السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مذاکرہ علمیہ بابت مسئلہ توریث
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(مجریہ 15 نومبر 1935ء)
ماہرین علم فرائض کا مذاکرہ ہذا پر دل سے متوجہ ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ حقوق کے متعلق ہے۔ لڑکی ذات الفرض ہے۔ نصف کی مالکہ ہمشیرہ ہے۔ اورچچا ذاد بھائی کےلئے دو حدیثیں اصحاب الفرائض نقل کیا کرتے ہیں۔ پہلی حدیث
اجْعَلُوا الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ دوسری حديث ما ابقته الفرائض فلاولي رجل زكر
پہلی حدیث کے مطابق نصف باقی کی وارثہ ہ ہمشیرہ ہونی چاہیے۔ دوسر ی حدیث کے مطابق ما بقی (نصف) چچاذاد بھائی کا ہے۔ اس صورت تقسیم کیسے ہوگی۔ اصحاب العلم توجہ فر مایئں۔ (اہلحدیث امرتسر ص4 17 شعبان 1354ہجری)
15 نومبر کے اہلحدیث میں ایک مذاکرہ علمیہ متعلقہ فرائض لکھا تھا جس کا مضمون تھا کہ علمائے فرائض نے دو حدیثیں نقل کی ہیں۔
اجْعَلُوا الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ دوسری حديث ما ابقته الفرائض فلاولي رجل زكر
اب ہمارے سامنے یہ صورت آتی ہے۔ ایک لڑکی ایک بہن ایک چچاذاد بھائی اس صورت میں تقسیم کس طرح ہو۔ (اہلحدیث امرتسر 10 جنوری 1936ء)
بات جو متفسر نے دریافت فرمائی ہے وہ یہ ہے۔
(الف) اجْعَلُوا الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ(ب) ما ابقته الفرائض فلاولي رجل زكر
ان دونوں شرعی قواعد کے مطابق صورت زیل میں ترکہ کی تقسیم کس طرح ہوگی؟
الجواب۔ دونوں شرعی قواعد اپنے اپنے محل پرچسپاں ہیں۔ اس واسطے ان میں کسی قسم کا تعارض نہیں ہے۔
ذوی الفروض ورثاء کے علاوہ اگر میت کا کوئی یک جد ہی ایسا مرد ہو جو میت کے نزدیک ترین ہو۔ اور زو الفروض کو حصے دیئے جانے کے بعد کچھ بچ رہے تووہ اس یک جدی کو دیا جائے گا۔ اور باقی سب محروم کئے جایئں گے۔ اور اگرزوی الفروض کے حصص دیئے جاچکیں اور میت کاکوئی یک جدی جو نزدیک ترین ہو۔ موجود نہ ہو۔ اور صرف اناث ہی اثاث ہوں۔ تو اس وقت دوسرا قاعدہ جاری ہوگا۔ یعنی بنات کے ساتھ ہمشیرہ میت کوعصبہ بنایا جاوے گا۔ صورت مسئولہ کاحل یہ ہوگا۔
کیونکہ یہاں رجل موجود ہے۔ اور بنت صاحب فریضہ کو اس کا حصہ مل چکا ہے۔ یعنی نصف اس لئے باقی نصف حق چچاذاد بھائی ہے۔ ہاں اگررجل زکر موجود نہ ہوتا۔ تو بنت ایک بٹا دو اور اخت ایک بٹہ دو لے لیتی۔ دوسری قاعدہ شرعی کے مطابق۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب