سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(661) تعزیہ کا فتویٰ

  • 7297
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 1057

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعزیہ کا فتویٰ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلام کے مختلف فرقوں میں کچھ تو اصولی اختلاف ہے۔ جس سے دو فرقے ایک دوسرے سے جدا ہوجا تے ہیں۔ کچھ ہر عالم کا اپنا ذاتی خیال ہوتا ہے۔ جواس خلیج کو اور بھی بڑھاتا ہے۔ ہمارے خیال میں اگر اسلامی فرقے اپنے اصول مقررہ پرجم جایئں۔ تو بہت سا اختلاف مٹ سکتاہے۔ مثلا حنفیہ کا اُصول ہے۔ کہ فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول پر ہونا چاہیے۔ اس اصول پر اگر تمام حنفی جم جایئں تو آج تمام شرکی اور بدعی رسومات جو حنفی فرقہ میں رائج ہیں۔ سب کی سب مٹ سکتی ہیں۔ مثلا گیارہیویں مجلس مولود وغیرہ اگر حنفیہ اپنے اُصول کے مطابق غو ر کریں۔ تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول اگر ان رسومات کے متعلق نہ پایئں تو فوراً چھوڑدیں۔ اس طرح شیعوں میں اُصول ہے۔ قرآن وحدیث کو جو اہل بیت نے سمجھا وہی ٹھیک ہے۔ ہم ان کی سمجھ کے تابع ہیں۔ وگر ہیچ جو اعلیٰ درجہ کی تقلید ہے۔ ہم اس وقت تقلید کے جواز یا عدم جواز پر بحث کرنا نہیں چاہتے۔ بلکہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ شیعہ اپنے اس اُصول کے پابند ہوں تو ان میں بھی جو جو رسومات زائدہ ہورہی ہیں۔ سب کی اصلاح ہوسکتی ہے۔ مثلا رسم تعزیہ جس وجہ سے مسلمانوں میں ہے ہی نہیں۔ بلکہ تمام ہندوستان میں ہر سال ایک عام فساد کااندیشہ ہوتا ہے۔ جسے علمائے اہل سنت بالاتفاق حرام کہتے ہیں۔ مگر شیعہ کے ایک عالم نے اس دفعہ اس کو جائز بلکہ مستحب کارثواب سمجھا ہے۔ حالانکہ آئمہ اہل بیت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ لاہور کاشیعہ اخبار زوالفقار اپنے مفتی صاحب (مولوی سید علی حائری) کاایک فتویٰ شائع کرتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں۔

’’تعزیہ شبیہ مبارکہ قبر مطہرہ مظلوم کربلا ابی عبد اللہ الحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنانا متعدد دلائل اور وجوہ سے جائز بلکہ ممدوح ار مستحسن ہے اس کے لیے کافی ہے وہ حدیث جواز المعاد میں زیارت عید مولود میں مروی ہے۔ کہ اگر تو جناب محمد رسول اللہﷺ کی زیارت کرناچاہتا ہے تو ان کی قبر مبارک کی شبیہ بناکر ان کا اسم مبارک لکھ لے اس سے شبیہ قبر بنانے کاجواز ثابت ہے۔ اورتعزیوں کا بازاروں میں پھرانا مومنین کے رونے اور رُلانے کی غرض سے بھی ممدوح اور مستحسن ہے۔ اس کے دفن کرنے اور آئندہ سال کے واسطے باقی رکھتے ہیں۔ تعزیہ دار مختار ہے۔ لیکن میر ے نزدیک اس کا باقی رکھناافضل ہے۔ (زوالفقار 3 محرم ص 1 کالم نمبر3)

اہلحدیث

زادالمعاد کی روایت کا پورا پوا بتادیں گے۔ تو جواب دیا جائے گا اتنے حوالے پر تلاش کرنے سے ہمیں نہیں ملی۔ اور نہ یہ روایت آپ کو مفید ہے۔ کیونکہ آپ کے نزدیک سوئے اقوال آئمہ اہل بیت کے کوئی روایت خصوصاً کسی سنی کی روایت کسی طرح سند اور حجت نہیں۔ حجت ہیں تو اقوال ائمہ ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آپ محل استدلال ہیں۔ ایک ایسی روایت پر جو اپنی بےثبوتی کے علاوہ آپ کے نزدیک دلیل بھی نہ ہو پیش کرتےہیں۔ ہم حیران ہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ اور یہ ثبوت؟حالانکہ سیدھی بات تو یوں تھی کہ ائمہ اہل بیت میں سے کسی کاقول دیکھا دیتے بس فرض ادا ہوجاتا۔ مگر ایسا تو اس صورت میں کرتے کہ اپنے اُصول شیعہ کے پابند ہوتے۔ ہم نہایت اخلاص سے کہتے ہیں کہ اسلامی فرقے اگر اپنے اپنے اُصول کی پابندی میں تصفیہ کرنا چاہیں تو بہت جلد بہت سے اختلافات کا تصفیہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر ہم اشارہ بھی کرچکے ہیں۔ اگر اس طرح ایک شخص کو اجازت ہو کہ وہ جس کام کو چاہے مستحسن کہہ دے اور جس کو چاہے فرض واجب بتلادے۔ تو اس صورت میں جتنے عالم ہوں گے۔ اتنے ہی مذہب ہوں گے۔ بلکہ ہر عالم بعض دفعہ دن میں کئی کئی خیال تبدیل کرنے کی وجہ سے کئی کئی مذہب اپناوے گا۔

پس شیعہ دوستو! بُرا منانے کی کوئی بات نہیں۔ ہم تم سے صرف یہ تقاضا کرتے ہیں کہ تم اپنے اُصول کے پابند رہ کر ہر ایک مسئلہ پر آئمہ اہل بیت کے اقوال سے ثبوت دیا کرو۔ اس طرح عمل کرنے سے تم اہل علم کے نزدیک سرخرو ہوگے۔ اوراسلام میں اختلاف بھی کم ہوجائےگا۔ ہم تیار ہیں کہ تم لوگ ہم سے بھی یہی تقاضا کرو۔ کیا کوئی ہے حنفی۔ یا شافعی۔ یا شیعہ یا خارجی ہمارے ساتھ اس صورت سے فیصلہ کرنے پر آمادہ ہو؟(انصاف اور خوف خُداشرط ہے)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 648

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ