سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(544) بھتیجے کے حق کی جائیداد لڑکی کو دینا

  • 7171
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 970

سوال

(544) بھتیجے کے حق کی جائیداد لڑکی کو دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرا حقیقی تایا عرصہ پندرہ سال کا ہوا کہ فوت ہوگئے ہیں۔ مگر وہ اپنی تمام جائداد وزمین اور مکان وغیرہ جس کا میں حقدار تھا۔ وہ اپنی لڑکی کو دے  گیا۔  یعنی ہبہ کرگیا جس کا اصلی وارث میں ہوں۔ اور اب وہ لڑکی مذکور اس زمین کوچھوڑتی ہے۔  کہ مولانا ابو الوفا ثناء اللہ صاحب ہمیں شریعت محمدیہ کےمطابق حکم دیں۔ کہ کتنی زمین خود رکھ سکتی ہوں۔ اور کتنی اصلی وارث کو چھوڑ سکتی ہوں۔  لہذا التماس خدمت میں ہے کہ وراثت تقسیم کرکے بزریعہ اخبار اطلاع دیں۔ عین نوازش ہوگی۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جائداد متروکہ میں نصف حصہ لڑکی کاتھا۔  اور نصف حصہ بطور عصبہ بھتیجے کا لڑکی قابضہ اگر چاہے تو نصف آپ کو دے دے۔  اس کا  باپ مواخذہ سے بری ہوگا۔  (یکم زی قعدہ 47ہجری)

تشریح مفید

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مئلے میں کہ ہند ہ اپنی جائداد منقولہ و غیر منقولہ کو بنام اپنی اولاد ذکور واناث کے ہبہ کرنا چاہتی ہے۔  آیا اس کو یہ حق شرعا پہنچتا ہے۔  یا نہیں کہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو برابر مساوی حصہ دے۔ بینوا توجروا

الجواب۔  صورت مسئولہ میں ہندہ کو شرعا یہ حق ہے کہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو برابر مساوی حصہ دے۔ کیونکہ ظاہر فیصلہ نبوی ﷺ یہی ہے۔  کہ جب کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ ہبہ کرے۔ توبیٹے اور بیٹی کو مساوی حصہ دے۔ جیسا کہ نعمابن بن بشیر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  کی حدیث سےواضح ہوتاہے۔

عن نعمان بن بشير ان اباه اتي النبي صلي الله عليه وسلم فقال اني نحلت ابني هذا اعلاماكان لي فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم اكل ولدك تحلت مثل هذا فقال لا فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم فارجعه وفي لفض فانطلق ابي الي رسول الله صلي الله عليه وسلم ليشهده علي صدقتني فقال افعلت هذا بولدك  كلهم قال لا قال فاتقو الله واعدلوا بين اولادكم فرجع ابي فرد تلك الصدقة متفق عليه وفي رواية لمسلم قال فاشهدو علي هذا غيري ثم قال اليسرك ان يكونوا لك في البر سواء قال بلي قال فلااذن كذا في بلوغ المرام

اس حدیث سے ظاہر یہی ہے کہ ہبہ اور عطیہ میں بیٹا اور بیٹی کو برابر اور مساوی حصہ دینا چاہیے۔ اور بعض اہل علم کہتے ہیں۔ کہ جب ماں باپ اپنی اولاد کوکچھ ہبہ کرے یاکچھ عطیہ دیوے۔ تو بیتے کو دو حصہ دے۔ اور بیٹی کوایک حصہ دے۔   جیسا کہ باپ کے مرنے کے بعد بیٹا اوربیٹی میں اس کا ترکہ تقسیم کیاجاتاہے۔ مگر ظاہر الفاظ حدیث نعماب بن بشیر سےیہی ثابت  ہوتا ہے کہ جب باپ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو کچھ ہبہ کردے۔  تو بیٹا اوربیٹی کو برابر حصہ دے۔  اور زندگی کی حالت میں باپ کے ہبہ وعطیہ کو  تقسیم   ترکہ پر قیاس کرنا ٹھیک نہیں۔  علامہ محمد بن اسماعیل الامیر سبل السلام میں نعمان بشیر کی حدیث کے تحت میں لکھتے ہیں۔

الحديث دليل علي وجوب المساواة بن الولاد في الهبة وقد صره به البخاري وهو قول احمد واسحاق واخرين وانها باطلة مع عدم المساواة وهو الذي يفيده الفاض الحديث من امره صلي الله عليه وسلم بارجاعه من قوله اتقوا الله وقوله اعدلوا بين اولادكم وقوله فلا اذن وقوله لا اشهد علي جوداختلف في كيفيته التسوية فقيل بان تكون عطية الذكر ولا نشي سواء وهو ظاهر قوله في بعض الفا ظه عند النساتي الا سويت بينهم وعند ابن حبان سوا بينهم ولحديث ابن عباس رضي الله  عنه سووا بين اولادكم ي العطية فلو كنت مفضلا احد الفضلت النسائ اخرجه سعيد بن منصور والبيهقي باسناد حسن وقيل التسوية ان يجعل للذكر مثل ح ظ الانثيين علي حسب الثوريث انتهي

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 501

محدث فتویٰ

تبصرے