سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(692) میت کی جانب سے قربانی کرنے کا حکم

  • 7245
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1127

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میت کی جانب سے قربانی کرنا کیسا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے : اصل تو یہی ہے کہ قربانی کرنا زندہ لوگوں کے حق میں مشروع ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کیا کرتے تھے ، اور جوکچھ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ قربانی فوت شدگان کے ساتھ خاص ہے تو اس کی کوئي اصل نہيں ۔

فوت شدگان کی جانب سے قربانی کی تین اقسام ہيں :

پہلی قسم :

کہ زندہ کے تابع ہوتے ہوئے ان کی جانب سے قربانی کی جائے مثلا : کوئي شخص اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرے اور اس میں وہ زندہ اور فوت شدگان کی نیت کر لے ،تویہ جائز ہے ۔

اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی ہے جو انہوں نے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے تھی اور ان کے اہل وعیال میں کچھ پہلے فوت بھی ہو چکے تھے ۔

دوسری قسم :

یہ کہ فوت شدگان کی جانب سے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے قربانی کرے ( اور یہ واجب ہے لیکن اگراس سے عاجز ہو تو پھر نہيں ) اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

’’  توجوکوئی بھی اسے سننے کے بعد تبدیل کرے تواس کا گناہ ان پر ہے جو اسے تبدیل کرتے ہيں یقینا اللہ تعالی سننے والا جاننے والا ہے  ۔‘‘

تیسری قسم :

زندہ لوگوں سے علیحدہ اور مستقل طور پرفوت شدگان کی جانب سے قربانی کی جائے ( وہ اس طرح کہ والد کی جانب سے علیحدہ اور والدہ کی جانب سے علیحدہ اور مستقل قربانی کرے ) تویہ جائز ہے ، فقھاء حنابلہ نے اس کو بیان کیا ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچے گا اور اسے اس سے فائدہ ونفع ہوگا ، اس میں انہوں نے صدقہ پر قیاس کیا ہے ۔

لیکن ہمارے نزدیک فوت شدگان کے لیے قربانی کی تخصیص سنت طریقہ نہيں ہے ، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فوت شدگان میں سے بالخصوص کسی ایک کی جانب سے بھی کوئی قربانی نہیں کی ، نہ تو انہوں نے اپنے چچا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جانب سے حالانکہ وہ ان کے سب سے زيادہ عزيز اقرباء میں سے تھے ۔

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں فوت ہونے والی اپنی اولاد جن میں تین شادی شدہ بیٹیاں ، اور تین چھوٹے بیٹے شامل ہیں کی جانب سے قربانی کی ، اور نہ ہی اپنی سب سے عزيز بیوی خدیجہ رضي اللہ تعالی عنہا کی جانب سے حالانکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پیاری تھیں ۔

اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عھد مبارک میں کسی بھی صحابی سے بھی یہ عمل نہيں ملتا کہ انہوں نے اپنے کسی فوت شدہ کی جانب سے قربانی کی ہو ۔

اور ہم اسے بھی غلط سمجھتے ہیں جو آج کل بعض لوگ کرتے ہیں کہ پہلے برس فوت شدہ کی جانب سے قربانی کرتے ہیں اوراسے ( حفرہ قربانی ) کا نام دیتے اور یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس کے ثواب میں کسی دوسرے کو شریک ہونا جائز نہيں ، یا پھر وہ اپنے فوت شدگان کے لیے نفلی قربانی کرتے ، یاان کی وصیت پرعمل کرتے ہوئے اور اپنی اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرتے ہی نہيں ۔

اگر انہيں یہ علم ہو کہ جب کوئی شخص اپنے مال سے اپنی اوراپنے اہل وعیال کی جانب سے قربانی کرتا ہے تواس میں زندہ اور فوت شدگان سب شامل ہوتے ہيں تو وہ کبھی بھی یہ کام چھوڑ کر اپنے اس کام کونہ کریں ۔ .

دیکھیں : رسالۃ : احکام الاضحيۃ الذکاۃ

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ

جلد 2 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ