سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(536) زید ایک عورت اور ایک لڑکی اور تین لڑکے چھوڑ کرمرگیا..الخ

  • 7163
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 932

سوال

(536) زید ایک عورت اور ایک لڑکی اور تین لڑکے چھوڑ کرمرگیا..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید ایک عورت اور ایک لڑکی اور تین لڑکے چھوڑ کرمرگیا۔ کوئی املاک نہیں تھے بعدوفات زید عورت اور بچے سب اپنے ننہال کے گھر پرورش ہوئے بعد چند سال کے زیدکے بڑے لڑکے نے کسی شہر میں جا کر بودوباش کی اور نوکری پیشہ اختیار کیا۔ یہ دوسرا لڑکا  بھی آکر چند سال اپنے بھائی کے پاس رہا۔  وہ بھی کچھ کما کر لاکر دیتا رہا کمائی تو ایسی قلیل کہ اس کے خرچ کو بھی کافی نہ  تھی۔ بڑے بھائی نے رعایتا اپنے چھوٹے بھائی کوسنبھال لیا۔ بعد چند ماہ کے چھوٹے بھائی نے علیحدگی اختیار کی پھر آکر مل گیا۔ پھر علیحدہ ہوگیا۔ اب نوکری چھوڑ دی بے کار ہے۔ اور الگ بھی ہے۔ بڑے بھائی نے چند سال سے نوکری چھوڑ کر کچھ معاملہ کرلیا ہے۔ اور کچھ مالداروں کی شکل میں ہے۔ لہذا مذکور بھائی لوگوں میں بول رہا ہے۔  کہ بھائی کے مال میں اپنا حصہ ہے۔ لے لوں گا۔ حالانکہ بڑے بھائی کی دو عورت دو مرد بچے بھی ہیں۔  اب تصفیہ طلب بات یہ ہے کے بڑے بھائی کے مال میں بڑے بھائی کے عین حیات اپنے چھوٹے بھائی کوشرعا کوئی حصہ یا نہیں؟ اور بعد وفات بھی کوئی حصہ ہے۔ ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

زندہ باپ ہو تو اس کے مال سے ورثہ نہیں ملتا۔ بھائی کا تو کیسے ملے گا خاص کر بھائی کی اولاد جب ہے تو چھوٹا بھائی بالکل وارث نہیں۔  (3 رجب 1337ہجری)

واضح ہوکہ وارث عین حیات مورث کے مستحق ترکہ کا نہیں ہوسکتا۔ کہ تقسیم ترکہ کی مورث پرواجب ہو لیکن بطریق اباحت کے روا ہے۔  (فتاویٰ نزیریہ جلد 3 437)

تشریح مفید

کیا فرماتے ہیں۔ علمائے دن اس مسئلے میں کہ زید کے انتقال کے بعد زید کے چھوٹے لڑکوں نے زید کے بڑے لڑکے کو متروکہ پدری کا منتظم قرار دیا۔ اب اگر بڑا لڑکا یہ کہے کہ میرے عرصہ کثیر کے قبضہ ہونے کے سبب ترکہ کی  تقسیم  کو تمادی عارض ہے۔ اور تقسیم نہیں ہوسکتا۔ میں مالک ہوں تو کیا وہ شرعا مالک ہوسکتاہے۔ اور تقسیم ترکہ کی کوئی میعاد تیس بتیس برس رکھی گئی ہے۔ یا نہیں بینواتوجروا۔

الجواب۔ ھو الموفق للحق والصواب۔

عرصہ کثیر تک کسی کے  ترکہ پر قابض رہا اورترکہ کا مدت مذید تک تقسیم نہ ہونا۔ مبطل جواز  تقسیم ترکہ نہیں۔ اور نہ رافع حق ارث ہے ترکہ پر مدت مدید تک قابض رہنا اسباب ملک سے نہیں ہے۔ کہ قابض مالک ہوجاوے اور ترکہ کی تقسیم جائز نہ ہو۔ شرع میں تقسیم ترکہ کے لئے کوئی مدت مقر ر نہیں ہے۔ کہ اس مدت کے گزرنے سے پہلے تو تقسیم جائز ہو۔ اور اس کے گزرنے کے بعد جائز نہ ہو۔ امتداد مدت حق ثابت کی رافع نہیں ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 494

محدث فتویٰ

تبصرے