سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(594) مذاکرہ فی تحقیق المیراث

  • 7221
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1144

سوال

(594) مذاکرہ فی تحقیق المیراث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مذاکرہ فی تحقیق المیراث


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذاکرہ فی تحقیق المیراث

علمائے کرام!ہمارے سچے نبی ﷺ کی سچی خبریں کتنی وہ ہیں جو پوری ہوچکیں جن کو ہمارے کانوں نے سنا اور کتنی ایسی ہیں جس کو ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ کچھ ایسی باتیں ہیں جن کے وقوع کا لازوال یقین ہمارے دلوں میں مضمر ہے۔ آج سے تقریباًساڑھے تیرا سو برس پیشتر ہمارے ہادی صادق فدا امی وابی نے فرمایا تھا۔

يوشك ان ياتي علي الناس زمان لا يببقي من الاسلام الا اسمه ولا يبقي من القرآن ال رسمه مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدي علمائهم شرارهم من تحت الديم السماء من عندههم تخرج الفتنة وفهيم تعود

جس كا صحيح نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ کتنے فتنے ہیں جن کو دنیا کی اس بدترین جماعت نے اپنے حرص وہوا سے ایجاد کرکے عالم اسلام میں پھیلا کر مسلمانوں کے ایمان کو تباہ وبرباد کر ڈالا سب سے بڑا فتنہ جس نے مسلمانوں کی اصل پونجی توحید اور تفقہ فی الدین میں آگ لگائی۔ علماء کااپنے اسلاف کی تقلید کرنا ہے۔ یہی وہ اصل فتنہ ہے جس نے مسلمانوں میں وہ غیر متزلزل مخالفت ومعاندت پیدا ہوئی۔ جو تمام مہلک بیماریوں اور کمزوریوں اور ذلتوں کی مورث اور تحقیق معنی کی ہلاکت کےلئے کافی ہوئی۔

لیکن حسب فرمان نبی صادقﷺلايزال طائفة من امتي ظاهرين علي الهق وبمقتضائے کلام الٰہی وقليل من عبادي الشكور کے ہر زمانہ میں ایک تھوڑی جماعت ایسی قائم رہی جو حقیقی اسلام کی حلقہ بگوش ہوکر دین کی تجدید اور سنن نبویہ کا احیاء کرتی رہی۔ الحمد للہ کہ ہندوستان کی قسمت بھی اس ربانی جماعت سے محروم نہیں۔

ہم آج اسی ربانی جماعت کے سامنے جو تحقیق حق و ابطال کے دلدادہ ہیں۔ اس بات کے پیش کرنے کی جراءت کرتے ہیں۔ کہ بحمد اللہ اس جماعت کے تحقیق مسائل کادائرہ بہت وسیع ہوچکا ہے۔ لیکن باوجود اس کے علم وفرائض (جس کی شان نصف العلم ہونے کی ہے) کی تحقیق میں ہندوستان کے اندر کسی نے بھی قدم نہ رکھا۔ زیل کی تحریر اس غرض سے پیش کیجاتی ہے۔ کہ یہ حقانی جماعت اس شاندار علم کی تحقیق کی برکت سے بھی محروم نہ رہے۔ اورکچھ افراد اس طرف بھی قدم بڑھایئں۔

یہ ایک بڑے شرم کی بات ہے کہ ''سراجیہ'' جیسی کتاب کو جس کے مصنف نہ تو مستند محدث اور نہ ا س کے مضامین مدلل بدلائل شرعیہ ہیں۔ ہم اس کو اپنے میراث کے فتووں کا مدار بنالیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگرعلمائے حقانی کی توجہ اس طرف نہ ہوئی۔ بلکہ وہی سراجیہ بلاتحقیق وتنقید مدار عمل رہا تو شاید اتخذوا احبارهم الاية سے خروج حاصل نہ ہو۔

اب ہم اصل مضمون کواس امید کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ کہ حضرات علماء اس کی تحقیق وتنقید کی نظر سے دیکھیں گے۔ اور ان شاء اللہ اسی ذریعہ سے حق وصداقت کا ظہور ہوجائے گا۔ ہم اسی عظیم الشان کو اسی لفظ سے شروع کرتے ہیں۔ جس لفظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس علم کوشروع کیا۔

قولہ تعالیٰ۔ يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ

یعنی ’’مسلمانوں تمہارا اللہ اولاد کے حصوں کے بارے میں تم سے کہتا ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے حصے کے برابر دیا کرو پھر اگراولاد صرف لڑکیاں ہوں اور وہ دو یا دو سے زیادہ ہوں۔ تو ترکہ میں ان کا حصہ دو تہائی ہوگا اوراگر ایک ہو تو آدھا ہے۔‘‘

سب سے ہم اس بات پر بحث کرنا چاہتے ہیں کہ آیت مذکورہ میں لفظ اولادکم کن افراد کو شامل ہے۔ ہمارے خیال میں چند ددلائل مندرجہ زیل ایسے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ پوتا پوتی کی طرح نواسہ نواسی بھی اسی آیت کے لفظ اولادکم میں داخل ہیں۔

دوسری دلیل۔ قولہ تعالیٰ۔ وحلائل ابنائكم اس آیت کے لفظ ''ابناء'' میں نواسہ بھی داخل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوتوں کی بیویوں کی طرح نانی کی بیوی بھی حرام ہے۔ جیسا کہ امام الآئمہ امام بخاریرحمۃ اللہ علیہ نے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ کیونکہ امام موصوف نے بعد بیان''حلائل الابناء''کے دسخمی النبی ﷺ ابن ابنۃ ابناء لکھا ہے۔

تیسری دلیل۔ قولہ تعالیٰ۔ لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِي آبَائِهِنَّ وَلَا أَبْنَائِهِنَّ ۔ الخ باتفاق علماء لفظ ''ابناءھن'' میں پوتا نواسہ دونوں داخل ہیں۔

چوتھی دلیل۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی وہ حدیث جو ابو بکرہ سے مروی ہے۔

ان ابني هذا (حسن) لعل الله يصلح بين فئتين عظيمتين بين المسلمين

پانچویں دلیل۔ ابو داود کی وہ رایت جس کو بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے۔

قال خطبنا رسول الله صلي الله عليه وسلم فاقبل الحسن والحسين عليهما قيصان احمران يعئران ويقومان فاخذ هما فصعد بهما المنبرثم قال صداق الله انما اموالكم واولادكم فتنة الحديث

چھٹی دلیل۔ قولہ تعالیٰ۔ ۔ وَوَالِدٍ ۔ (آدم) ۔ وَمَا وَلَدَ ۔ (زریۃ) اس آیت کے لفظ ''ماولد'' میں حضرت عیسی داخل ہیں۔ جو آدم کے نواسہ ہیں۔

ساتویں دلیل۔ حدیث مسلم کی انا سید ولدآدم ہے۔ اس حدیث میں بھی لفظ ولدآدم میں حضرت عیسیٰ داخل ہیں۔

تنبیہ

 پہلی چار دلیلوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ لفظ ابناء ووبنات (جو آیات مذکورہ بالا میں واقع ہے۔ نواسے ونواسیاں ہیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ لفظ اولاد ''لفظ''بنات وابناء سے اعم ااشمل ہے۔ اس لئے نواسے نواسیاں لفظ اولاد میں بطریق اولیٰ داخل ہوں گے۔ پچھلی تین دلیلوں سے صراحتہ نواسے نواسیاں کا لفظ اولاد میں داخل ہونامعلوم ہوتا ہے۔ پس اب ہم یہ دعویٰ کرسکتے ہیں۔ کہ آیات میراث کے لفظ اولاد اور ولد میں بیٹا بیٹی پوتا پوتی نواسہ نواسی یہ سب داخل ہیں۔

چند سوالات علمائے کرام سے

1۔ کیا کوئی ایسی مرفوع حدیث ہے جو آیات میراث کے لفظ ولد سے نواسہ نواسی کی تخصیص پردلالت کرتی ہو۔ ؟

2۔ کیا اقوال صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین وتابعین سے عموم قرآن کی تخصیص کی جاسکتی ہے؟

3۔ کیا برتقدیر حدیث مخصص نہ ہونے اور اقوال صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سےتابعین رحمۃ اللہ علیہ اجمعین سے عموم قرآن کی تخصیص جائز نہ ہونے کے آیات میراث کے لفظ ''اولاد''وولد'' میں نواسہ نواسی کو داخل جاننا مسلمانوں پر فرض نہیں ہے۔ ؟

ان شاء اللہ وراثت اولاد کی ترتیب مدلل بدلائل شرعیہ لفظ اولاد کی بحث ختم ہونے کے بعد پیش کی جائے گی۔ (حررہ محمدایوب نمبر مار کوئیس لین۔ مصری گنج ۔ کلکتہ)

ایڈیٹر

 آپ کے سوالوں میں ایک دو سوالوں کا اضافہ میں بھی کرتا ہوں۔ ایک شخص کی اولاد میں لڑکا ۔ لڑکی۔ اور ا س لڑکی کے بیٹے چار نواسے کیا ان میں تقسیم حسب اولادیوں ہوگی۔ کہ لڑکا اور چار نواسے ملاکر پانچ نواسے اور لڑکی ملا کر چھ اولادیں سمجھی جایئں گی۔ تقسیم گیارہ پر ہوکر یوں تقیسم ہوگی۔

مسئلہ نمبر 11۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زید

لڑکا       لڑکی      نواسہ     نواسہ     نواسہ     نواسہ

دوسری صورت یہ ہوگی کہ ایک لڑکی ایک لڑکا اور ا س لڑکے کے بیٹے چار پوتے کیا ان سب کی نسبت یہ کہنا جائز ہے۔ کہ مرحوم کی اولاد چھ ہے اور تقسیم یوں ہے۔

میت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زید

لڑکی1۔ لڑکا 2۔ پوتا 2۔ پوتا 2۔ پوتا 2۔ پوتا 2۔

یہ سوال اس اصول پر ہے۔ کہ پوتے نواسے مثل بیٹے اور بیٹیوں کے اولاد سمجھے گئے اگر یہ فرمادیں۔ تو نواسے ماں کی عدم موجودگی میں اولاد کی طرح وارث ہوں گے۔ تو عرض ہوگا۔ کہ پھر تو ان دو میں حقیقت مجاز کی نسبت ہے تو چنداں اختلاف بھی نہیں۔ کیونکہ حقیقت کے وجود میں مجاز کو دخل نہیں ہے۔ فافہم۔ (اہلحدیث امرت سر ص 4 ۔ 14شعبان المکرم 1342؁ہجری)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

 

جلد 2 ص 556

محدث فتویٰ

تبصرے