ زید جامع مسجد کے پیش امام صاحب مسمی خالد کے یہاں پر اپنے فیصلہ کو مخفی رکھا۔ کہ آپ سے دریافت کرلیا جاوے۔ کہ میں کتنے روز سے کہتا چلا آیا۔ اور کسی نے روک ٹوک نہیں کیا۔ محض اب دو شخصوں نے جس پر پیش امام صاحب ن سراپا غلطی اور جھوٹی شہادت روبرو مجسٹریٹ کے بیان فرمایا۔ کہ زید کو بارہا میں نے سمجھایا مگر یہ آٹھ روز سے کہتا ہے۔ اور اپنی شرارت سے باز نہیں آتا۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

(5)نماز میں آمین بالجہر کہنے سے روکا جائے۔ اور بعد نماز یعنی دُعا میں سب لو گ باآواز بلند اللهم آمين ثم آمين کہتے ہیں۔ اس آمین اور اس آمین میں کی فضیلت ہے۔ بینوا توجروا (کمترین شاہ محمد تمباکو فروش زیر جامع مسجد سلطان پورہ اودھ)

الجواب۔ غیر مقلدین کی کم فہمی اور جہالت وغوایت اس سے ظاہر ہے کہ ایک ایسے امر میں جوکسی کے نزدیک بھی ضروری نہیں۔ بلکہ اس میں استحباب وعدم استحباب کا اختلاف ہے۔ اس میں اس قدر تشدد کرنا کہ خواہ فساد اور جھگڑا ہوجائے۔ اور فتنہ قائم ہوجائے۔ مگر اس مختلف فیہ امر مستحب کو جس کے عدم استحباب کے لاکھوں کروڑوں علماء صلحا قائل وعامل ہیں ترک نہ کیا جاوے۔ زید جو تین سال سے آمین بالجہر کہتا ہے۔ اس سے پہلے جو اس نے نمازیں بدون آمین بالجہر کے پڑھیں۔ وہ نمازیں اس کی ہوئی یا نہیں 1۔ کیسی نادانی ہے کہ ایک امر مستحب کی وجہ سے فتنہ اور فساد مسلمانوں میں قائم ہونا اس کو پسند ہے مگر آمین بالجہر کو چھوڑ نہیں سکتا۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴿١٩١سورة البقرة ۔ البتہ حنفیوں کو بھی یہ چاہیے کہ ایسی بات میں جھگڑا نہ کریں۔ اور لعن طعن نہ کریں۔ کہ مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور بہت سے علماء اخفاء آمین کے قائل ہیں۔ اور اما م شافعی وغیرہ رحہم اللہ جہر کے قائل ہیں ایسے مختلف فیہ مسئلہ میں فسا نہ کرنا چاہیے۔ غیر مقلدین کو زبانی سمجھا دیا جائے۔ لڑائی اور مقدمات نہ کئے جایئں۔ اور اگر آمین بالجہر کہنے والے سے مسجد میں آنے سے عوام حنفیہ کے فساد عقیدہ کا اندیشہ ہے۔ تو اس صورت میں غیر مقلد آمین بالجہر کہنے والے کو سمجھا دیا جائے۔ کہ تم ہماری مسجد میں نہ آیا کرو۔ اس وجہ سے کہ آمین بالجہر کہنے سے حنفیوں کی نماز میں کچھ فرق آتا ہے۔ بلکہ اس وجہ سے کہ عوام حنفیہ کی عقیدت خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ کیونکہ اکثر غیر مقلدین کے عقائد بھی خراب ہوتے ہیں۔ سب سلف وطعن کرنا ائمہ دین پر خصوصاً طعن کرنا۔ امام ہمام حضرت ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر ان کا شعار ہے۔ اور روافض کی طرح سلف صالحین کو طعن کرکے اپنا دین وایمان خراب کرتے ہیں۔ باقی جھوٹا مقدمہ قائم کرنا۔ اور ان پر جھوٹی شہادت دینا سخت گناہ ہے۔ اور کبیرہ ہے۔ جو شخص مرتکب اس کا ہوا فاسق ہوا توبہ کرے۔ جب تک توبہ نہ کرے گا۔ نماز اس کے پیچھے مکروہ ہے۔ بعد توبہ کے بلاکراہت نماز صحیح ہے۔ نماز میں اور خارج نماز میں ہر وقت اخفاءآمین مستحب ہے۔ جیسا کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے۔ ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ۔ نماز میں بالخصوص نص اخفاء آمین کی وارد ہوئی ہے۔ اس لئے نماز میں ا س کا اہتمام زیادہ ہے۔ فقط واللہ اعلم۔

من آنچہ شرط بلاغ است باتو میگویم            تو خواہ از سختم پند گیر خواہ ملال

غرض یہ ہے کہ عدم تقلید سے توبہ کی جاوے۔ جس کی فروعات سے آمین بالجہر اور رفع یدین ہے اور سبیل مومنین پر قائم ہوجایئں۔ والسلام(کتبہ عزیز الرحمٰن عفی عنہ مفتی مدرسہ دیو بند 6 جمادی الثانی)

اہلحدیث

جناب مفتی صاحب کے فتوے کا مضمون تو الگ ہے۔ آپ کا عنوان اور طرز بیا ن بھی خاص نوعیت رکھتا ہے۔ کیاہی لطیف پیرائے میں فرماتے ہیں۔ ''غیر مقلدین کی کم فہمی جہالت اورغوایت''گو بہت سے تجربہ کار یہ بات کہہ گئے ہیں۔

دہن خویش بدشنام میالا صاحب                  کیں زر قلب بہر کس کہ دہی بازدہد

مگر ہم ایسے اصحاب کی رائے سے متفق نہیں۔ کیونکہ بہت سے لوگ دشنام سن کر جواب نہیں دیا کرتے۔ بلکہ وہ فرمان خدوندی۔ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ﴿٩٦ سورة المؤمنون  (بُرائی کو نیکی سے دفع کرو) کار بند ہوجات ہیں۔ کیونکہ ان کی شان میں وار دہے۔

وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ﴿٣٥سورة فصلت

۔ (یہ کام وہی کرتے ہیں جو صبر والے اور بڑے حصے والے ہیں۔ )لیکن اس میں شک نہیں کہ شعر مذکور کی ترمیم جو کسی صاحب نے ان لفظوں میں کی ہے۔

بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے اس کی ہم تصدیق کرتے ہیں کیونکہ اس کے معنی یہ نہیں۔ کہ وہی شخص بُرا کہے جس کو بُرا کہاگیا ہو۔ بلکہ یہ معنی ہیں کہ بدگوئی کرنے والا اپنی بدگوئی کا صلہ کہیں نہ کہیں سے پالیتا ہے۔ اہل حدیث سے ہر گز توقع نہیں کہ کہ وہ اس کے بدلے میں ایسے لفظ بولیں۔ البتہ مذکورہ قانون کے مطابق بریلی سے اس قسم کی آواز کا گونجنا کچھ بعید نہیں۔ بہرحال یہ باتیں کچھ اہل علم کی نہیں۔ ہم اس پر زیادہ وقت بھی لگانا نہیں چاہتے۔ مفتی صاحب نے فتویٰ تو دیا۔ مگر نہ تو کسی کتاب فقہ کا حوالہ دیا۔ نہ کسی آیت حدیث کا ذکر کیا۔ البتہ یہ ایک عجیب اُصول بتلایا کہ ایک اختلافی مستحب کےلئے فساد کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں مفتی صاحب بھول گئے یہ تو مستحب ہے۔ بزرگان دین تو محض جائز کےلئے اتنا فساد اٹھاتے رہے ہیں کہ ملک عام میں غوغا ہوتا رہا۔ مفتی صاحب کو یاد نہیں جب ان کے مسلمہ بزرگ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی مرحوم نے کوے کاگوشت کھایا تھا۔ تو کتنا شور بپا ہوا تھا۔ حالانکہ کوا کھانا نہ فرض تھا نہ واجب نہ سنت تھا نہ مستحب بلکہ غایت سےغایت مولانا کے خیال میں جائز تھا۔ مگر چونکہ عوام اس جائز کو ناجائز بتاتے تھے۔ اس لئے مولانا مرحوم نے نہ صرف فتویٰ دیا۔ بلکہ عمل بھی کر کے دکھایا۔ پھر کیا ہوا ااس کا ذکر ضروری نہیں۔ اودھ روہیکنڈ میں فرقہ راغیہ کے نام سے ایک جماعت پکاری جانے لگی۔ الامان والحفیظ وہ شور محشر بپا ہوا اشتہاروں پر اشتہار اور ر سالوں پر رسالے شائع ہوئے حالانکہ یہ نزاع کسی سنت یا مستحب امر کے متعلق نہ تھی۔ بقول مفتی صاحب لاکھوں اور کروڑوں علماء وصلحاء کوے کی حُرمت یا کراہت کے قائل تھے۔ بلکہ ہیں۔ مگر مولانا رشید احمد مرحوم نے نے حق کے مقابلے میں ان لاکھوں اور کرورڑوں کی طرف نظراٹھا کر بھی نہیں دیکھا کیوں؟ اس لئے کہ علماء حقانی کا یہ اصول رہا ہے۔ ایثار الحق علی الخلق

ہم حیران ہیں مفتی صاحب نے فتنہ فساد ک بانیوں کو معذور قرار دے کر مظلوموں کو فتنہ کا باقی قرار دیا۔ حالانکہ قانون عدالت اور شریعت دونوں اس پرمتحد ہیں۔ کے جائز کام کرنے والوں کو روکنا فساد ہے۔ اورروکنے والا فسادی اس لئے کہ مستحب یا جائز کام کرنا اگر فساد ہو تو وہ کام جائز اور مستحب کیوں ہو۔ مستحب کے معنی تو یہ ہیں کہ کرنے پرثواب ملے۔ نہ اُلٹا عذاب لازم آئے جائز کے معنی یہ ہیں کہ اس کے کرنے پر گناہ نہ ہو مگر بقول مفتی صاحب مستحب کام کرنے پر بھی فساد لازم آتا ہے۔ جس کی شان میں

وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ﴿١٩١سورة البقرة

وارد ہے۔ اللہ اکبر! یہ عجیب استدلال ہے جو تمام علماء اور فقہاء کے خلاف ہے۔ علماء اور فقہاء کا قاعدہ تو یہ ہے کہ جائز کا روکنا فساد ہے نہ کہ جائز کام کرنافساد 1981ء کاواقعہ ہے۔ دہلی کی کسی مسجد میں آمین بالجہر پر جھگڑا ہوا تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دہلی نے ایک شخص(خدا بخش) کو چھ ماہ کے لئے حفظ وامن کی ضمانت کا حکمدیا۔ وجہ یہی بیان کی جو ہمارے محترم مفتی صاحب نے بیان کی اس کی اپیل چیف کورٹ پنجاب میں ہوئی تو حکم منسوخ ہوا اور فیصلہ میں لکھاگیا۔ ''دفعہ 107 مجموعہ ضابطہ فوجداری کی رو سے کسی مجسٹریٹ کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ کسی شخص کو اپنے جائز حقوق کے استعمال میں لانے سے منع کرے۔

''ہم ججان چیف کورٹ پنجاب کا یہ قرار دینے میں اتفاق ہے کہ سائل نے اس وقت کوئی بے جا فعل نہیں کیا۔ جب اس نے جہاں مسجد میں عموماً مقلد آیا کرتے ہیں لفظ آمین باآواز بلند کہا اور کہ وہ غالباً نقض امن کا مرتکب نہ ہوگا۔ (فیصلہ 31 مئی 1902ء)کسی صفائی اور معقولیت کے ساتھ ججان چیف کورٹ نے فیصلہ کیا۔ جس کا مفہوم اُصولی صورت میں یہ ہے کہ کوئی شخص جائز کام کرنے والا مفسد نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ جائز کو روکنے والامفسد ہے۔ مفتی صاحب اور ان کے معتقدین دل میں خیال کریں کہ یہ فیصلہ ججان کا ہے کسی شرعی عالم کا نہیں تو ان کی خاطر ہم ایک ایسے عالم کا فتویٰ بھی پیش کر سکتے ہیں۔ جو ہمارے مفتی صاحب بلکہ جملہ علماء اور معتقدان علماء دیو بند کے نزدیک مسلم بلکہ واجب الاتباع ہیں۔

مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی مرحوم کی خدمت میں یہی سوال پیش ہوا۔ جو مفتی صاحب کے پیش ہوا تو مولانا مرحوم نے جو جواب دیا مع سوال درج زیل ہے۔

سوال۔ اگر کوئی غیر مقلد ہ ہمارے پاس جماعت میں کھڑا ہو رفع یدین اور آمین بالجہر کرتا ہو تو اس کے پاس کھڑے ہونے سے ہماری نماز میں تو کچھ خرابی نہ آئے گی۔ یا ہماری نماز میں بھی کچھ فساد واقع ہوگا۔؟

الجواب۔ کچھ خرابی نہیں آئے گی۔ ایسا تعصب اچھا نہیں۔ وہ بھی عامل بالحدیث ہے۔ اگرچہ نفسانیت سے کرتا ہے۔ مگر فعل تو فی حد ذاتہ درست ہے۔

(فتاویٰ رشیدیہ جلد اول ص6)

اہلحدیث

باوجود یہ کہ مولانا کو شک ہے۔ کہ کوئی بدبخت بُری نیت سے بھی آمین بالجہر کہتا ہے تاہم روکنے کا فتویٰ نہیں دیا ہے رحمۃ اللہ تعالیٰ

یہ دلیل بھی عجیب ہے کہ آمین کہنے والے سے عوام حنفیہ کے عقائد بگڑنے کا اندیشہ ہے چندیوم کا ذکر ہے۔ مجھ سے کسی شخص نے کہا بریلی میں ایسا واقع ہوا ہے۔ کہ دیوبندی خیال کہ ایک شخص کو مسجد میں جماعت کے ساتھ مل کر نماز پڑھنے سے روکا گیا۔ حالانکہ وہ مقتدی تھا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ چونکہ تمہاری نماز نماز نہیں۔ لہذا تم گویا شریک جماعت ہی نہیں۔ جب تم شریک جماعت نہیں تو تمہارے درمیان میں کھڑا ہونے سے صف میں خلل لازم آتا ہے لہذا تم صف سے نکل جائو۔

منطق ہو تو ایسی ہو اس وقت تو میں حیران رہا مگر مفتی صاحب کے فتویٰ سے تصدیق کرنے کی جراءت کر سکتا ہوں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس جواب کاسوال سے کیا تعلق؟کیا یہی وجہ بیان کرکے ایک بریلوی دیوبندی کو مسجد کو نکال سکتا ہے؟ کہ دیو بندی کے آنے سے لوگ امکان کذب باری تعالیٰ کے قائل ہوجاویں گے۔ آپﷺ کے علم غیب کی نفی کرکے توہین رسالت تک پہنچیں گے۔ جو کفر کا درجہ ہے تو کیا ایسی مفتی صاحبوں کے فتویٰ کی ہمارے مفتی صاحب دیوبندی تصدیق فرمادیں گے۔ (ہرگز نہیں )

غیر مقلدین کے عقائد خراب ہوتے ہیں۔ یا صحیح ہم اپنے لفظوں میں تو صرف اتنا ہی کہتے ہیں۔ کہ غیر مقلدین کے عقائد وہی ہیں جو قرآن وحدیث نے بتلائے اور سکھائے ہیں۔ لیکن ہمارا بیان صرف مدعیانہ سمجھا جائے گا۔ اس لئے ایک معتبر اور مسلمہ گواہ پیش کرتے ہیں۔ مولانا رشید احمد صاحب مرحوم فرماتے ہیں۔ ''مقلد غیر مقلد سب عقائد میں متحد ہیں۔ (فتاویٰ رشیدیہ جلد 2 ص21)

مولانا مرحوم کی شہادت معمولی نہیں بلکہ ایک خاص وزن رکھتی ہے۔ اس کے خلاف دل میں لانا معمولی بات نہیں۔ بلکہ مولانا کی نسبت ایک قسم کی بدگمانی بھی ہے۔ غیر مقلدین نہ تو سب سلف کرتے ہیں۔ نہ آئمہ پر طعن کرنا ان کا کام ہے۔ البتہ یہ کہتے ہیں کہ نہ سلف متبوع حقیقی ہیں۔ نہ ائمہ میں سےکوئی امام واجب الاتباع ہے۔ بلکہ واجب الاتباع ایک ہی ذات مستودہ صفات ہے۔ جس کی شان میں ہے۔

وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ﴿٥٤ سورة النور

(اگرتم رسول کی پیروی کرو گے تو ہدایت پاؤگے) اس سے کوئی شخص یہ نتیجہ نہ نکالے کہ یہ لوگ آئمہ کو بُرا کہتے ہیں۔ تو یہ نتیجہ اسی قسم کاہوگا جو بریلوی حضرات دیو بندی حضرات کے کلام سے نتیجہ نکالتے ہیں۔ کہ چونکہ یہ لوگ علم غیب آپ ک ے قائل نہیں لہذا یہ آپﷺکی ہتک اور توہین شان کرتے ہیں۔ ہمارے خیال میں نہ وہ نتیجہ صحیح ہے۔ نہ یہ درست دونوں تعصب پر مبنی۔

اخیر میں مفتی صاحب نے خاص مسئلہ آمین پر کچھ روشنی ڈالی ہے۔ اورآیت۔ ادْعُوا رَبَّكُمْ۔ پیش کی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے خُدا سے دعُا کیا کرو عاجزی سے اور خفیہ یعنی پوشیدہ مگر مفتی صاحب نے غور نہیں فرمایا۔ آمین کیا چیز ہے۔ آمین در اصل کوئی مستقل دعا نہیں بلکہ اس دعا کی قبولیت کی درخواست ہے جو پیش امام نے پڑھی ہے۔ یعنی سورت فاتحہ اس لئے مفتی صاحب کی دلیل میں کچھ اثر ہے۔ تو پہلے اس دعا پر ہونا چاہیے جو پیش امام بلند آواز سے پڑھتا ہے۔ یعنی سورت فاتحہ اس لئے ضروری ہے۔ کہ امام نماز کے اندرسورت فاتحہ کا باآواز بلند پڑھنا چھوڑ دے تو مقتدی آمین بالجہر خود ہی چھوڑ دیں گے۔ یہ کیا انصاف ہے کہ مفتی صاحب کی دلیل کااثر امام صاحب کی دعا پر تو نہ ہو۔ مگر مقتدی کی آمین پر جو مستقل دعا نہیں ہوجائے۔ تلك اذاً قسمة ضيزيٰ

مفتی صاحب نے فاسق کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ کہ ہر ایک نیک وبد کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو۔ ملاحظہ ہو فقہ شرع اکبر۔ صلو اخلف كل بروفاجر

ہماری سمجھ میں یہ مسئلہ کبھی نہیں آیا۔ جو عموماً فقہہاء زمان سے سنا جاتا ہے۔ کہ یہ کام مکروہ ہے۔ حالانکہ اسی کام کو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے بلا قید جائز کہا ہوتا ہے۔ مثلا یہی مسئلہ اقتداء جس کی بابت امام صاحب نے صاف فرمایا ہے۔ ہر ایک نیک وبد کے پیچھے پڑھ لیا کرو۔ مگر آجکل کے مفتی صاحبان اس میں کراہت کی قید لگاتے ہیں۔ حالانکہ امام کے مطلق قول کو مقیدکرنا ان کا کوئی حق نہیں ہے۔

ہم نے اپنے مضمون مدرسہ دیوبند اور اہلحدیث کانفرنس میں ان دونوں کو متحد الاصل کہہ کر باہمی اختلاف سے روکا تھا۔ مگر آج ہم خود ہی اس اختلاف میں پڑ گئے۔ ممکن ہے کہ ہمارے دوست ہم کو ملامت کریں لیکن اگر وہ غور کریں گے تو ہمارے اسی سوال جواب اسی مضمون میں پایئں گے۔ ہم نے صاف لکھا تھا کہ ہم جانتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں میں بھی بعض اوقات نزاع ہوجاتی ہے۔ اس میں اسی طرف اشارہ ہے۔ کہ جس طرح چچا ذاد بلکہ سگے بھایئوں میں میں بھی کبھی نزاع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح ان دونوں گروہوں میں بھی ہوجاتی ہے۔ جو ان شاء اللہ مولاناجامی کے شعر کی مصداق ہے۔

جنگ کردی آشتی کن زانکہ نزدعاقلاں     ایں مثل مشہور اول جنگ آخر آشتی

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 653

محدث فتویٰ

تبصرے