سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(633) ایک عورت فوت ہوگئی اسکی دو بہنیں دوبھائ ..الخ

  • 7266
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 742

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت فوت ہوگئی۔ اس کے وارث خاوند ماں دو مادری بہنیں دو پدری بھائی دو حقیقی بھائی ہیں۔ ان میں تقسیم کس طرح ہو گی؟ (مولا بخش از امرتسر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فرائض والے عام طورپر اس کی تقسیم یوں کرتےہیں۔ کہ خاوند کو نصف ماں کو سدس۔ دو مادری بہنوں کو ثلث باقی ندارد اس کی بناء آیت کلالہ پر ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہے۔ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۔﴿١٢ سورة النساء

اصحاب الفرائض بتایئد مفسریں کہتے ہیں۔ کہ اس اخ اور اخت ہے۔ ان سے مادری بہنیں مراد ہیں۔ اس لہاظ سے مادری بہنوں کو زوی الفروض شمار کیا گیا ہے۔ اور حقیقی پدری بھایئوں کو عصبہ ا س لئے مادری اولاد مقدم ہوگی۔ مگر ایسا کرنے کےلئے ان کے پاس کوئی آیت یا حدیث نہیں میرے نزدیک تو یہ تقسیم یوں ہونی چاہیے۔ کہ بحکم قرآن شریف خاوند کونصف ماں کو سدس (چھٹا حصہ) باقی ثلث (بحکم قرآن۔ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۔ ) بہن بھایئوں کا ہے کیوں کہ قرآن مجید میں حرمت کے موقع پر واخواتکم جو آیا ہے۔ اس س بالاتفاق حقیقی پدری اور مادری تینوں قسم کی بہنیں مراد ہیں۔ یہاں بھی وہی لفظ ہے۔ پھر یہ کیوں نہ تینوں قسموں کوشامل ہو۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 2 ص 577

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ