سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(548) اس طرح کی تقسیم شریعت میں جائز ہے یا نہیں؟

  • 7175
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 771

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید جس وقت سخت بیمار  تھا۔ اور کبھی کبھی بے ہوش بھی ہوجاتاتھا۔ اس وقت زید کی بی بی مسمات زینب اور ایک  لڑکی ہندہ تھی۔ اور پھر ہندہ کا ایک لڑکا بکر تھا۔  اور ایک لڑکی زیب النساء خاتون تھی۔ اور بکر اور زیب النساء خاتون کے چچا وغیرہ 4۔ 5 اشخاص نے  ایک ساتھ مل کرمشورہ کرکے زید کا تمام مال کچھ حصہ زید کی بی بی زینب کو دے دیا۔ باقی سب مال زید کی لڑکی ہندہ کو محروم ر کے بکر کولکھ دیا۔  ہندہ سخت غصہ ہوتی ہے۔  اس لئے کہ اس کی لڑکی زیب النساءخاتون محروم ہوجاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کام کرنا ازروئے شریعت جائز ودرست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عبارت سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ زید کی بیٹی کو محروم کیا گیا ہے۔ اوراس کے نواسے بکر کے نام تمام جائداد کی گئی ہے۔ جو شرعا جائز نہیں۔  بہت بڑا ظلم ہے جن لوگوں نے ایسا کیا ہے۔  ان کو اللہ سے ڈر کر فورا ایسے فیصلے کو منسوخ کرکے شریعت کے مطابق تقسیم کرنی چاہیے۔ واللہ اعلم۔  (اہلحدیث امرتسر  ص 13 وستمبر 1938ء)

تشریح

لڑکیوں کو جائداد سے محروم کردینا سخت  ترین ظلم ہے۔  یہ اسلام کا صنف نازک پر اہم  ترین احسان ہے۔  کہ اس نے بیٹیوں کو باپ کی میراث میں حصہ قرار دیا۔ اب اگر کوئی شخص مسلمان کہلوانے کے باوجود اپنی لڑکیوں کو حصہ سے محروم کردے۔ تو وہ عند اللہ ضرور جوابدہ ہے۔ خدانخواستہ اگر کوئی ملکی قانون بیٹی کو حصہ دینے سے مانع ہو تو اپنی زندگی میں اپنی لڑکی کے حصہ کی قیمت لگاکر باپ ادا کرجائے۔ تو امید ہے عند اللہ مواخذہ سے بری ہوجائے۔ انما الاعمال بالنیات بہرحال لڑکی کا حصہ دینا ضروری ہے۔ اوراس کوغصب کرناظلم ہے۔  (راز)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 505

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ