السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کی جانب سے قربانی کرنا کیسا ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے : اصل تویہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اورجوکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تواس کی کوئي اصل نہيں۔ فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں : پہلی قسم :کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئی شخص اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اوراس میں وہ زندہ اورفوت شدگان کی نیت کرلے ،تویہ جائز ہے ۔ اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جوانہوں نے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اوران کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہوچکے تھے ۔ دوسری قسم :یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اوریہ واجب ہے لیکن اگراس سےعاجز ہوتوپھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے : ’’ توجوکوئي بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تواس کا گناہ ان پر ہے جواسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔‘‘ تیسری قسم :زندہ لوگوں سے علیحدہ اورمستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اوروالدہ کی جانب سے علیحدہ اورمستقل قربانی کرے ) تویہ جائز ہے ، فقھاء حنابلہ نے اس کوبیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کوپہنچے گا اوراسے اس سے فائدہ ونفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پرقیاس کیا ہے ۔ لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سےبالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئی قربانی نہیں کی ، نہ توانہوں نے اپنے چچا حمزہ رضي اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيزاقرباء میں سے تھے ۔ اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگي میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اورتین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی ، اورنہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سےپیاری تھیں ۔ اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔ اورہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جوآج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اوراسے ( حفرہ قربانی ) کا نام دیتے اوریہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کوشریک ہونا جائز نہيں ، یا پھروہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ، یاان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اوراپنی اوراپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں ۔ اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئی شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اورفوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کراپنے اس کام کونہ کریں ۔ .دیکھیں : رسالۃ : احکام الاضحيۃ الذکاۃ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |