السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محجوب پوتا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ نے اخبار اہلحدیث مورخہ 24صفر المظفر 1337ہجری میں حافظ محمد اسلم صاحب جیرا پوری سلمہ اللہ تعالیٰ کے مضمون محجوب الارث کے متعلق جو تحریر فرمایا ہے۔ اس کی بابت خدمت عالی میں یہ غرضداشت بھیجنا ضروری سمجھتا ہوں۔ امید ہے کہ اس تحریر کو اخبار م ذکور میں شایع فرمادیں گے۔
حافظ صاحب موصوف کا جو مضمون رسالہ معار ف کے جولائی اور اگست کے نمبر میں نکلا ہے۔ خوش قسمتی سے مجھے اس کے پڑھنے کاموقع ملا ہے۔ حافظ صاحب کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن وحدیث تو خیر خود فقہ میں بھی اصولاً یتیم اولاد کو محجوب نہیں کرسکتی۔ اس دعویٰ کا اثبات ایسی خوبی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے۔ کہ اس میں شک وشبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ آپ سے اتنی شکایت ضرور ہے کہ اس مضمون کو اپنے اخبار میں بلاچھاپے ہوئے آپ نے اس کے خلاف لکھا وہ مضمون بھی ناظرین اہلحدیث پڑھ لیتے۔ تو پھر اس کے بعد آپ کی رائے کا وزن ان کو اچھی طرح معلوم ہوتا۔ خود آپ سے بھی یہی شکایت ہے کہ آپ نے اس مضمون کو سرسری نگاہ سے دیکھا ہے۔ اور شاید اس کا بقیہ حصہ جو اگست میں چھپا ہے۔ آپ نے غور سے ملاحظہ نہیں فرمایا۔ جس میں ان تمام باتوں کا مفصل جواب موجود ہے۔ جو آپ نے تحریر فرمائی (1)ہے۔
آپ نے حافظ صاحب سے اختلاف فرماتے ہوئے ایسی جزئی اور سرسری باتیں لکھی ہیں۔ جب پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ حافظ صاحب نے ایک نہایت لطیف اصولی بحث کی ہے۔
پہلی بات جو آپ نے تحریر فرمائی ہے۔ کہ اولاد کے لفظ کو صلبی اولاد پر آپ حقیقت اور بالواسطہ اولاد پرمجاز قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں۔
’’اولاد کا لفظ صلبی اولاد کےلئے حقیقت اور غیر صلبی کے لئے مجاز ہوا اور یہ تو علم اصول میں ثابت شدہ بات ہے۔ کہ ایک ہی لفظ سے حقیقت اور مجاز آن واحد میں مراد لینا جائز نہیں‘‘
اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ صحیح بخاری کی حدیث آن واحد میں بیٹی اور پوتی دونوں کو حصہ دلاتی ہے۔ یعنی بقول آپ کے حقیقی اور مجازی دونوں آن واحد ہی میں مراد ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اولادکم کے لفظ کو آپ نے ابناءکم وبناتکم پر قیاس کیا ہے۔ کےان الفاظ کیا قیاس حقیقتاً صلبی پر ہوتا ہے۔ اور غیر صلبی پر مجازاً لیکن اولاد کا لفظ ایسا نہیں ہے وہ ان سے عام(2) ہے۔ علمت ومعلول کی جو بحث آپ نے فرمائی ہے وہ سب سے زیادہ حیرت انگیز ہے۔ بہن بھائی چچا اور بھتیجے میت کے وارث ہوتے ہیں۔ یہاں کہاں علت اور معلول کا سلسلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وراثت او ر اقربیت کے محور پرگردش کرتی ہے۔ اوراقربیت میں یتیم اولاد شامل ہے۔
بجلی کے کرنٹ کی جو مثال آپ نے لکھی ہے جس کی بابت آپ نے فرمایا ہے کہ اس
1۔ عام ہے تو ہماری پیش کردہ مثال میں پوتوں کو بھی حصہ دلانے سے کون مانع ہے۔ یعنی کسی مرحوم کے دو بیتے ہیں۔ ایک بیٹا لا ولد ہے۔ اور ایک کے دو بیٹے ہیں۔ سب ملا کر چار ہوئے ۔ کیا آپ یا حافظ صاحب چار پرتقسیم کریں گے۔ یادو پر؟ غالبا ً چار کی ہاں نہ کریں گے۔ دو کی کریں گے۔ تو ثابت ہوا کہ پوتےحقیقتاً اولاد نہیں۔ (ایڈیٹر)
حافظ صاحب نے اس بات کو خصوصیت کےساتھ اپنے مضمون میں واضح اور نمایاں طور پر ثابت کیا ہے۔
سے اچھی کوئی مثال نہیں۔ آیئے ہم اس سے بھی واضح اور صاف مثال پیش کرتے ہیں۔ ااور وہ یہ کہ میت کو باپ اور نانی نے چھوڑا ظاہر ہے کہ اس صورت میں آپ کے قول کے مطابق وراثت کی برق کا جو کرنٹ چلے گا۔ وہ قریب کےاسٹیشن یعنی باپ پر رک جانا چاہیے۔ لیکن قانون وراثت اس کرنٹ پر نانی تک پہنچاتا ہے۔ اور باپ ہی تک محدود نہیں رکھتا اس سے صاف ظاہر ہوا کہ آپ کی یہ دلیل بے کار(3) ہے۔
پھر اس کے بعد آپ لکھتے ہیں۔ کہ یتیم پوتا اپنے باپ کا وارث ہے۔ تو زندہ بیٹا اپنے باپ کاسارا وارث کیوں نہ ہو۔ ؟ اس سے انکا ر نہیں کہ زندہ بیٹا اپنے باپ کا وارث کیوں نہیں۔ لیکن سارا کا لفظ جو آپ نے لکھا ہے۔ یہی بحث طلب ہے اور منطقی طور پر نتیجے میں یہ الفاظ نہیں آیا پھر اس کے بعد دو بیٹوں اور چھ پوتوں کادریافت طلب مسئلہ جو آپ نے لکھا ہے۔ اس متعلق حافظ صاحب کے مضمون میں صاف جواب لکھا ہے۔ کہ یتیم اولاد اپنے باپ کے قائم مقام ہوکر وہی حصہ لےگی۔ جو ا س کے باپ کا تھا۔ قائم مقام کا اصول نظرانداز کردینے سے یہ غلط فہمی آپ کو پیدا ہوگئی۔ اور غلط فہمی کی بنیاد پر آگے چل کر آپ ا س بات پراصرار کرتے ہیں۔ کہ زندہ بیٹوں کے بیٹوں کو بھی حصہ کیوں نہیں جاتا حالانکہ جب ان کے باپ زندہ ہیں۔ تو ابھی وہ بیٹے ان کے قائم مقام کیونکر ہوسکتے ہیں۔ بعینہ اسی طرح کے جس طرح باپ کی موجودگی میں دادا باپ کا قائم مقام نہیں ہوسکتا۔ اس لئے وارث نہیں ہوتا۔ (4)۔
حا فظ صا حب کی فرضی دلیل پر آپ نے جو آپ کے معار ضہ کیا ہے کہ وہ بھا ئیوں کی کی صورت میں ایک بھائی عیا ش ہے اور وہ جو ش مستی میں بھائی کو قتل کر ڈالے کہ میں ساری جا ندار کا ما لک بن جائوں تو کیا صورت کا بھی کوئی انتظام جناب نے سو چا ہے ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا شر یعت نے خود بندوبست کردیا ہے کہ قاتل کو وارثت نہیں ملتی اور ووہ قصاصاً قتل کردیا جاتا ہے جو صورت حافظ صاحب نے پیش کی ہے اس کو پھر ذرا بغور ملاحظ فرمائیے وہ اس نوعیت سے ہر گز نہیں ہے جس نوعیت پر آپ نے پیش کی ہے اس صورت میں قاتل کو محروم کرنے اور اس سے قصاص کے بعد بھی اسکے دوسرے محجوب بھائی وارث ہوتے ہیں اور اس لئے محجوب الارث کا مسئلہ یقیناً
قطع رحم اور قتل کا محرک ہوسكتا ہے۔ پھر آپ نے جو یہ لکھا ہے۔
''کوئی وجہ نہیں ہے کہ زندہ بیٹے کے ساتھ پوتا دادا کی جائداد میں اس کاشریک ہوسکے۔ بحال یہ کہ وہ جائداد ا س کے باپ کی طرف ہنوز منتقل نہیں ہوئی''
اس پر آپ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے۔ کہ محجوب پوتے کا وارث پھر آپ اس کے دادا کو کیوں قرار دیتے ہیں۔ جب کہ اس کے مردہ باپ کی طرف ہنوز اس کی جائداد منتقل نہیں ہوئی تھی۔ اصلیت یہ ہے۔ کہ قائم مقامی کے اصولوں کو نظرانداز کرنے کی یہ سب خرابیاں ہیں۔ 1۔
1۔ کس قدر جلدی میں آپ نے یہ بات تحریر فرمائی ہے۔ جناب دادا پوتے کا وارث اس صورت میں ہوتا ہے۔ کہ لائن میں دادا ااور پوتے کے درمیان کوئی اقرب وارث نہیں صرف باپ تھا۔ سو درمیان سے اٹھ گیا اب پوتے اور دادا میں کوئی روک نہیں۔ اس کے مقابل کی مثال اگر ہے تو یہ ہے اور یقیناً یہی ہے۔ کہ کسی مرحوم کا صلبی بیٹا نہیں ۔ صرف پوتا ہے تو بے شک وہ اسی طرح بے مانع وارث ہے۔ جس طرح دادا (باپ کے عدم پر) پوتے کا وارث ہے۔ لیکن جس صورت میں دادا کا صلبی بیٹا موجود ہے۔ جو پوتے سے اقرب ہے۔ تو پھر قریب اقرب کے برابر کیوں ہوسکتا ہے۔ بس یہی ایک اصول ہے جو ہم میں آپ میں متفق علیہ ہے۔ اور یہی فیصلہ کن ہے۔
نوٹ۔ اس مسئلے کےامرتسری حامیوں نے بھی ایک ٹریکٹ شائع کیا ہے۔ گو انہوں نے اہل حدیث کی تردید میں لکھا ہے مگر خوش قسمتی سے میں اس کو تایئد سمجھتا ہوں۔ اس کا زکر آئندہ کسی نمبر میں ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ زبانی گفتگو ان سے ہوچکی ہے۔ جس میں بہت سے مراتب ملے ہوچکے ہیں۔ (ایڈیٹر)
آخر میں محجوب محروم اور مظلوم پوتے کی بابت آپ لکھتے ہیں۔ ''اللہ تعالیٰ کے علم میں بھی اس یتیم بچے کا حال قابل رحم ہے۔ ''
بے شک قابل رحم ہے۔ لیکن ویسا ہی جیسا زندہ گاڑی ہوئی لڑکیوں کا جس کے بارے میں قرآن پاک میں ارشاد ہے۔ وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ ﴿٨﴾ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ
از چشم خود پیرس کہ ماراکہ می کشد جاناں گناہ طالع وجرم دستارہ نیست
(احقر العباد احمد حسین خان۔ پنشز خریدار اخبار اہلحدیث (5)۔ اہلحدیث امرتسر ص 6 21 ربیع الثانی 1337ہجری)
--------------------------------------------
1۔ جواب تھا تو بجائے اتنا لمبا لکھنے کے آپ وہی نقل کردیتے کس نے منع کیا تھا (ایڈیٹر)
2۔ محجوب پوتا دادا کی طرف چچا کے ہوتے ہوتےدوسروں کے قریب ہے مگر اقرب نہیں۔ اقرب اس کا چچا ہے۔ پس اصولا ً چونکہ ہم متفق ہیں۔ کہ الاقرب فالاقرب لہذا مسئلہ کا یہی فیصلہ ہے۔ (ایڈیٹر۔
3۔ بے کار نہیں غور طلب ہے۔ مرحوم سے کرنٹ دو مختلف لائنوں کی طرف جاتا ہے۔ ایک دودہال دوسرا ننہال ان دونوں میں کوئی لائن دوسرے کےلئے ذریعہ یا حاجب نہیں۔ برخلاف صورت متنازعہ کے کہ مورث کا مرحوم بیٹا پوتے کےلئے زریعہ اور زندگی میں بالاتفاق حاجب (مانع ) ہے۔ فافتر قافافهم ولا تعجل (ایڈیٹر)
4۔ بس یہی جواب فیصلہ کن ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ پوتا اولادکم میں حقیقتاً داخل نہیں۔ بلکہ بحیثیت قائم مقامی ہے۔ یعنی اولاد کی اولاد ہے۔ لہذا يوصيكم الله في اولادكم میں حقیقی اولاد کے ساتھ درجہ نہیں پائے گا۔ (ایڈیٹر)
5۔ الحمد للہ جملہ مراتب ملے ہوکر بحث اب مرکز پر آگئی ہے۔ کہ پوتا اپنے مرحوم باپ کا قائم مقام ہوکر چچا کے ساتھ وارث ہے۔ اس کا ثبوت نقلی یا عقلی دینا فریق ثانی کا فرض ہم سبکدوش ہیں۔ (ایڈیٹر)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب