سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(639) امام غیر قریش بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟

  • 7275
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1998

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

امام غیر قریش بھی ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر ہوسکتا ہے تو ان حدیثوں کا کیا مطلب ہے۔

(1) لايزال هذا لامر في قريش ما بقي منهم اثنان (بخاری ومسلم)

یعنی ’’یہ امر امامت وخلافت قریش میں ہی رہے گا۔ جب تک ان میں سے دو بھی باقی رہیں۔‘‘

(2)۔ عن ابن عباس رضي الله عنه قال كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول الامام الضعيف ملعون وهو الذي يضعف عن تنفيذالامور الشريعة وقامتها كشف الغمه ج٢ ص ٣-٨)

یعنی کمزورامام لعنتی ہے۔ وہ کمزور جو شریعت کے قائم وجاری رکھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ مندرجہ بالا دونوں حدیثیں صحیح ہیں یا نہیں (محمدسلطان خیر یکے)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان حد یثوں میں امامت سے مراد سیا ست ہے جس کو خلیفہ وقت کہا جا تا ہے پہلی حد یث کا مطلب یہ ہے کہ میر ے نز دیک یہ پیش گو ئی ہے حکم نہیں ہے یعنی قریشیوں میں امامت سیا ست رہے گی چنا نچہ ایسا ہی ہوتا رہا لیکن اگر کو ئی شخص غیر قر یش بھی ایسا ہے کہ ا س کے حق میں یہ کہنا جا ئز ہے۔ زاده بطة في العلم وا لجم تو اس کا امام بنا لینا اس حد یث کے خلا ف نہیں ہے لیکن جو شخص امام سیا ست نہیں ہے اس کے حق میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو تا کیوں کہ وہ شخص اصل معنی میں امام نہیں ہے اصل معنی میں وہی ہے جس کے حق میں فر ما یا الا ما م جنة يقا تل من ورائه اس لئے ایسے اماموں کو اس حد یث کا مصداق بنانا غلطی ہے اور جو اما م سیا ست ہو کر بھی تنفیذاحکام شر عیہ نہ کر سکے وہ وا قعی حدیث ثا نی کا مصداق ہے باقی رہے آج کل کے امام جو بستی بستی میں بنتے پھرتے ہیں وہ امام جما عت تو ہو سکتے ہیں امام وقت نہیں واللہ اعلم۔ (اہلحدیث امرتسر 12 جمادی الاخری 64ہجری)

شرفیہ

اس امر میں احادیث یہ ہیں۔

قال النبي صلي الله عليه وسلم لايزال هذا لامر في قريش ما بقي منهم اثنان(متفق عليه) وايضا قال ان هذا الامر في قريش لا يعاديهم احد الاكبر الله علي وجهه ما اقامو الدين رواه البخاري وايضا لايزال لاسلام عزيز الي اثني عشر خليفة عليهم من قريش وفي روايه لا يزال الدين قائما حتي تقوم الساعه او يكون علهيم اثنا عشر خليفة كلهم من قريش متفق عليه –مشكواة ص 550)

حا صل یہ ہے کہ قر یش میں دو ام امارت مشروط با قامت دین ہے جب نہ رہے خو د کسی وجہ سے ہو تو غیر قر یش سے بھی ہو سکتا ہے بارہ خلیفوں تک اسلام کا غلبہ بھی اس پر دال ہےکہ غلبہ قریش میں بارہ تک ہو گا بعد ازاں امکان غیر قریش کا بھی ہے اور وا قعات سے بھی یہ ثا بت ہےاور نہ خبر میں معاذ اللہ کذب لا زم ہوگا۔ وذا با طل یہ تو جیہ خبر کو خبر پر محمول کرنے کی صورت میں ہے اور اگر یہ اخبا ر بمعنی انشار ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں اور قرائن دو لائل حمل برا نشاء ہیں۔

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم قدموا قريشا ولا تقدموها وتعلموا منها ولا تعلموها رواه الشافعي والبيقي في المعرفه من ابن شهاب بلا غا وابن عدي في الكامل عن ابي هريرة وصححه في الجامع الصغير واخرجه البزار وصحه ايضا في الجامع

خلاصہ یہ کہ جب تک قریش قابل اقامت دین وقابل سیاست موجود ہوں۔ تو تم یعنی اور لوگوں سے خلیفہ نہ بنے۔

والا من يقيم الدين والسياسة الصحيحه الحقة بالكتاب والسنة لا بالا ختراع والبدعه (ابو سعید شرف الدین دھلوی)

تشر یح

(از قلم علامہ دوران حضرت نواب صدیق حسن خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ)

انعقاد خلا فت و اما مت کا کئی طرح پر ہو تا ہے ایک یہ کہ بندو بستوالے لو گ جیسے اہل علم وا فسران لشکر وا ہلکا ر دانش مند ہو خیر خواہ مسلمین داسلامہیں جمع ہو کر کسی سے بیعت کر لیں حضرت ابو بکر صدیقرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلا فت اسی طرح قا ئم ہوئی تھی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کے لئے وصیت کر جا ئے جس طرح صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے کہہ گئے تھے کہ میرے بعد ان کو خلیفہ کر نا تیسری صورت یہ ہے کہ مشورت پر چھو ڑ جائے جس طرح فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلا فت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کہا تھا کہ چھ شخصوں کو بتا گئے تھے کہ ان میں سے جس کو سب لوگ پسند کر یں وہی خلیفہ ہو بلکہ مر تضی نے بھی ایسا ہی کیا تھا چو تھی صورت یہ ہے کہ خو د کو ئی شخص جا مع شروط امامت لو گوں پر مسلط ہو جا ئے جس طرح سا رے خلفائے اسلا م بعد خلافت نبوت کے خلفیہ بن بیٹھے تھے پھر اگر کو ئی ایسا آدمی ملک پر مستولی ہو گیا جس میں شرو ط اما مت کے جمع نہیں ہیں تو ایسی حا لت میں بھی اسکی مخا لفت نہ کرے اس لئے کہ ضلع اس کا بغیر لڑائی بھڑائی تر شی تنگی دھینگا مشتی کے نہ ہو سکے گا مصلحت خلع کی تو الگ رہی یہ مفسدہ اس مصلحت سے زیا دہ تر سخت دور شت ہو جا وے گا رسول اللہﷺ سے پو چھا تھا کہ بھلا ہم ان کو چھوڑ نہ دیں فرما یا نہیں جب تک یہ نما ز قا ئم رکھیں یا تم ان کا کو ئی کفر صر یح دیکھو تمہا رے پا س خدا کی طرف سے بر ہا ن مو جو د ہو۔

تنبیہ

 خلا فت امامت بنص صحیح الا ئمةمن قريش منحصر ہے اسی قوم شریف میں ہر گز یہ بات درست نہیں ہے کہ غیر قریش کے آدمی کو با ختیا ر خود امام بنایا جا وے گو وہ کیسا ہی لا ئق فائق کیوں نہ ہو جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ سخت گناہگار نا بکا ر مخا لف حکم خدا اور رسول مختار ہیں ہاں جس جگہ عا مہ مسلمین کا زور نہیں چلا کو ئی ترک مغل۔ پٹھان ،پا رسی غلا م بزور تلوا ر بقوت ضرب و پیکار حا کم بن بیٹھا ہےتو اب چا رو نا طا ر اس کی طا عت کرنا جب تک کہ وہ تا رک عہد نماز مر تکب کفر بوا ح نہیں ہےشرعا واجب ہے پھر اگر وہ یہ کا م کر تا ہے تو ا س کی طا عت واجب نہیں رہتی اگر کو ئی اس پر خروج کرے گا تو عا صی ہو گا۔ (عقائد اولی الالباب ص 100)

شرائط

خلاصہ یہ کہ خلیفۃالمسلمین ،المو منین کے لئے یہ شرئط ہیں کہ وہ عا قل بالغ ہو آزاد ہو کسی غیر مسلم حکو مت کا ماتحت نہ ہو ہو شیا ر سمجھ دار اور صاحب بصیرت ہو شر یف النسب و شریف الحسب ہو امر حق کی جستجو وا تبا ع میں کو شاں رہنے والا مسلمان ہو اور صا حب علم ہو عادل منصف ہو اور خا ندان قر یش سے ہو حدود الٰہی قا ئم کر تا ہو ملت اسلا میہ کا محا فظ ہو احکا م الٰہی و قوا نین قرآنی کا جا ری کرنے والا ہو وغیرہ وغیرہ مزید تفصیلا ت کے لئے حضرت شا ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا مطا لعہ کیجیے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 613

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ