سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(555) مذاکرہ علمیہ دربارہ مسئلہ فرائض

  • 7182
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1037

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مذاکرہ علمیہ دربارہ مسئلہ فرائض


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذاکرہ علمیہ دربارہ مسئلہ فرائض

 (از قلم جناب حضرت مولوی صاحب عبید اللہ صاحب صدر یا زاردھلی)

صورت مسئولہ یہ ہے ۔ بیٹی۔ بہن ۔ چچازاد۔ بھائی مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ بیٹی ذات الفرض کے بعد اقرب الی المیت کو ملے گا۔ (مدیر)

مذاکرہ علمیہ دربارہ مسئلہ فرائض کا اعلان اخبار اہلحدیث مورخہ 15 نومبر 1935 ء میں میری نظر سے گزرا تھا۔ جس میں علما ء کو متوجہ کیا گیا تھا کہ اس پر قلم اٹھا ئیں مذاکرہ واقعی قا بل توجہ تھا میں اخبا ر اہلحد یث برابر دیکھتا رہا  لیکن وائے افسوس بر حا ل ما کہ لذت کش انتظار ہی رہا کسی نے اس طرف عنان توجہ منعطف نہ کی پھر خبار اہلحد یث مورخہ 1 جنوری  میں پر زور لفظوں کے سا تھ علما ء کو متو جہ کیا گیا کہ اس پر ضر ور قلم  اٹھائیں۔ مذا کرہ کی صورت یہ تھی کہ ایک حدیث ہے ۔

ما ابقته الفرائض فلاولي رجل زكر دوسری  حدیث ہے اجْعَلُوا الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ

حدیث اول کی روسے عصبہ صرف مرد ہی ہو سکتا ہے عو رت نہیں اور حد یث دوم کی رو سے عورت بہن  عصبہ ہو سکتی ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے  بیٹی بہن چچیرا بھا ئی چھوڑا تو دونوں حد یثوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تقسیم ما ل کس طرح ہو گی ۔ میں عالم شخص نہیں مگر دیکھا کہ ہمارے اکا بر خا مو شی سے کا م لے رہے ہیں اسپر قلم اٹھا نے کا نا م نہیں لیتے ہیں تو'' لفجوائے بدنام کنندہ نکو نامے چند ''محض اس خیا ل سے اللہ کا نام لے کر خا مہ فر سائی کی جراءت کر بیٹھا کہ ممکن ہے کہ مجھ سے کم علم کے اقدا م کرنے پر ہمارے اکا بر قلم اٹھا نے کی زحمت گوارا فرمائیں ۔

 وما توفيقي الا بالله عليه توكلت وهو حسبي ونعم الوكيل

 مذکورہ بالا حد یثوں میں قابل غور حدیث اول ہے کیو نکہ اس میں عام حکم یہ ہے اھل فرض کو ان کا حصہ دینے کے بعد باقی ماند اس عصبہ کا ہے  جو مذکر ہو چنا نچہ اس میں

صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور علماء رحمۃ اللہ علیہ اجمعین کے دو گروہ ہیں ۔ ایک حضرت عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حدیث مذکور کے راوی بھی ہیں۔ اور اہل ظاہر ان لوگوں کایہی مذہب ہے۔ کہ اصحاب فرائض کودینے کے بعد باقی ماندہ عصبہ مذکر کوملے گا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیث مذکور کے اس آیت شریفہ سے بھی حجت پکڑتے ہیں۔

إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ﴿١٧٦سورة النساء

 یعنی اگر کوئی مرجائے۔ اور اس کی اولادنہ ہو۔ اور اس کی بہن ہو تو اس کے واسطے مال متروکہ کا نصف ہے۔ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ بہن کوبیٹی کے ساتھ جوشخص کچھ دلائے وہ ظاہر قرآن کا مخالف ہے۔ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کی ایک جماعت اور علماء جمہور کا یہ مسلک ہے کہ بہن بیٹی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہے۔ بیٹی کودینے کے بعد جو باقی بچے وہ بہن کو ملے گا۔ امام المحدثین امام بخاریرحمۃ اللہ علیہ باب باندھتے ہیں۔ باب میراث الاخوات مع البنات عصبۃ اس باب کی شرح کے تحت ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں۔

 قال ابن بطال اجمعوا علي ان الاخوات عصبة البنات فيرثن ما فضل عن البنات

 يعنی ابن بطال کہتے ہیں۔ کہ لوگوں کا اس پر اجماع ہے۔ کہ بہنیں بیٹیوں کی بنائی ہوئی عصبہ ہیں۔ پس بیٹیوں سے جو فاضل بچے گا اس کی وارث ہوں گی۔

نیل الاوطار جزء ششم کے صفحہ 117 میں حدیث اول کے ماتحت میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔

 والحديث يدل علي ان الباقي بعد استيفاء اهل الفروض المقدرة لفروضهم يكون لا قرب العصبات من الرجال ولا يشاركه من هو ا بعد منه وقد حكي ا لنووي الاجماع علي زلك وقد استدل به ابن عباس ومن وافقه علي ان الميت ازا اترك بنتا واختا واخا يكون للبنت النصف والباقي للاخ ولا شي للاخت انتهي

یعنی حدیث (ماابقة الفرائض الخ) اس  پر دال ہے کہ قرآن مجید میں مقرر فرض والوں کو ان کا فرض دینے کے بعد باقی  ماند قر یب کے  عصبہ مذکر کاہو گا ۔

    اور جو عصبہ بعید ہے وہ اس کا شریک نہ ہو گا امام نو وی رحمتہ اللہ علیہ حکا یت کرتے ہیں کہ اجما ع اس پر ہے ابن عبا س اور ان کے موا فقین نے اس حد یث سے استد لا ل کیا ہے  کہ میت جب بیٹی بہن اور بھا ئی کو چھوڑے تو آدھا بیٹی کاہو گا اور باقی بھائی کا  بہن کو کچھ نہ ملے گا بظاہر علا مہ شو کا فی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی حضرت ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے مسلک کو تر جیح دی ہے  ۔

'' لیکن امام نودی رحمتہ اللہ علیہ مسلم شریف کی شرح میں اس حد یث کے تحت میں لکھتے ہیں  یہ حد یث عصبہ(1) کی وارثت کے متعلق ہے اور مسلما نوں کا اس پر اجما ع ہے کہ فروض کے بعد جو باقی بچ رہے عصبہ(2) کا ہے قر یبی عصبہ مقدم کیا جا ئے گا پھر اس کے بعد کا قریبی تو عصبہ قریب کے ہو تے عصبہ بعید وارث نہیں ہو سکتا پس اگر کسی نے بیٹی بھا ئی اور چچا چھوڑا تو آدھا بیٹی کا فرض کے مطا بق ہو گا اور باقی بھا ئی کا چچا کو کچھ نہیں ملے گا ۔ ''

 آگے فرماتے ہیں کہ میرے اصحاب نے کہا کہ عصبہ کی تین قسمیں ہیں  ایک عصنبہ نبفسہ دوسرے عصبہ لغیرہ تیسرے عصبہ مع غیرہ۔

 اگر کوئی بیٹی حقیقی بہن اور سو یتلا بھائی چھوڑے تو ہمارا اور جمہو رکا مذہب ہے کہ بیٹی کو آ دھا ملے گا اور باقی بہن کو سویتلے بھائی کو کچھ بھی نہ ملے گا حا فظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فتح الباری جز 27۔ صفحہ نمبر295) . میں حديث  (ماابقة الفرائض الخ) کے تحت میں لکھتے ہیں ۔

کرما نی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ذکو صفت لفظ اولی کی ہے رجل کی نہیں ہے اور اولی معنے میں قر یب کے لئے تو گویا یوں کہا  کہ باقی ما ند ہ میت کے قریبی مذکر کے لئے ہے جو صلب کی جا نب سے ہو نہ کہ اس کے لئے  جو بطن کی جا نب سے ہو پس اولی باعتبار معنی کے میت کی طرف مضاف ہے اور اگر رجل کو ذکرکر کے اولویۃ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو اس سے یہ فا ئد ہ نکلا کہ میرا ث کی نفی اس اولی سے کی گئی ہے جو ماں کی جانب سے ہو مثلاماموں اور لفظ ذکر سے میراث کی نفی عورت عصبہ سے ہے ۔ اگرچہ وہ میت کی جانب بااعتبار صلب کے منسو ب ہو ۔

 پھر اس جز 27 کے صفحہ 296 میں ۔ میں اسی حدیث کے تحت میں طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا قو ل فقل کرتے ہیں طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک  جماعت یعنی ابن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے متبعین ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث سے اس مسئلہ پر استدلال کرتے ہیں کہ کسی نے بیٹی اور حقیقی بھا ئی بہن چھوڑا  تو بیٹی کا آدھا باقی بھا ئی کا ہو گا بہن کا کچھ نہ ہو گا  اگر چہ وہ حقیقی ہی کیوں نہ ہو اوراس کا لحا ظ اسمیں کیا ہے کہ حقیقی بہن کے سا تھ اگرکو ئی عصبہ  ہو تو بہن کا بیٹی کے ساتھ کچھ نہ ہو گا بلکہ بیٹی کے بعد جو بچے وہ عصبہ کا ہے اگرچہ وہ عصبہ بعید ہو اور ان لوگوں نے اللہ تعا لی کے قول۔ ۔ آیتإِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ﴿١٧٦سورة النساء  سے بھی محبت بگڑی اور کہتے ہیں کہ جو شخص بیٹی کے ساتھ بہن کو دلائے وہ ظاہر قرآن کا مخا لف ہے ۔ طحاویرحمۃ اللہ علیہ نے کہا ان لوگوں پر بالاتفاق استدلال پیش کیا گیا اس بات پر کسی نے بیٹی اور پو تا پو تی مساوی درجہ کے چھوڑا تو آدھا بیٹی کا ہو گا اور باقی پوتا پوتی کےدرمیان تقسیم ہو گا پو تے کو مذ کر ہو نے کےسبب سے باقی کے ساتھ مختص نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ اسکی بہن کو بھی  وارث قرار دیا حالا نکہ وہ مونث ہے اس سے معلوم ہوا کہ ابن عبا س  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث اپنے عمو م پر بلکہ  کسی خا ص با رے میں ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کو ئی بیٹی اور و پھو پھی  چھوڑے تو بے شک آ دہا بیٹی کا اور باقی ما ند چچا کا ہو گا نہ کہ پھو پھی  کا طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کے آیت سے حجت پکڑنے کا جواب دیا  ۔ کے لوگوں کا اس پر اجماع ہے۔ کہ میت اگربیٹی اور سوتیلا بھائی چھوڑے۔ تو آدھا بیٹی کا اور باقی بھائی کا ہوگا۔ اور اللہ تعالیٰ نے قول لیس لہ ولد کا مطلب یہ ے کہ ولد سے وہ ولد مراد ہے جو کل کا مالک ہوسکے۔ نہ وہ ولد جو کل کا مالک نہ ہوسکے۔

حاصل کلام یہ کہ حدیث اول سے معلوم ہواکہ اصحاب فروض کو مفروضہ حق دینے کے بعد باقی ماندہ عصبہ کو ملنا چاہیے۔ علماء کی تصریح کے مطابق عصبہ کی تین قسمیں ہیں۔ ایک عصبہ بنفسہ کہ اگر اصحاب فروض نہ ہوں۔ تو کل مال کا مالک بذات خود ہوجائے۔

دوسرے عصبہ لغیرہ کہ بذات خود تو عصبہ نہ ہو۔ مگر بذات خود عصبہ بننے والے کے ساتھ عصبہ بن جائے۔ جیسے بیٹی اور پوتی وغیرہ کہ اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہے۔

تیسرے عصبہ مع غیرہ جو بذات خود عصبہ نہ ہو۔ بننے والے کے ساتھ مل کرعصبہ بنے جیسے بہن کو بیٹی کے ساتھ مل کر عصبہ  بن جاتی ہے۔

جب عصبہ کی تین قسمیں ہویئں۔ تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے۔ کہ کئی کئی عصبے جمع ہوجاتے ہیں۔ جیسے عصبہ بنفسہ قریبی عصبہ لغیرہ عصبہ مع غیرہ یا صرف عصبات بنفسہ یا عصبہ بنفسہ بعید اور عصبہ مع غیرہ تو ان صورتوں میں باقی ماندہ کا مستحق کون ہوگا اگر پہلی صورت پیش آجائے۔ تو عصبہ بنفسہ قریبی باقی ماندہ کا مستحق ہوگا۔ مگر اپنے اس حق میں اس کوبھی شامل کرے گا۔ جسے وہ عصبہ بناتاہے۔ مثلا بیٹا بیٹی بہن اور ماں کو کوئی چھوڑے ۔ تو ماں کا فرض مقرر کردینے کے بعد باقی ماندہ کو بیٹا بیٹی تقسیم کرلیں گے۔ بہن کو کچھ نہ ملے گا۔

اور اگر دوسری صورت پیش آجائے۔ تو جو میت سے زیادہ قریب ہوگا۔ وہ کل باقی ماندہ کو لے لے گا جیسے ماں ۔ بیٹا بھائی چچا یا ان کے لڑکے جمع ہوجایئں تو ماں کے دینے کے بعد باقی ماندہ کا مالک بیٹا یا اس کا لڑکا ہوگا۔ بھائی چچا یا ان کے لڑکوں کو کچھ نہیں مل سکتا۔

اور اگر تیسری صورت پیش آجائے یعنی عصبہ بنفسہ بعید اور عصبہ مع غیرہ جمع ہو جائیں تو بھی اقرب کا لحاظ کیا جائے گا جیسے بیٹی بہن اور سویتلا بھائی کو کوئی چھوڑے تو بیٹی کو آدھا بقدر فرض دینے کے بعد باقی ماند کی مالک بہن ہو گی سویتلا بھائی نہیں ہو سکتا کیو نکہ بہن سویتلے بھائی سے زیا دہ قریب ہےاول اور دوم صورت میں حدیث

 اول ما ابقته الفرائض فلاولي رجل زكر رجل

ذکر پر عمل کیا جائے گا اور تیسری صورت میں حدیث ۔

 اجعلوا الاخوات مع البنات عصبة

اس قدر تفصیل کرنےکے بعد مسئلہ مذاکر کے اندر دیکھا تو یہی تیسری صورت پائی جاتی  یعنی بہن چچا زاد بھائی بہن اگرچہ عصبہ مع الغیر ہے اور چچا زاد عصبہ نبفیسہ ہے مگر بہن میت سے زیادہ قریب ہے اور چچا زاد بھائی بالکل بعید ہے اسی لئے بیٹی کو آدھا دینے کے بعد باقی ماند آدھے کی مالک بہن ہو گی چچازاد کو کچھ نہیں ملے گا یہی علماء کا متفق علیہ اور معمول بہ ہے اول ما ابقته الفرائض فلاولي رجل زكر رجل

طحاویرحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے مطابق عموم پر محمول کی جائے گی اوراگر عموم پر ہی محمول کی جائے پھر بھی بہن کے ہو تے چچا زاد کو کچھ نہیں مل سکتا کیونکہ اس عموم سے رسولاللہﷺکی خاص کردہ ہے علا وہ ازیں اگر بیٹی کے ساتھ بہن ہو تو

 اول ما ابقته الفرائض فلاولي رجل زكر رجل پر عمل ہو گا اور اگر بہن ہو تو ۔ اجْعَلُوا الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ پر عمل کیا جائے گا ۔

اہل حدیث

قابل مجیب نے بہن کو اقرب ہونے کی وجہ سے اسی کو عصبہ بنایا ہے مولوی احمد دین سیالکو ٹی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب سا بقہ پرچہ میں درج ہو چکا ہے موصوف نے چچازاد بھائی کو عصبہ بنا کر باقی کا وارث بنایا ہے۔ دونوں جوابوں میں اختلاف ہے۔ مسئلہ ضروری ہے۔ اہل علم بالضرور توجہ کریں۔ (اہلحدیث امرتسر ص809 ۔ 7فروری 196ء)

زوی الفروض

 دو لڑکیاں ایک بہن ایک چچیرا بھائی حدیثی جھگڑا۔ 1۔ لڑکیاں۔ حقدار دو ثلث باقی کے لئے بہن عصبہ۔ 2۔ بہن کی بجائے چچا زاد عصبہ ہے۔ جاہل ہوکردخل ور معقولات گستاخی ہے۔

رموز مملکت خویش خسرواں وانند

مدعا مذاکرہ ہے مقصود تخالف حدیث کو رفع کرنا ہے۔ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دین میں حسب مواقع عقل کو بھی دخل ہے۔ بظاہر بہن عصبہ اول ہے۔ چچاذاد درجہ دوم ہے۔ اگر یہ قضیہ برپسندیدگی لڑکیاں چھوڑا جاوے تو کیا گناہ ہے۔ ؟ ایک حدیث پر عمل ہوگا۔ اصحاب خرد نے بھی آخر اپنی رائے سے کام لیا ہے۔ واللہ اعلم

جب دونوں حدیثیں صحیح ہیں۔ تو ایک پر ہی عمل ہوسکتا ہے۔ جس میں موقع شناسی کی کی ضرورت ہو۔ (احقر قاسم علی اورسیر پنشز ۔ بہاولپور) (اہلحدیث امرتسر ص10 26 زی الحجہ 1354ہجری)

-------------------------------------------

1۔  (1) عصبہ کے معنی لڑ کوں اور قربت داروں نر ینہ کے جو با پ کی طرف سے ہوں۔ (نصیر لغات جلد 2 صفحہ 37۔ )  (2)  بہن عصبہ نہیں بنتی بلکہ بحکم حد یث مذ کو ر عصبہ منصوصہ ہے اور یہی صحیح ہے  (اہلحد یث )

 

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 511

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ