السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا اسلام میں لڑکے کے لیے ایک بکرےسے عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا ایسی کوئی روایت موجود ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!نہیں احادیث مبارکہ میں عقیقے میں لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا ہی حکم وارد ہوا ہے۔ لڑکے کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا ذکر کسی روایت میں نہیں ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: «أَمَرَنَا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنْ نَعُقَّ عَنِ الْغُلاَمِ شَاتَیْنِ، وَعَنِ الْجَارِیَةِ شَاةً» جامع ترمذی: ۱۵۱۳؛ سنن ابن ماجہ: ۳۱۶۳"رسول اللہﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں۔" جمہور علماے کرام کا موقف ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔ امام ابن قدامہ حنبلیبیان کرتے ہیں: «وَالْعَقِیْقَةُ سُنَّةٌ فِي قَوْلِ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ ابْنُ عَبَّاسٍ وَابْنُ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ وَفُقَهَاءِ التَّابِعِیْنَ وَأَئِمَّةِ أَهْلِ الْأَمْصَارِ» المغنی مع الشرح الکبیر : ۱۱؍۱۲۰"اکثر اہل علم مثلاً ابن عباس، ابن عمر، عائشہ ، فقہاے تابعین اور ائمہ کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے۔" حافظ ابن قیم الجوزیۃ کا بیان ہے : «فَأَمَّا أَهْلُ الْحَدِیْثِ قَاطِبَةً، وَفُقَهَاءُهُمْ وَجَمْهُوْرُ أَهْلِ السُّنَّةِ فَقَالُوْا: هِيَ مِنْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِﷺ » تحفۃ الودود باحکام المولود: ص ۲۸"جمیع محدثین و فقہا اور جمہور اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ( عقیقہ) رسول اللہﷺکی سنت ہے۔" ان کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے مروی سابقہ حدیث ہے،وہ بیان کرتے ہیں : «سُئِلَ النَّبِیُّ ﷺ عَنِ العَقِیْقَةِ، فَقَالَ: «لاَ یُحِبَّ اللهُ الْعُقُوْقَ، کَأَنَّهُ کَرِهَ الإِْسْمَ» وَقَالَ: مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أَنْ یَنْسُكَ عَنْهُ فَلْیَنْسُكَ» سنن ابو داؤد : ۲۸۴۴۲؛سنن نسائی: ۴۲۱۷"نبیﷺ سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ عقوق کو ناپسند کرتا ہے، گویا آپﷺ نے یہ نام ( عقیقہ) ناپسند کیا۔ پھر فرمایا : "جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے نسیکہ (جانور ذبح ) کرنا چاہے تو نسیکہ کرے۔" اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ 1. امام شوکانیؓ بیان کرتے ہیں: حدیث میں: «مَنْ أَحَبَّ» کے الفاظ سے عقیقہ میں اختیار دینا وجوب کو ختم کرتا ہے اور اس کو استحباب پر محمول کرنے کو متقاضی ہے۔ نیل الأوطار : ۵؍44 2. حافظ ابن عبد البر کہتے ہیں: اس حدیث میں«مَنْ أَحَبَّ»کے الفاظ میں اشارہ ہے کہ عقیقہ کرنا واجب نہیں بلکہ سنتِ موٴکدہ ہے۔ التمہید لا بن عبد البر : ۴؍۳۱۱ 3. امام مالکبیان کرتے ہیں: «وَلَیْسَتِ الْعَقِیْقَةُ بِوَاجِبَةٍ، وَلَکِنَّهَا یُسْتَحَبَّ الْعَمَلُ بِهَا، وَهِیَ مِنَ الْأَمْرِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ عَلَیْهِ النَّاسُ عِنْدَنَا» موطا امام مالک: ۲۹۵ "عقیقہ واجب نہیں بلکہ مستحب عمل ہے اور ہمارے ہاں ہمیشہ سے لوگ اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔" ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |