سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(46) جمعہ کی دو اذان پر تعاقب اوراس کا جواب

  • 727
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1364

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ کےدن دواذانیں کہنی جائز ہیں یا نہیں؟بعض کاخیال ہےکہ دواذانیں کہنے سے جمعہ باطل ہوجاتا ہے ۔۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

حدیث میں صحابہ  کی بابت آیا ہے۔

«ماراه المسلون حسنا فهو عندالله حسن وماراہ المسلون قبيحا فهو عندالله قبيح »

یعنی جس شےکومسلمان حسن دیکھیں وہ حسن ہےاورجس کوبرا سمجھیں وہ بری ہے ۔

یہ حدیث پوری تفصیل کےساتھ ہمارے رسالہ ردّ بدعات صفحہ نمبر47 میں درج ہے۔اس سےمعلوم ہوا  کہ یہ صحابہ نے جس کا م کو اچھا سمجھا وہ اور خدا کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔اور پہلی اذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جاری کی ہوئی ہے اور ان کی حیات میں اور بعد میں اس پر عملدرآمدرہا ۔ اور فتح الباری جلد4 ص 493 میں ہےکہ ظاہر یہی ہےکہ یہ اذان سب شہروں میں جاری رہی ہوگی ۔صرف فاکہانی نے اتنا ذکر کیا ہے کہ مکہ میں حجاجن نے جاری کیا ہے ۔ اور بصرہ میں زیاد نے ۔پھر صاحب فتح الباری لکھتےہیں مجھے خبر پہنچی ہے کہ ادنی اہل مغرب اس وقت ایک ہی اذان دیتے ہیں ۔ اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے صاحب فتح الباری نے بدعت ہونا نقل کیا ہے ۔پھر کہا ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے قول میں دو احتمال ہیں۔ایک یہ کہ بدعت کہنے سے ان کا مقصود انکار ہو۔ یعنی یہ اذان درست نہیں۔

دوسرا یہ کہ انکار مقصود نہ ہوبلکہ یہ مقصود ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ تھی جیسے مروجہ طریق تراویح کو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بدعت کہا ہے حالانکہ شرعاً وہ سنت ہیں۔

خلاصہ یہ کہ «ماراہ المسلمون حسنا» حدیث کے ماتحت عثمانی اذان سنت ہے کیونکہ اس وقت قریباً سب شہروں میں جاری ہوگئی ہے ۔الاماشاء اللہ۔  اگرچہ ابتداء اس کی لوگوں کی کثرت کی وجہ سے تھی مگر سب شہروں میں اس کا پھیلنا دلالت کرتا ہے کہ آخر لوگوں کی کمی پیشی ضروری نہیں سمجھی گئی ۔ پس ثابت ہوا کہ اب بھی یہ اذان درست ہے ۔ خواہ کم ہوں یا  زیادہ ۔ ہاں ضروری نہیں ۔ اگر کوئی نہ دینی چاہے نہ دے۔ مگر دینے والے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔اور بعض لوگ جوکہتےہیں کہ بلند جگہ بازار میں دینی چاہیے۔کیونکہ حضرت عثمان نے ایسی جگہ بھی دی تھی تو یہ ٹھیک نہیں۔ اذان مقصود اعلام ہے یعنی لوگوں کو بذریعہ توحید اعلان ہے ۔ اس میں بازار یا کسی جگہ کی خصوصیت کو کوئی دخل نہیں ۔ مدینہ شریف میں بازار مسجد کے ساتھ تھا ۔ اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے موزوں جگہ پردلوا دی ۔ اس طرح ہر شہر کی جامع مسجد میں موزوں جگہ دیکھ لینی چاہیے۔

مولانا محمد جونا گڑھی نے اس اذان کو بدعت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :۔

کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ اور آپ کے بعد کے دوخلیفوں کے زمانے میں تواس دوسری اذان کا وجود ہی نہ تھا ۔ ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایجاد ہوئی جو وقت معلوم کرانے کے لیے زورامیں بازار کی  بلند جگہ کہلوائی جاتی تھی نہ کہ مسجدمیں ۔پس ہمارے زمانے میں مسجد میں جو دواذانیں جمعہ کے لیے ہوتی ہیں ۔ صریح بدعت ہے ۔ کسی طرح جائز نہیں۔واللہ اعلم ((مدرسہ محمدیہ دہلی))

تعاقب

میں بدعت نہیں کہہ سکتا ۔ کیونکہ اذان سےمقصداعلان ہے ۔ خصوصیت موضع کا ذکر خدا جانے شرع میں معتبرہے یا نہیں۔ خاص کر حج جو مواضع سے تعلق رکھتا ہے۔اس میں اپنے وطن کو واپسی کے وقت محصب وغیرہ کےنزول میں صحابہ کااختلاف ہے تو اذان وغیرہ جس کو موضع سے تعلق نہیں کس طرح فیصلہ ہوسکتا ہے کہ اندرہے یا  باہر۔ بسااوقات مخصوص اوقات کی رو سے ایک جگہ میں ایک جگہ موزوں ہوتی ہے ۔ دوسری جگہ میں دوسری ۔ اس لیے بدعت کی جرأت ذرا مشکل ہے۔

اگر کہا جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسجد نبوی میں بہت لوگ ہوگئے تھے ۔ اس لیے دوسری اذان دلوائی تھی۔ اب لوگ تھوڑے ہوں تو بھی دلواتے ہیں ۔ پس یہ بدعت ہوئی۔

جواب اس کا یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عام شہروں میں جاری ہوگئی اور اس پر صحابہ رضی اللہ عنہم نے انکار نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس کی ابتداء اگرچہ بہتات کے وقت ہوئی ہے مگر پھر یہ شرط نہیں رہی ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ساتویں سال سنہ ہجری کےعمرۃ القضاء کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ جیسے بیت اللہ کاطواف کرنے کے وقت پہلے تین پھیرے زوردار طاقت کے ساتھ چلیں ۔اور باقی چار پھیرے درمیانی چال چلیں ۔ اور یہ حکم اس لیے دیا کہ کافروں کو اپنی قوت دکھائیں کیونکہ کافروں نے مشہور کررکھا تھا کہ مدینہ کے نجار نے ان لوگوں کو کمزور کردیاہے ۔ اب یہ وجہ نہیں رہی ۔ لیکن حکم باقی ہے ۔ ٹھیک اسی طرح اذان کی ابتداء بھی بے شک بہتات کی وجہ سے ہوئی لیکن پھر بھی بہتات کا لحاظ نہیں رکھا گیا ۔ پس اس قلت و کثرت دونوں صورتوں میں درست ہے ۔اگر ناجائز ہوتی تودوسرے شہروں میں عام طور پر  جاری ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انکار کرتے۔مگر انہوں نے انکار نہیں کیا ۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بابت حدیث ’’ماراہ المسلمون حسنا‘‘میں ہے کہ جس کام کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے اور جس کو برا سمجھیں وہ برا ہے ۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دوسری اذان پر انکار نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے نزدیک اچھی ہے ۔ اور بعض جو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بدعت ہونا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد انکار نہیں بلکہ یہ ایسا ہے جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےتراویح کو بدعت کہا ہے۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الصلوۃ،اذان کا بیان، ج2ص105 

محدث فتویٰ


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ