سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(559) ہندووانہ رواج کے مطابق لڑکی کو حصہ نہ دینا ..الخ

  • 7186
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 763

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید دعویٰ اسلام کاکرتا ہے۔ صوم وصلواۃ وغیرہ ارکان اسلام بجا لاتا ہے۔ صرف نص قرآنی بابت وراثت انثی (لڑکی) سے قطعی منکر ہے۔ جب زوی الفروض انثی میں سے کوئی حصہ دار حصہ وراثت زید سے طلب کرتا ہے۔ تو حکوت حاضرہ میں تقریر وتحریر سے مقر ومصر ہوتا ہے۔ کہ ہمارے یہاں ہندووں کا قاعدہ ہے۔ شرع محمدی نہیں۔ اور ہندو قاعدہ پر لڑکی کو حصہ نہیں مل سکتا۔ البتہ اگر اہم اسلامی قاعدے پر ہوتے تو البتہ لڑکی مستحق وراثت ہوتی۔ اسی قاعدے پر کئی پشتیں گزرچکی ہیں۔ اور زندہ بھی اسی قاعدے پر ہیں۔ پس جو اس قاعدے پرمرگئے ہیں۔ یا جوزندہ ہیں۔ شرع شریف ان کو مسلمان کہتی ہے۔ یا نہیں؟ (سیٹھ عبدالکریم ابن محمد یعقوب کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوال کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ زید شرع محمدی کے حکم کو تسلیم کرتا ہے۔ مگر نہ دینے کا بہانہ کرتا ہے۔ اس صورت میں وہ حق تلفی کرنے کی وجہ سے ظالم ہے کافر نہیں دوسری صورت یہ ہے کہ یہ مانتا نہیں کہ شرع میں لڑکیوں کو حصہ دینے کا حکم ہے اس صورت میں وہ منکر قرآن ہے۔ کیونکہ قرآن مجید میں صاف ارشاد ہے۔لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ ﴿١١سورة النساء

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 519

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ