سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) تہجد اورسحری کی اذان

  • 720
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 2313

سوال


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فجرسےپہلے اذان درست ہے یا نہیں  ۔ وہ اذان سحری کی یا تہجد کی کہلا سکتی ہے یا نہیں ۔ کیا کوئی شخص غیر رمضان میں سحری کی اذان دے سکتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

«عن ابن عمر وعائشة رضی الله عنهاقال رسول الله صلی الله عليه وسلم انّ بلالا يوذن بليل فکلوا واشربوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔حتی ٰ ينادی ابن  ام مکتوم وکان رجلا اعمٰی لاينادی حتی ٰ يقال له اصبحت اصبحت متفق عليه وفی اخرہ  ادراج۔»

یعنی ابن عمررضی اللہ عنہ اورعائشہ رضی اللہ عنھاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔بلال رات کواذان دیتا ہےپس سحری کھاؤ پیو۔یہا ں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دے اورابن ام مکتوم  نابینا آدمی تھا۔یہاں تک کہ کہا جاتا صبح ہوگئی۔صبح ہوگئی اوراخیر کلام (وکان رجلااعمی)اخیر تک راوی کا قول ہے۔

اس حدیث پر سبل السلام میں لکھا ہے۔

«وفيه شرعية الاذان قبل الفجر لالما شرع الاذان  فان الاذان کما سلف  للاعلام بدخول الوقت ولدعاء السامعين لحضور الصلوة وهذاالاذان الذی قبل الفجر  قد اخبر النّبی صلی الله عليه وسلم  يوجه شرعية بقوله ليوقظ نائمکم يرجع قائمکم رواہ الجماعة الاّ الترمذی والقائم هو الذی يصلی صلوۃ الليل ورجوعه عودہ الی نومه اوقعودہ عن صلوته اذا سمع الاذان فليس للاعلام بدخول ولالحضور الصّلوۃ فذکر الاختلاف فی المسئلة  والاستدلال للمانع وللمجيز لايلتفت اليه من همه العمل  بما ثبت » (سبل السلام جلداول صفحه نمبر77 )

اس میں  فجر سےپہلے اذان دینے  کاثبوت ہےمگر یہ اذان اس خاطرنہیں  جواذان کی  اصل  غرض ہے کیونکہ اصل غرض اذان کے وقت  نماز کااعلان اورسامعین کوحضورِنماز کی دعوت ہے اور اس اذان کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبر دی ہےکہ سوئے ہوئے کوجگانے کی خاطر اورقائم کو  لوٹانے کی خاطر ہے اس کوترمذی کے سوا باقی جماعت نے روایت کیاہے۔اور قائم سےمراد جورات کونماز پڑھتا ہے اوراس کولوٹانے سےمرادیہ ہے کہ وہ سوجائے یانماز سےفارغ ہوکربیٹھ جائے جبکہ اذان سنے۔

پس یہ اذان نہ وقت نماز کی اطلاع کےلئے ہے اورنہ حضور نماز کی خاطر ہےپس اس مسئلہ میں جوازعدم جواز کے جھگڑے میں اورمانع اورمجوز کے استدلال کی بحث میں  وہ شخص نہیں  پڑسکتا جس کامقصدثابت شدہ شےپرعمل ہے۔

اس بیان سے ایک توسحری کی اذان ثابت ہوئی ۔دوم یہ معلوم ہوا کہ اس اذان کی غرض وہ نہیں جوعام اذان کی ہے بلکہ یہ اس خاطرہے کہ را ت کو نماز  پڑھنےوالا  ذرا آرام لے کرنماز فجر کےلئے تیار ہوجائے۔

سوم: سویا ہواٹھ کرنمازکی تیاری کرسکے کیونکہ اکثرانسان رات کی نیند سےاٹھتا ہےتواس کوکئی طرح حاجتیں ہوتی ہیں ،پہلے نیند کی سستی میں اٹھتےاٹھتے اتنی دیرلگ جاتی ہے۔پھراکثر پاخانہ پیشاب کی حاجت ہوتی ہے۔اورکبھی غسل وغیرہ کی بھی حاجت ہوتی ہے اورصبح کےوضو کےلئے بھی کچھ وقت زیادہ چاہیئے کیونکہ منہ ناک وغیرہ میں لمبی نیند سےجوموادجمع ہوجاتا ہے مسواک وغیرہ سے اس کی صفائی اوراندر سے اس کا اخراج ان کاموں کےلئے کافی وقت چاہیئے۔اس لئے سحری کی اذان مقررکی گئی ہے اوراس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ محض رمضان کےلئے نہیں بلکہ بارہ ماہ کےلئے ہےبلکہ رمضان سے دوسرے مہینوں میں  زیادہ مناسبت رکھتی ہے کیونکہ رمضان میں کھانے پکانے کےلئے لوگ پہلے سےجاگے ہوئے ہوتے ہیں۔برخلاف غیررمضان کے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ فرمانا کہ تم کوبلال کی اذان کھانےپینے سے نہ روکے۔اس سے یہ مقصد نہیں کہ یہ رمضان ہی میں ہےبلکہ اس  فرمان کی یہ وجہ ہے کہ رمضان میں  اشتباہ کا ڈر تھا کہ کہیں لوگ پہلی  اذان سے ہی کھانے پینے سے نہ رک جائیں۔ اس لئے آپ نے اس اشتباہ کودور فرمایا۔

اسی بنا پرحافظ ابن حجر ؒ فتح الباری میں  فرماتے ہیں :

«وادعی ابن القطان ان ذالک کا ن فی رمضان خاصة وفيه نظر»(فتح الباری جز3 صفحه346 )

یعنی ابن القطان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اذان رمضان سے مخصوص  ہے۔مگر ابن القطان کے اس دعویٰ میں  کلام ہے۔

نیل الاوطار میں ہے :

«وقداختلف فی اذان بلال بليل هل کا ن فی رمضان فقط ام فی جميع الاوقات فادعی ابن القطان الاوّل قا ل الحافظ وفيه  نظر» (نيل الاوطار جلداول صفحه نمبر 349 )

بلال کی اذان  جورات میں  ہوتی تھی اس میں اختلاف ہے کہ خاص رمضان میں تھی یا تمام اوقات میں ابن القطان نے اول کا دعوی ٰ کیا ہے ۔حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں  کہ اس دعویٰ میں  کلام ہے۔

اس تفسیر سےیہ معلوم ہوا کہ دونوں  اذانوں میں کچھ زیادہ فاصلہ نہ تھا۔اگرپہلی اذان بہت پہلے ہوتی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کولوگوں پراس اشتباہ کاخطرہ نہ ہوتا کہ فجر کی اذان ہے اورنہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم کواس کااشتباہ کے اٹھانے کی خاطر یہ کہنا پڑا کہ بلال کی اذان  تمہیں کھانے  پینے سے نہ روکے کیونکہ فاصلہ زیادہ ہونے سے خودہی سمجھ جاتے تھے کہ رات باقی ہے۔علاوہ ازیں بعض روایتوں  میں تصریح آگئی ہے کہ فاصلہ بہت تھوڑا ہوتا تھا۔

فتح الباری میں بحوالہ نسائی وطحاوی حضرت عائشہ  رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے۔

«ولم يکن  بينهما الاينزل هذا ويصعد هذا» (فتح الباری جز3 صفحه نمبر347 )

یعنی دونوں  اذانوں کے درمیان صرف اتنا فاصلہ تھا کہ اذان کی جگہ سے ایک اترتا اور دوسرا اذان دینے کے لئے چڑھ جاتا۔ اوربخاری کتاب الصیام میں یہ بھی روایت ہے کہ وہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے شاگرد قاسم کی طرف اس کی نسبت ہے  لیکن نسائی اور طحاوی کی روایت سے معلوم ہوگیا  کہ قاسم نے اپنی طرف سے نہیں  کہا بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے سن کرکہا ہے۔اسی پر حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ۔

«فمعنیٰ قوله فی رواية البخاری قال القاسم ای فی روايته عن عائشة» (فتح الباری جز3 صفحه نمبر347 )

یعنی قال القاسم کامعنی بخاری کی روایت میں یہ ہے  کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے  روایت کرکےکہا ہے  نہ کہ اپنی طرف سے۔

پس جب ثابت ہوگیا کہ فاصلہ بہت  تھوڑا تھا توجولوگ اس کوتہجد کی اذان سمجھتے ہیں  یا تہائی رات باقی رہنےکے وقت یااس سے بھی پہلے دیتے  ہیں  وہ ڈبل غلطی کرتے  ہیں  بلکہ یوں کہنا چاہیئے  کہ تہجد پڑھنےوالے کوفارغ کرنے کے لئے  ہے تاکہ وہ ذرا آرام لے کرنماز فجر کے لئے  تیار ہوجائے۔ چنانچہ حدیث کالفظ ليرجع قائمکم اسی کی طرف اشارہ ہے اوراسی فاصلہ کی وجہ سے امام مالک  ؒ اورامام شافعی ؒ وغیرہ کہتے ہیں کہ فجر کی  نماز کےلئے الگ اذا ن نہ دی جائے اوراسی پراکتفا کی جائے تودرست ہے ۔اوراسی کے متعلق ایک حدیث میں ہے ۔فتح الباری میں ہے :

«حديث زيادبن الحارث عندابی داؤد يدل علی الاکتفاءفانّه فيه انّه اذان قبل الفجربامر النبی صلی الله عليه وسلم وانّه استاذنه فی الاقامة فمنعه الی ان طلع الفجر فامرہ فاقام» (فتح الباری جز3 صفحه نمبر346 )

 زیاد بن الحارث  رضی اللہ عنہ کی حدیث اذان قبل الفجر کے کافی ہونے پردلالت کرتی ہے  کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کےامر سےزیادبن الحارث نےاذان دی اوراس نےاجازت مانگی۔آپ نےاس کوروک دیا یہاں تک کہ پوہ پھٹ  گئی  پس اس کواقامت کا امر فرمایا اس نےاقامت  کہی۔

اس حدیث سے صاف معلوم ہوکہ اذان پوہ پھٹنےسے پہلے  دی اوراسی پرکفایت کی دوبارہ اذان نہیں دلائی لیکن حافظ ابن حجرؒ نےاس حدیث کےمتعلق لکّھا ہے۔

«فی اسنادہ ضعف وايضا فهوواقعة عين وکانت فی سفر» (فتح الباری جز3 صفحه نمبر346 )

اس حدیث کی اسناد میں  ضعف ہے نیزخاص واقعہ ہے جوسفر میں ہواہے۔

اوراصول کاقاعدہ ہے کہ خاص واقعہ سے عام استدلال صحیح نہیں  کیونکہ خاص واقعہ میں کئی احتمال ہوتے ہیں  جومانع استدلال ہیں۔مالکیہ شافعیہ کی طرف سے اس کایہ جواب دیا  جاتا ہے کہ اگرچہ یہ واقعہ خاص ہےمگراس میں  کوئی ایسا احتمال نہیں  جومانع استدلال ہو۔رہا ضعف اسناد تویہ مسلمّ ہے مگرعمل اہل مدینہ اس کےموافق ہے اورعمل سلف اہل مدینہ امام مالک ؒ وغیرہ کےنزدیک مستقل حجت ہے اورتقویت تومستقل حجت نہ ہونے کی صورت میں بھی ہوجاتی ہے۔مگرایسے بڑے  اماموں  کے نزدیک مستقل حجت ہونےسے اور زیادہ  تقویت ہو گئی پس ضعفِ اسناد سے اس حدیث میں  جوکمی آگئی تھی وہ اس عمل سے رفع ہوگئی۔ہاں دو اعتراض اس پرڈبل پڑسکتے ہیں ۔ایک یہ کہ اگرپہلی اذان کافی ہوسکتی ہے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو اذان کیوں دلاتے ۔جن سے ایک بلال دیتے اوردوسری  عمروبن ام مکتوم رضی اللہ عنہ۔

دوسرا اعتراض یہ کہ ابوداؤد وغیرہ میں حدیث ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے فجرکی اذان ایک مرتبہ غلطی سے پہلے دیدی توآپ نےبلال کوحکم دیا کہ اعلان کردے «اَلاانّ العبدنام »خبردار بندہ  سوگیا یعنی نیند میں صبح کا پتہ نہیں لگایا بندہ سونے لگاہے اس اذان کومعتبر نہ سمجھا جائے۔ اگرقبل الفجراذان معتبر ہوتی  تواس اعلان کی کیا ضرورت تھی؟ اوراس حدیث کےمتعلق اگرچہ حفاظ حدیث کااتفاق ہے کہ یہ غلط ہے ۔صحیح یہ ہے  کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کاواقعہ ہے ۔ان کے موذن سے غلطی ہوگئی تھی جس کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان کا حکم دیا تھا۔ لیکن اگرحضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کےزمانہ کاواقعہ سمجھ لیا جائےتوپھر عمل اہل مدینہ وغیرہ حدیث زیادبن الحارث کےموافق کہا ں رہا۔علاوہ اس کے حافظ ابن حجرؒ فتح الباری میں  اس کوکئی سندوں سے ذکرکیاہے جوبعض کوتقویت دیتی ہیں۔ جن سے معلوم  ہوتا ہے کہ مرفوع کی بھی کچھ اصل ہے۔ ملاحظہ ہو(فتح الباری جز3 صفحہ نمبر346 ) بہرصورت  یہ اعتراض بھی ڈبل ہے۔ان دونوں  اعتراضوں کاجواب یہ ہے  کہ دوسری اذان صرف رمضان میں دلائی جاتی تھی تاکہ عام طور پر پتہ لگ جائے کہ اب کھانا پینا بند ہے۔گویا  رمضان کازیادہ اہتمام ہونے کی وجہ سے دوسری  اذان کی ضرور ت پڑتی اوراسی بنا پرآپ نےفرمایا کہ جب تک عمربن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان نہ دے کھانے پینے سے بند نہ ہو۔اوریہ بھی احتمال ہے کہ دوسری اذان غیر رمضان میں بھی ہوتی ہو مگر پہلی پراکتفاء بھی درست ہوجس کامطلب یہ ہے کہ دوسری ضروری نہ سمجھی جاتی ہو۔جیسے حدیث زیاد بن الحارث رضی اللہ عنہ اور عمل سلف اہل مدینہ وغیرہ سےظاہر ہوتا ہے اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کے واقعہ کایہ بھی جواب ہوسکتا ہے کہ پہلی اذان موذن نے بہت پہلے دے دی ہو۔ اورابھی رات کافی باقی ہو۔اس لئے اعلان مذکورکی ضرورت پڑی ہو۔

غرض اس قسم کے جوابات مالکیہ اورشافعیہ کے طرف سے دئیے جاتے ہیں مگر باوجود اس کےاحتیاط اختلاف  سےنکل جانے میں وہ یہ کہ پہلی اذان اگر دی جائے تواس پر اکتفا نہ کی جائے بلکہ جمعہ کی دوسری اذان ضروری دی جاتی ہے خواہ پہلی دی جائے یا نہ۔ اس طرح یہاں  بھی دوسری اذان ہونی چاہیے۔رہی پہلی اذان تووہ اگرہوجائے بہتر ہے اگر نہ ہوتوکوئی حرج نہیں  کیونکہ سلف نےاس کا کوئی خاص اہتمام نہیں  کیاجس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کوئی ضروری شے نہیں۔او ربعض لوگو ں کاخیال ہے کہ پہلی اذان الفاظ اذان میں  نہیں  بلکہ ویسے اعلان تھا۔مگریہ بالکل غلط ہے ۔حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اذان  کاحقیقی معنی شرعاً انہی الفاظ کے ساتھ اعلان ہے پس یہی مراد ہوگا۔دوم اگر اذان کے الفاظ نہ ہوتے توبلال کی اذان سے اشتباہ کاخطرہ نہیں  ہوسکتا تھا حالانکہ حدیث سےظاہر ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشتباہ کا خطرہ ہوا۔اوراسی بنا پر فرمایا کہ بلال رات کواذان  دیتا ہے پس کھاؤ پیو یہاں   تک کہ ابن مکتوم اذان دے ۔پس اذان پہلے اگردی جائے  تومسنون الفاظ سے دینی چاہیئے  اپنی طر ف سے کوئی بدعت نہ کرنی چاہیئے ایسا نہ ہوکہ کہیں  فائدہ کی جگہ نقصان ہوجائے ۔خدا محفوظ رکھے  ۔آمین ۔

وباللہ التوفیق

فتاویٰ اہلحدیث

کتاب الصلوۃ،نماز کا بیان، ج2ص91 

محدث فتویٰ


ماخذ:مستند کتب فتاویٰ