جمعہ کی نماز کے لئے دواذانیں کہی جاتی ہیں ۔پہلی اذان کاشرعی کیاحکم ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں ہے صحابہ کی بابت آیا ہے ۔
یعنی جس شے کومسلمان حسن دیکھیں وہ حسن ہےجس کوبری سمجھیں وہ بری ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ نےجس کام کواچھا سمجھا وہ خدا کے نزدیک بھی اچھا ہے ۔اورپہلی اذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جاری کی ہوئی ہے ۔اوران کی حیات میں اور بعد میں اس پرعمل درآمد رہا۔
فتح الباری جلد4 صفحہ نمبر 493 میں ہے کہ ظاہریہی ہےکہ اذان سب شہروں میں جاری ہوگی۔صرف فاکہانی نےاتنا ذکرکیا ہے کہ مکہ میں حجاج نےجاری کی ہے ۔اوربصرہ میں زیاد نے۔پھر صاحب فتح الباری لکھتے ہیں مجھےخبرپہنچی ہے کہ ادنی ٰ اہل مغرب اس وقت ایک ہی اذان دیتے ہیں ۔اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صاحب فتح الباری نے بدعت ہونا نقل کیا ہے۔پھر کہا ہےعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کےقول میں دواحتمال ہیں۔ ایک یہ کہ بدعت کہنے سے ان کامقصود انکارہو یعنی یہ اذان درست نہیں۔دوسر ا یہ کہ انکار مقصود نہ ہو بلکہ یہ مقصودہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےزمانہ میں یہ تھی ۔جیسے مروجہ تراویح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بدعت کہا ہے ۔حالانکہ شرعا ً وہ سنت ہیں ۔خلاصہ یہ کہ ماراہ المسلمون حسنا حدیث کےتحت عثمانی اذان درست ہے کیونکہ اس وقت قریبا ً شہروں میں جاری ہوگئی ہے الاماشاءاللہ۔اگرچہ مدینہ میں اسکی ابتدا بہتات کےوقت ہوئی مگر سب شہروں میں پھیلنا اس کا دلالت کرتا ہے کہ آخر لوگوں کی کمی بیشی ضروری نہیں سمجھی گئی۔پس ثابت ہوا کہ اب بھی یہ اذان درست ہےخواہ کم ہوں یا زیادہ ۔ہاں ضروری نہیں اگر کوئی نہ دینی چاہے تونہ دے ۔مگر دینے والے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ۔اوربعض لوگ جوکہتے ہیں کہ بلند جگہ بازار میں دینی چاہیئے ۔کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسی جگہ دی تھی تویہ ٹھیک نہیں۔اذان سےمقصود اعلام ہے۔ یعنی لوگوں کوبذریعہ توحید اعلان ہے۔اس میں بازار کسی جگہ کی خصوصیت کوکوئی دخل نہیں ۔مدینہ شریف میں بازار مسجد کےساتھ تھا اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نےموزوں جگہ پردلوا دی ۔اس طرح ہرشہرکی جامع مسجد میں موزوں جگہ دیکھ لینی چاہیئے۔
وباللہ التوفیق