السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سواداعظم سےایک سوال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک روایت میں یوں آیا ہے اتبعوا السواد الا عظم یعنی بڑی جما عت کی پیروی کیا کرو یہ روا یت بحیثیت تنقید تو صحیح نہیں۔ مگر ہمیں یہاں اس کی تنقید سے بحث نہیں۔ بلکہ اس کی دلالت سے بحث ہے۔
آجکل بعض بعض رسالوں میں اس روایت کو مسئلہ تقلید پر دلیل بیان کیا جاتا ہے۔ کہ چونکہ مقلدین کی جماعت بہ نسبت غیر مقلدین کے بہت زیادہ ہے۔ اس لئے غیر مقلدین کو مقلدین کا اتباع کرنا چاہیے۔ کیوں؟اس لئے کہ وہ سواد اعظم ہیں۔
یہ ہے تقریر دلیل کی جو مقلدین کی طرف سے بیان کی جاتی ہے۔ اس لئے اسی سواد اعظم سے اس حدیث کے متعلق چند سوال کیے جاتے ہیں۔ اُمید ہے وہ توجہ سے سنیں گے۔ خاص کررسالہ ''سواد اعظم'' کے مصنف کا تواولین فرض ہوگا کہ وہ ان سوالوں پر توجہ کریں۔
اتبعوا۔ صیغہ امرکا ہے۔ ا س میں انتم ضمیر فاعل ہے۔ جس کے معنی ہیں۔ (تم لوگ) السواد الاعظم مفعول بہ ہے۔ اس لئے سوال ہے کہ فاعل سے کون لوگ مراد ہیں۔ اور مفعول بہ کون ہیں۔؟اس سوال کے حل ہوجانے سے اس حدیث کے معنی حل ہوسکتے ہیں۔ آپ لوگ بے توجہی سے ان دونوں کو ایک کئے دیتے ہیں جوکسی طرح جائز نہیں ہے۔ سنیئے!آپ کی تقریر کے مطابق مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقلدین سے سوال ہو کہ آپ کیوں مقلد بنے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ مقلدین ہم سواد اعظم ہیں۔ اور سواد اعظم کے ا تباع کرنے کا حکم ہے۔ گویا کہ وہ خود ہی فاعل ہیں۔ اورخود ہی مفعول حالانکہ فاعل اور مفعول میں غیریت ہونی چاہیے۔ حدیث کے اصل معنی کیا ہیں ہم چاہتے تھے کہ اس سوال کے جواب کے بعد اس کے معنی بتایئں مگر خیال ہوا۔ کہ ناظرین کو انتظار ہوگا۔ اس لئے قبل جواب ہی معنی بتادیتے ہیں غور طلب بات یہ ہے کہ افرادامت میں تابع کون ہے۔ اور متبوع کون؟جو لوگ تابع ہیں۔ ان کو حکم ہے۔ کہ متبوعین میں اختلاف ہو تو تم ان میں سے اکثر کی پیروی کیا کرو۔
قرآن مجید میں حکم ہے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ
’’یعنی اے مسلمانو! تم اللہ کی تابعداری کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے حکومت والوں کی اطاعت کرو۔‘‘ یہ آیت صاف طور پر امت کے دو گروہ بناتی ہیں۔ ایک برسر حکومت افراد دوم رعایا کے افراد برسر حکومت افرادشرعی اصطلاع میں ارباب حل وعقد کہتے ہیں۔ یا آج کل کی اصطلاح میں ایگزیکٹو کونسل نام رکھتے ہیں۔ ایگزیکٹو کونسل کو تمام مسائل حل کرنے کا اختیار ہے اس کے ممبران میں اختلاف ہو تو کثرت پر فیصلہ ہوتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح حدیث مذکور نے امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلواۃ والتحیۃ کو ہ تعلیم دی ہے کہ انتخاب خلیفہ ہو یا کوئی اور امر متعلق حکومت جس میں ارباب حل وعقد کااختلاف ہو تو اس صورت میں تم سواد اعظم یعنی اکثر ممبران جس طرف ہوں اس کی پیروی کرو۔
ایسے سیاسی مضمون کی اصولی تعلیم کو مذہبی امور پر ڈھال کرنا حق وقت ضائع کیا جاتا ہے افسوس ہماری تشریح کے مطابق حدیث مذکور میں فاعل ومفعول دونوں الگ الگ رہتے ہیں مگر ہمارے بردران تقلید مسئلہ تقلید پر اس کو لگا کر جو مطلب نکالتے ہیں۔ ا س معنی سے نہ فاعل مفعول سے تمیز ہوسکتی ہے۔ نہ مسائل کی تعین ہوتی ہے۔ نہ واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں۔ کہ کسی مسائل میں واجب العمل تسلیم کیا گیا۔ دیکھیں ہمارے دوست ہمارے سوالات کے جوابات ک یادیتے ہیں اور حدیث مذکور کا مطلب کیا بتاتے ہیں۔ (اہلحدیث 6 جمادی الثانی 8ہجری)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب