السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بخدمت جنا ب ایڈ یٹر صا حب۔ اسلام علیکم۔
میرے دو سوال ہیں مہر بانی کر کے آپ ان کے تسلی بخش جواب اپنے قیمتی اخبار میں درج فرما کر شکریہ کا مو قع دیں اور مقرض ہو نے کی صورت میں۔ میں اپنے نام سے مطلع کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ سوال مندرجہ ذیل ہیں۔
سوال 1۔ قرآن مجید میں اللہ فرماتا ہے۔ آیت-
لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ
’’کہ اے رسول ہم نے کتاب دے کر تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تو اس قوم کو ڈرائے جن کی طرف تجھ سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا۔ ‘‘
اور دوسری جگہ فرما تا ہے آیت - وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ
’’ ہر ایک امت میں نبی ہوا‘‘ اور فرما تا ہے آیت
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا -’’کہ ہر امت میں ہم نے رسول بھیجا ہے۔‘‘ دونوں ارشادات فر قا نی کو ملانے سے یہ نتیجہ کہ آنحضرتﷺنبی نہیں ہیں کیوں کہ جب آپ کو ان لو گوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا جن کی طرف کوئی نبی آپ سے پہلے نہیں آیا اور دوسری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی کوئی امت ہی نہیں جن کی طرف رسول اللہ ﷺ سے پہلے کوئی نبی نہ آیا ہو تو لا زمی نتیجہ یہی نکلا کہ آپ نبی نہیں کیوں کہ اذافات الشرط فات المشروط جس سے آپ کی نبوت کی عمو میت ہی باطل نہیں ہو تی بلکہ نفس نبوت کا ہی کو ئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب نمبر 1۔ قوم مجموعہ افراد کا نام ہوتا ہے ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے۔ جب وہ قوم بنتی ہے در میان بھی ہوتا ہے جس طرح اس کی ابتدا ہوتی ہے اور انتہاء اس کی اختتام پر ہوتی ہے۔ عر بی قوم کی ابتدا اور وسط بھی تھا پہلی آیت میں جس حالت کا ذکر ہے وہ وسط کی حا لت ہے اور دوسری میں ابتدائی حالت کا جو حضرت اسمعیل رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ تھا پس دونوں آیتوں کا مطلب یہ ہے کہ عرب کی قوم کو ابتدا میں خدا کی طرف سے سمجھا یا گیا وسط میں سکوت رہا یہاں تک کہ آنحضرت محمد ﷺ تشریف لائے۔
میرا جواب صرف میرے دما غ کا نتیجہ نہیں بلکہ خود قرآن مجید کی ایک تیسری آیت اس کی طرف راہ نمائی کر رہی ہے جو یہ ہے آیت-
أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُم مَّا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ -(پ18ع4)
’’یعنی یہ کیا عرب لوگ قرآن کی تعلیم پر غور نہیں کرتے کیا ان کو ایسی تعلیم آ ئی ہے جوان کے باپ دادا کو نہیں آئی تھی ‘‘ یہ آیت میرے جواب کی اس طرح راہ نما ئی کر تی ہے کہ بصورت ا ستفہام تقریر ی بتا رہی ہے کہ یہ تعلیم وہی ہے جو ان کے پہلے بزرگوں کو آچکی ہے۔
إِنَّ هَـٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ ﴿١٨﴾ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ
دوسراسوال2۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے
كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيد
’’کہ رسو ل اللہ ﷺ کو کتاب دے کر بھیجنے کی غرض یہ ہے کہ وہ لو گوں کو ظلمت سے ہے نکا ل کر نور کی طرف لا ویں‘‘ اور دوسری جگہ فر ما تا ہے۔
قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا
’’رسول اللہ ﷺ ہی تمام لوگوں کے لئے رسول ہیں‘‘ تو دونوں آیات کے ملانے سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بھیجنے کی غرض یہ تھی کہ وہ تمام لوگوں کو کفر کی ظلمت سے نکال کر اسلام کی روشنی میں لا ئیں مگر ظاہر ہے کہ دنیا کا فر لو گوں جو اسلام سے منکر ہیں بھری پڑی ہے اگر الناس سے مرادا ہل کر یا عرب لئے جا ئیں تو آپ کی بعثیت کی عمو میت با طل ہو جاتی ہے اور علاوہ ازیں یہ ثا بت شدہ امر ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات پر عرب کا بھی اکثر حصہ کفر کی ظلمت میں پڑا ہوا ہے۔
جس سے ان کی وفات قبل ازوقت ہو تی ہے اور جس غرض کے لئے آپ بھیجے گئے تھے ثا بت ہو تا ہے کہ پو ری نہیں ہو ئی۔ (یکےاز کوہاٹ)
جواب۔ رسالت والی آیت میں ناس سے مراد کل نا س سب لوگ ہیں جس کو کیوں کہ جمیعا ًہے۔ اسکی تا کید کی گئی ہے اور تخرج الناس میں فی ا لجملہ مراد ہیں جس کو منطقی اصطلا ح میں قضیہ کہتے ہیں اس کی مثال یہ آیت ہے
إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ
پس جتنے لو گ بھی ہدایت یا ب ہو ئے یا ہو تے ہیں اس آیت کی صدا قت کو کا فی ہیں ساری دنیا کی ہدا یت پر یہ آیت مو قو ف نہیں۔ کیو نکہ قضیہ مہملہ کا صدق کلیہ کی طر ح سب افراد پر نہیں ہو تا۔ میری اس تفسیر کا ما خذ ایک تیسری آیت ہے۔
وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ ﴿١١٨﴾ إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ
’’جو یہ ہے لو گ ہمیشہ مختلف رہیں گے مگر جس پر خدا رحم کر ے گا‘‘ یہ آیت فطر تا انسا نوں کے ا خلا فات کا پتہ دیتی ہے اس لئے سا ری دنیا کے لو گوں کے ہدایت یا ب ہو نے پر اس آیت التخرج الناس کا صد ق مو قوف نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب