سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) جمعہ کی دوسری اذان کس جگہ کہی جائے

  • 728
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 1199

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا خطبہ جمعہ  کی اذان خطیب کےسامنے کہنی چا ہیئے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اذان سے مقصود اعلان ہے خواہ اذان پہلی ہو یا خطبہ کی ۔پس جوجگہ اعلان کےزیادہ مناسب ہے وہاں ہونی چاہیئے۔اگر امام کےسامنے موزوں جگہ ہوتوسامنے دی جائے ورنہ کوئی اور موزوں جگہ دیکھ لی جائے ۔خواہ مسجد کےاندرہویا باہر۔اورخواہ دائیں طرف ہو یا بائیں طرف مسجد نبوی میں سامنے موزوں جگہ تھی اس لئے سامنے ہوتی تھی۔جگہ کی تعیین کواذان  میں داخل کرنا اذان کی منشاء کےخلاف ہے۔اسی طرح کوئی کہنے والا کہہ دے گا کہ تم نے امام کےسامنے ہونے کی شرط کی ہے۔ہم یہ شرط کرتے ہیں کہ مسجد کےدروازے پرہو۔ کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورابوبکر رضی اللہ عنہ اورعمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسجد کےدروازے پرہوتی تھی اگر مسجد کا دروازہ سامنے نہ ہوتو اس صورت میں مشکل پڑ ے گی ۔ایک اوراٹھے گا اورکہے گا کہ منارے پرہونی چاہیئے کیونکہ امام مالک ؒ سے روایت ہے «انّه فی زمنه صلی الله عليه وسلم لم يکن بين يديه بل علی المنارة»۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانے میں اذان آپ کے سامنےنہ تھی بلکہ منارہ پرتھی ۔امام مالک ؒ کی مراد سامنے سےنفی کرنے سےیہ  ہےکہ مسجد کےاندر نہ تھی جوعام طور پرنماز پڑھنے کی جگہ ہے  ۔اورنہ دوسری روایتوں میں سامنے ہونے کی تصریح ہے توحاصل یہ ہوا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مسجد کادروازہ سامنے تھا اور وہیں منارتھا ۔اس پراذان ہوتی تھی تواب کہنےوالاکہہ سکتا ہے کہ اذان کےلئے یہ تینوں شرائط ضروری ہیں۔سامنے بھی ہو ۔دروازہ پربھی ہو اورمنارہ پربھی ہو۔ایک اوراٹھے گا اوروہ اس سے بھی زیادہ تنگی کرتاہوا کہ دے گا کہ ان باتوں کے ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زمانہ میں منبر سےجتنے فاصلہ پر اذان ہوتی تھی اتنے ہی فاصلہ پراب بھی ہونی چاہیئے ۔مثلا ً منبر ایسی جگہ بچھایا جائے کہ فاصلہ اس سے کم وبیش نہ ہو ۔بلکہ کوئی منارکی بلندی کےاندازہ کی بھی پابندی کرنےلگ جائے گا ۔غرض اس طرح سے خصوصیتیں پیدا کرنی شروع کردیں تواحکام میں بہت تنگی ہو جائے گی بلکہ ان پرعمل کرنا بھی ناممکن ہوجائے گا ۔اس لئے ضروری ہےکہ ہرحکم کےحسب حال کوئی خصوصیت ہو۔ اذان سے مقصود جب اعلان ہےتو خصوصیت جگہ کی کس طرح سمجھ لی جائے  ہاں مسجدکےمتعلقات میں ہونی ضروری ہےتاکہ لوگ اس طرف آئیں اوراونچی جگہ بھی اس کے حسب حال ہے کیونکہ آواز دورجاتی ہے اسی بناء پرامام ابن الحاج مالکی ؒ مدخل میں لکھتے ہیں

«انّ السنّة فی اذان الجمعة اذاصعدالامام علی المنبر ان يکون الموذن علی المنار۔»

یعنی مسنون طریقہ اذان جمعہ میں یہ ہے کہ جب امام منبر پر چڑھے توموذن منارپر ہو۔

اس عبارت میں دوخصوصیتیں ذکر کی ہیں ۔ایک منار پرہونا ایک امام کے منبر پرچڑھنےکے وقت ہونا اس طرح موذن کابلند آواز ہونا یاخوش آواز ہونا وغیرہ ۔

اس قسم کی تمام خصوصیات اذان کے حسب ِحال ہیں۔اگرچہ واجبات نہیں مگر کسی نہ کسی طریق سےاذان کے لئے مفید شے ہے ۔لیکن امام کے سامنے ہونا اوردروازہ پر ہونا یا دائیں بائیں ہونا یا اتنے فاصلہ پرہونا یااندر ہونا یہ توکوئی ایسی اشیانہیں جواذان کےحسب حال ہوں۔توپھر کس طرح  کہاجاسکتا ہےکہ یہ شرع میں معتبر ہیں۔دیکھئےحج خاص کرمواضع سےتعلق رکھتا ہے۔کیونکہ اس میں ہوتا ہی یہ  ہےکہ کسی جگہ گزرنا اورکسی جگہ ٹھہرنا اورکسی جگہ دوڑنا کسی جگہ چکرکاٹنا۔کسی جگہ کچھ پڑھنا وغیرہ ۔اس میں اپنے وطن کوواپسی کےوقت محصب وغیرہ کےنزول میں صحابہ کااختلاف ہے۔

تواذان وغیرہ جس کوجگہ سےتعلق نہیں کس طرح فیصلہ ہوسکتا ہے کہ اندر ہےیاباہر۔آگےہےیادائیں بائیں وغیرہ بساواقات عمارت کی رو سےایک جگہ موزوں ہوتی ہے ۔دوسری جگہ میں دوسری۔ پس صرف مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے ہونے سےیہ مراد لینا کہ سب جگہ ایسا ہی چاہیئے ڈبل غلطی ہے اسرار حکم شرعیہ سےکوسوں دور ہے۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الصلوۃ،اذان کا بیان، ج2ص103 

محدث فتویٰ


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ