السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بکر غریب آدمی ہے اس نے زید سے مبلغ دس روپے نقد لیے اور ماہ جیٹھ حال کو ۱۳، آثار پختہ چنے فی روپیہ کے حساب سے زید کو دینے مقرر کر لئے اگر بکر کے چنے بوجہ ژالہ باری یا بارش کے خراب ہو جائیں تو زید نے مبلغ دس روپے اصل ماہ جیٹھ کو واپس لینے ہیں اور شرط یہ ہے کہ بکر نے چنے زید کے گاؤں میں لے جاکردینے ہیں کیا یہ جائز ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نوشته ما هر فرائض حضرت العلام مولانا ابو الخطاب عبد لرحمٰن بن الامام عبد الله الجبواي دام فيضه الجاري
الحمد لوليه والصلواه والسلام علي حبيبه محمد واله وصحبه
اما بعد!واضح ہوکہ حضرت علامہ ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری سری نور اللہ مرقدہ کے فتاویٰ دربارہ فرائض سمجھنے کےلئے علم فرائض کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے فرائض کا جاننا ضروری سمجھ کر مختصر طریقہ سے سراجیہ کا مطلب پیش کیا جاتا ہے۔ مقصود سے پہلے تعریف علم غرض موضوع جاننا بہتر ہے۔ ''
علم الفرائض یاعلم المیراث وہ علم ہے۔ کہ جس کی وجہ سے کسی میت کا ترکہ صحیح طریقہ سے تقسیم کیاجاسکے۔ وغرضہ حق والوں کا حق دلانا موضوعۃ ترکات کا صحیح مصارف میں لانا مرنے والے کومعیت کہتے ہیں۔ اور جو چیزیں چھوڑیں اس کو ترکہ کہتے ہیں۔ رشتہ داروں کووارث یا ورثاء کہتے ہیں۔
ورثاء کی تین قسمیں ہیں۔ 1۔ زوی الفروض۔ 2۔ عصبہ 3۔ زوی الارحام
زوی الفروض ان لوگوں کو کہتے ہیں کہ جن کے حصے اللہ کی کتاب قرآن مجید میں مقرر ہیں جیسے زوجہ کہ اس کے لئے اگر اولاد نہ ہو تو اس کےلئے چوتھائی اور اولاد ہو تو آٹھواں حصہ مقرر ہے۔ کل زوی الفروض بارہ شخص ہیں۔ جن کی تفصیلات آگے آتی ہیں۔
اس کو کہتے ہیں کہ جو کچھ ذوی الفروض نے چھو ڑا لے لیو ے اگر ذوی الفرض نہ ہوں تو سب ترکہ لے لیوے ۔
عصبہ کی دو قسمیں ہیں نسبیہ اور سببیہ عصبہ نسبیہ اسے کہتے جس کو عصو بت بسبب قرابت کے حاصل ہوئی ہو جیسے بیٹا پو تا وغیر ہ عصبہ نسبیہ کی تین قسمیں عصبہ نفبسہ عصبہ بغیرہ عصبہ نفبسہ وہ عصبہ مذ کر ہے جو بہت سے بے واسطہ مو نث کے علا قہ رکھتا ہو جیسے بیٹا پو تا وغیرہ عصبہ بغیرہ وہ عصبہ مو نث جو اپنے بھا ئیوں کی جہت سے عصبہ ہو جائیں بیٹی پو تی وغیرہ عصبہ مع غیرہ وہ عو رت ہے جودوسری عورت کے ہو تے عصبہ ہوجا وے جیسے ا خت اخواہ عینی ہو خواہ علاقی بنت یا بنت الا ین کے ہو تے ہو ئے عصبہ ہو جا تی ہے عصبہ سببیہ وہ ہے جس کو عصو بت بہ سبب آزاد کرنے کے حا صل ہوئی ہو اسکو معتق یا مولے العتا قہ کہتے ہیں ۔
ترکہ کے ساتھ چار چیز یں تر تیب وار لگا ئو رکھتی ہیں پہلی1 ۔ تجہیز وتکفین (2) دوسرے قرض ادا کرنا (3) تیسرے وصیت ثلث 3/1 ۔ یعنی تہائی تک جاری کرنا (4) چوتھے ورثا ء کے درمیان کتا ب و سنت واجما ع امت کے مطا بق تقسیم کرنا پہلے ذوی لفروض اس کے بعد عصبہ نسبیہ اس کے بعد عصبیہ سبیہ پھر رو زوی الفروض نسبیہ پر ان کے حقوق کے مطابق پھر زوی الارحام پھر مولی الموالاۃ ۔ پھر مقرلہ ۔ پھر موصی لہ۔ پھر بیت المال۔
وراثت سے چارچیزیں روکنے والی ہیں۔ 1۔ غلامی کامل ہو یا ناقص۔ 2۔ وہ قتل جس سے قصال یا کفارہ لازم ہو۔ 3۔ اختلاف دین 4۔ اختلاف دارین جب دونوں حکومتوں میں عصمت باقی نہ رہے۔ دو ایسے ملک جن کے بادشاہ آپس میں لڑنے والے ہوں۔ اور امن مفقود ہو۔
1۔ اللہ کی کتاب قرآن مجید میں کل فروض یعنی سہام چھ ہیں۔ نصف آدھا ربع چوتھائی ثمن آٹھواں ثلثین دو تہائی ثلث تہائی سدس چھٹا۔
کل زوی لافروص بارہ شخص ہیں۔ از انجملہ چارمرد ہیں۔ اب یعنی باپ جد صحیح یعنی باپ کا باپ ۔ باپ کے باپ کا باپ یعنی دادا پردادا۔ جہاں تک اوپر ہو۔ پس نانا یعنی ماں کاباپ جد صحیح نہیں۔ اخ الام۔ یعنی اخیانی بھائی۔ زوج۔ (یعنی شوہر) اور آٹھ عورتیں زوجہ (یعنی بیٹی) بنت الابن (یعنی پوتی ) پڑوتی جہاں تک نیچے ہوں اخت لاب وام۔ یعنی عینی بہن جو ایک ماں باپ سے ہو۔ اخت لاب۔ یعنی علاقائی بہن اخت لام یعنی اخیانی بہن ام یعنی ماں۔ جدہ صحیحہ یعنی دادی نانی جو میت سے بے واسطہ جد فاسد یعنی نانا کےعلاقہ رکھتی ہوں۔ بہن۔ بھائی ۔ کی تین قسم ہیں۔ 1۔ اخیانی۔ 2۔ عینی۔ 3۔ علاقی
اخیانی اس کو کہتے ہیں کہ جس کی ماں ایک ہو۔ باپ دو ہوں۔ اخت الام اخیانی اخت ملابوین اخت لاب وام۔ عینی۔ (حقیقی) اس کو کہتے ہیں۔ جس کے ماں باپ ایک ہوں۔ اخت لاب ا علاقی سی کو کہتے ہیں۔ جس کی ماں دو ہوں۔ باپ ایک ہو۔
جد صحیح اس کوکہتے ہیں۔ کہ جب میت کی طرف نسبت کیا جاوے۔ تو درمیان میں جد فاسدنہ آوے ۔ جدہ فاسدہ اس کو کہتے ہیں۔ کہ جب میت کی طرف نسبت کیا جاوے۔ تو درمیان جد فاسد آوے۔ سہام کی تقیسم مطابق تفصیل زیل ہے۔
5 نفرکےلئے۔ زوج۔ جب کہ ولد ولد الابن لڑکا لڑکی پوتا پوتی نہ ہوں۔ 2۔ بنت جب کہ ایک ہو ابن (لڑکا ) نہ ہو۔ 3۔ بنت الابن۔ جب کہ ایک وہ ولد دابن الابن پوتا نہ ہو۔ 4۔ اخت لاب وام۔ جب کہ ایک ہو۔ ولد ولد الابن اخ لاب دام اب جد نہ ہوں۔ 5۔ اخت لاب۔ جبکہ ایک ہو۔ ولد ولد الابن ۔ اخ لاب وام ۔ اخ لاب۔ ابن وجد نہ ہوں۔
4/1۔ 2 نفر کےلئے 1۔ زوج جبکہ ولد ولد الابن ہوں۔ 2۔ زوجہ جب کہ ولد ولد البن نہ ہوں۔
8/1۔ انفر ۔ زوجہ کےلئے جب کہ ولد ولد الابن ہوں۔
2/3۔ 4نفر کےلئے۔ 1۔ بنت جب کہ دو ہوں۔ یازیادہ ابن نہ ہوں۔ 2۔ بنت الابن جب کہ دو ہوں یا زیادہ صلبی ولدوابن الابن نہ ہوں۔ 3۔ اخت لاب دام۔ جب کہ دو ہوں یا صلبی ولد ولد لابن اب جد نہ ہوں۔ 4۔ اخت لاب ۔ جبکہ دو ہوں۔ یا زیادہ صلبی ولد ولد الابن اب جد اخ لاب وام اخت لاب وام جب کہ عصبہ ہو ازب جد نہ ہو۔
3/1۔ 3 نفر کےلئے۔ 1۔ اخت لام۔ 2۔ اخت لام۔ جب کہ دو ہوں یازیادہ ولد ولد الابن اب جد نہ ہوں۔
6/1/۔ 9نفر کےلئے ۔ 1۔ اخت لام۔ 2 اخت لام ۔ جبکہ ولد ولد الابن اب جد نہ ہوں۔ مذکر ومونث قسمت واستحقاق میں برابر ہیں۔ 3۔ اب جب کہ ولد ولد الابن ہوں۔ 4۔ جد صحیح جب کہ ولد ولد الابن ہو۔ اب نہ ہو۔ 5۔ بنت الابن۔ جب کہ ایک بنت ہو ۔ ابن ابن الابن نہ ہو۔ 6۔ اخت لاب۔ جب کہ عینی بہن ایک ہو۔ عینی وعلاقی بھائی اب وجد نہ ہوں۔ 7۔ ام ۔ جبکہ ولد ولد الابن دو بھائی بہن عینی یا علاقی یا اخیافی ہوں ۔ 8۔ ام لاب۔ 9۔ دام الام جبکہ ام نہ ہو۔
باپ کی تین حالتیں ہیں۔ 1۔ فرض مطلق 6/1 سدس (چھٹا حصہ) جب کہ ابن ابن الابن ہو۔ 2۔ فرض معہ عصبہ جب کہ بنت (بیٹی) یا بنت الابن (پوتی) موجو د ہے۔ (یعنی جب میت باپ کوچھوڑے۔ اور بیٹی یا پوتی کو چھوڑے۔ اور کوئی بیٹا یا پوتا نہ ہو۔ تو باپ کو بطور فرض کے چھٹا حصہ ملے گا۔ اور بعد دینے دوسرے زوی الفروض کے جو بچ رہے بطور عصوبت کےملے گا۔ پس اس صورت میں باپ زی فرض وعصبہ (دونوں ہے) 3۔ محض عصبہ جب کہ ولد (لڑکا) یا ولدالابن (لڑکے کی اولاد) نہ ہوں۔ یعنی میت باپ کوچھوڑے اور بیٹا یا پوتا۔ یا بیٹی یا پوتی میں سے کسی کو نہ چھوڑے۔ تو باپ کو محض تعصیب ملےگی۔ (یعنی درصورت ہونے زوی الفروض کے کل مال اور بحالت نہ ہونے ان کے جو ان سے بچ رہے پس باپ اس صورت میں محض عصبہ ہے۔ )
جد صحیح (سگادادا) کی تین حالتیں ہیں۔ 1۔ جب کہ میت کا باپ زندہ نہ ہو۔ اور میت کا بیٹا یا پوتا موجود ہو۔ تواس صورت میں اس کو فرض مطلق 6/1 سدس یعنی چھٹا حصہ ملے گا۔ 2۔ فرض معہ عصبہ جب کہ میت کی بیٹی یاپوتی موجودہو۔ 3۔ محض عصبہ جب کہ ولد (لڑکا ) یا والد الابن نہ ہو۔
(اخیائی بہن بھائی جو ایک ماں اور دوسرے باپ سے ہوں) کی تین حالتیں ہیں۔ 1۔ سدس جب ایک ہو۔ (یعنی جب میت ایک اخیانی بھائی یا بہن چھوڑے تو اس بھائی یا بہن کو چھٹا حصہ ملے گا۔ 2۔ جب میت اخیانی بھائی یا بہنوں میں سے دو یا زیادہ کوچھوڑے خواہ سب بھائی ہوں یا سب بہنیں ہوں یا ملے جلے ہوں تو ان کو ثلث یعنی تہائی ملےگا۔ اس تہائی کو آپس میں برابر برابر باٹ لیں۔ یعنی اخیانی بھائی بہنوں کو حصہ برابر ملتا ہے۔ نہ یہ کہ بھائی کو دوگنا بہن کا جیسا کہ عینی یا علاقی بھائی بہن ہیں۔ پس جب اخیانی بھائی بہن دو سے زیادہ ہوں۔ تو اس ثلث کو آپس میں بانٹ لیں گے۔ 3۔ جب میت کابیٹا بیٹی یا پوتا پوتی۔ یا باپ یا داداد موجود ہو۔ تواخیانی بہن بھائی محروم ہوجاتے ہیں۔
(شوہر) کی دو حالتیں ہیں۔ 1۔ جب میت عورت کو اور صرف شوہر چھوڑے اورکوئی بیٹا یا پوتا نہ چھوڑے تو شوہر کو آدھا ملے گا۔ 2۔ جب ولد یا ولد الابن میں سے کوئی موجود ہو تو چوتھائی ملے گا۔
(بیویوں ) کی دو حالتیں ہیں۔ 1۔ ربع۔ جب میت مرد ہو۔ اورزوجہ کوچھوڑے۔ اور بیٹے یا پوتے کو نہ چھوڑے تو زوجہ کو صرف ربع ملے گا۔ اگر کئی ہوں تو اسی ربع کو آپس میں برابر بانٹ لیں۔ 2۔ ثمن یعنی آٹھواں حصہ جب کہ ولد یا وہد الابن موجود ہو۔
(لڑکی کی تین حالتیں ہیں) 1۔ جب ایک لڑکی کو چھوڑے اوراس کے ساتھ کوئی لڑکا نہ چھوڑے تو لڑکی کوآدھا ملے گا۔ 2۔ جب لڑکی دو سے زیادہ ہوں اور کوئی لڑکا موجود نہ ہو تو ان کو دو تہائی (ثلثین) ملے گا۔ اسی کو آپس میں خواہ کتنی ہی ہوں۔ برابر برابر بانٹ لیں۔ 3۔ جب میت بنت کوچھوڑے اور اس کے ساتھ ابن بھی موجود ہو۔ تو اس صورت میں بنت عصبہ ہوجائے گی۔ ابن کی جہت سے پس در صورت نہ ہونے زوی الفروض کے کل مال اور بحالت ہونے ان کے جو کچھ ان سے بچ رہے۔ وہ سب ہی ان ہی ابن اور بنت پرکتنے ہی ہوں۔ اس پرتقسیم ہوگا۔ کہ ایک ابن کو دگنا ہر ایک بنت کادیا جائے گا۔ مثلا میت اگر ایک ابن اور ایک بنت چھوڑے تو ا س مال کے تین حصے کرکے دو حصے ابن کو اور ایک حصہ بنت کو دیا جائےگا۔ اور اگر دو لڑکے اور دو لڑکیاں چھوڑے تو مال مذکور کے وو دو حصے ہر ایک لڑکے اور ایک ایک حصہ ہر ایک لڑکی کو دیا جائے گا۔ اسی طرح سے کتنے ہی ہوں۔ جتنا ہر ایک لڑکی کو اس کا دوگنا ہر ایک لڑکے کو دیاجائے گا۔
(پوتی ) کی چھ حالتیں ہیں۔ 1۔ نصف۔ جب کہ پوتی ایک ہو۔ اور کوئی صلبی اولاد موجود نہ ہو۔ 2۔ ثلثان۔ جب کہ یہ دو ہوں۔ اور کوئی بیٹا یا پوتا یا بیٹی موجود نہ ہو۔ اگر پوتی دو سے زیادہ بھی ہوں۔ تو بھی اتنا ہی ملےگا۔ اسی ثلثین کو آپس میں برابر بانٹ لیں۔ 3۔ جب بیٹا نہ ہو صرف پوتا موجود ہو۔ تو اس وقت بنت الابن عصبہ ہوگی۔ اس صورت میں مذکر کےلئے دوہرا اور مونث کےلئے اکہرا ہے۔ یہاں مراد ابن الابن سے عام ہے۔ خواہ بنت الابن کے درجہ کا ہو یا اس سے نیچے کا یعنی بنت الابن کابھائی ہو یا بھتیجا یا اور اس سے نیچے ۔ 4۔ سدس ۔ یعنی چھٹا حصہ۔ جب کہ ایک بیٹی موجود ہو۔ اور بیٹا یا پوتا نہ ہو۔ اسی سدس کو آپس میں جب کئی ہوں۔ برابر برابر بانٹ لیں۔ اسی صورت میں سدس اس لئے ملتاہے۔ کہ حق بنات (بیٹیوں) کا ثلثین سے زیادہ نہیں ہے۔ پس جب بنت سے نصف لے لیا۔ تو حق بنات میں سے فقط سدس باقی رہ گیا۔ لہذا وہ سدس واسطے تکملہ ثلثین کے بنت الابن کودیا گیا۔ یہی حال ہے ہر تلے والیوں کا جب ایک اوپروالی موجود ہو۔ مثلا جب میت پڑوتی چھوڑے۔ اور ایک پوتی تو پوتی نصف سے لے لے گی۔ اور سدس جو حق بنات میں سے باقی رہا ہے۔ تکملہ ثلثین پڑوتی پائےگی۔ 5۔ جب دو صلبی بنت ہوں۔ اور ابن الابن (پوتا) موجود نہ ہو۔ تو پوتی محروم رہے گی۔ 6۔ جب بیٹا موجود ہوتو پوتی محروم رہے گی۔
(عینی بہن جو ماں جائی اور باپ جائی ہو) کے پانچ حال ہیں۔ 1۔ نصف جب وہ صرف ایک ہو اور اخ لاب وام وبنت یا بنت الابن یا اب وجد صحیح موجود نہ ہو۔ 2۔ ثلثان ۔ جب دو یا زیادہ موجود ہوں۔ اور اخ لاب وام یا بنت یا بنت الابن یا ابن یا ابن لابن یا اب یا جد صحیح موجود نہ ہو۔ 3۔ اخ لاب وام (یعنی عینی بھائی عصبہ کردے گا مذکر کےلئے دوہرا مونث کے لئے ایک بشرط یہ کہ بنت یا بنت الابن یا ابن یا ابن لابن یا اب یاجد صحیح موجود نہ ہو۔ 4۔ باقی جب بنت کا بنت الابن موجود ہو۔ یعنی جو کچھ زوی الفروض کو دے کر بچ رہے۔ یعنی جب میت اخت لاب دام چھوڑے۔ اور بنت یا بنت الابن بھی موجود ہو۔ اورا بن یا ابن الابن یا ابن یا جد صحیح موجود نہ ہو۔ تو اخت لاب وام عصبہ ہوجاتی ہے۔ اورجو کچھ زوی الفروض کو دے کر بچ رہے وہ باقی ہے۔ 5۔ محروم جب ابن یا ابن لابن یا اب یا جد صحیح موجود ہوں۔
(ف) اس حالت میں حقیقی بھائی بھی محروم ہوجاتا ہے۔
(وہ بہن جو ایک باپ سے ہو اور دوسری ماں سے) کی سات حالتیں ہیں۔ 1۔ نصف جب ایک ہو ثلثین جب دو یا زیادہ ہوں۔ سدس۔ جب ایک اخت لاب وام موجود ہو ۔ محروم جب وواخت لاب وام موجود ہوں۔ للذکر مثل حظ الانثیین جب اخ لاب موجود ہو۔ باقی جب بنت یا بنت الابن موجود ہو۔ محروم جب ابن یا ابن الابن یا اب یا جد صحیح یا اخ لاب وام یا اخت لاب وام مع البنت موجود ہوں۔
(ف) اخت لاب بھی اس حالت میں محروم ہے۔
(ماں ) کی تین حالتیں ہیں۔ 1۔ جب ولد یا ولد الابن یا کسی طرح کے یعنی عینی یا علاقی یا اخیانی دو یا زیادہ بہن موجود ہوں۔ تو ماں کو چھٹاحصہ ملےگا۔ 2۔ جب میت مال کوچھوڑے۔ اورولد یا ولد الابن یا کسی طرح کے دو یا زیادہ بھائی بہن موجود نہ ہوں۔ اگرچہ ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو۔ تو اس صورت میں مال کو کل مال کا تہائی ملتا ہے۔ 3۔ اگرزوجین ہوں توان کے حصہ کے بعد ماں ثلث پاوے گی۔ اس کی دونوں صورتیں یہ ہیں۔
1۔ مسئلہ میت ۔ زوج3۔ ام1۔ اب2۔ '''اس صورت میں کل مال کے چھ حصے ہوئے ااس میں سے نصف یعنی 3زوج کو پہنچے اور باقی یعنی 3 میں سے ثلث یعنی ایک ماں کو اور باقی دو باپ کو۔
2۔ ۔ مسئلہ میت ۔ زوج1۔ ام1۔ اب2۔ '''اس صورت میں کل مال کے چار حصے ہوئے اس میں سے چوتھائی زوجہ کو اور باقی تین میں سے ثلث یعنی ایک ماں کو اور باقی تین باپ کوملے گا۔
(دادی۔ نانی ) باپ کی جانب سے ہو۔ (دادی) یا مال کی جانب سے (نانی) ان کی دو حالتیں ہیں۔ 1۔ سدس یعنی چھٹا حصہ خواہ کتنی ہوں۔ اور کیسی ہی ہوں۔ بشرط یہ کہ ایک درجہ کی ہوں۔ 2۔ دور والیاں۔ جیسے پر دادی پرنانی نزدیک والیوں یعنی دادی نانی کے ہوتے ہوئے محروم ہوںگی۔ اور سب دادیاں اور نانیاں ماں کی موجودگی میں محروم ہوں گی۔ اورصرف دادیاں باپ کی موجودگی میں محروم ہوںگی۔ نیز دادا کی موجودگی میں بھی اور جد صحیح سےاوپر والیاں جد صحیح کے ہوتے ہوئے محروم ہوں گی۔
عصبہ کی دو قسمیں ہیں۔ 1۔ عصبہ سبیبہ یعنی مولی العتاقہ۔ 2۔ عصبہ نسبیہ۔ عصبہ نسبیہ کی تین قسمیں ہیں۔ 1۔ عصبہ بنفسہ۔ عصبہ لغیرہ۔ عصبہ مع غیرہ۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے۔ عصبہ بنفسہ وہ مرد ہے۔ کہ جب میت کی طرف نسبت کیا جاوے۔ تو درمیان عورت نہ آئے۔ عصبہ لغیرہ وہ عورت ہے جو اپنے بھائی کے ساتھ عصبہ ہوجاتی ہے۔ وہ چار ہیں۔ بنت بنت الابن اخت لاب وام۔ اخت لاب ۔ عصبہ مع غیرہ و ہ عورت ہے جو عورت کے ساتھ عصبہ ہو جاتی ہے۔ وہدو ہیں۔ 1۔ اخت لاب وام۔ 2۔ اخت لاب ۔ بنت بنت الابن کےساتھ عصبہ بنفسہ کی چار قسم ہیں۔ 1۔ جز ء المیت ابن۔ ابن الابن وان سفلوا ۔ 2۔ اصلہ۔ اب۔ اب الاب وان علا۔ 3۔ جزء ابیدای الا خوۃ ثم بنوھم وان سفلوا ۔ 4۔ جزء جدہ ای الالاعمام ثم بنوھم وان سفلوا الاقرب فالا قرب جو میت سے زیادہ قریب ہوگا۔ وہی وارث ہوگا عصبات میں جزء المیت مقدم ہے۔ اس کے بعد اصل المیت اس کے بعد جازئ ابیہ وبنوھم اس کے بعد جذء جدہ
یعنی کوئی وارث کسی وارث کیوجہ سے پوراحصہ نہ پاوے۔ یاکچھ نہ پاوے۔ حجب کی دو قسمیں ہیں۔ حجب نقصان ۔ حجب حرمان۔ حجب نقصان جو پورا حصہ نہ پاوے۔ پانچ نفر کےلئے ہے۔ زوجین (یعنی زوج وزوجہ کہ زوج کونصف ملتا ہے۔ اور اولاد کے ہونے سے کم یعنی ربع ملتاہے۔ اسی طرح زوجہ کو ربع ملتا ہے۔ اور اولاد کے ہونے سے کم یعنی ثمن ملتا ہے۔ ام۔ بنت الابن اخت لاب (یعنی ام کوثلث ملتا ہے۔ اور اولا د کے ہونے سے مثلا سدس پاتی ہے۔ اور بنت الابن کونصف ملتا ہے۔ اور بنت کے ہونے سے سدس پاتی ہے۔ اوراخت لاب کو نصف ملتا ہے۔ اور ایک اخت عینیہ کےہونے سے سدس پاتی ہے۔
حجب حرمان۔ جو کچھ نہ پاوے۔ چند نفر کےلئے حجب حرمان نہیں ہے۔ ولد ان زوجان ابوان بقیہ کے لئے حجب حرمان ہے۔ مگر اس کے لئے دو قاعدے کی ضرورت ہے۔ قاعدہ اول جو شخص میت کی طرف سے کسی واسطہ (ذریعہ ) سے منسوب ہو۔ تو واسطہ کے ہوتے ہوئے وہ شخص محروم ہوگا۔ جیسے زید کا لڑکا عمرو عمرو کا لڑکا خالد خالد کی نسبت زید کی طرف عمرو کے واسطے سے ہے۔ جب تک عمرو زندہ رہے گا خالد زید کے ترکہ سے کچھ نہیں پاوے گا۔ دوسرا قاعدہ الاقرب فالا قرب میت سے جو زیادہ قریب ہوگا۔ وہی وارث ہوگا۔ مثلا پہلے قاعدہ کے رو سے زید کے دو لڑکے بکر وعمرو ۔ عمرو کا لڑکا خالد۔ بکر وعمرو کی نسبت زید کیطرف بلاواسطہ ہے۔ اور خالد کی باواسطہ ہے۔ جب تک واسطہ قائم رہے گا۔ خالد زید کے ترکہ سے محروم مگر جب واسطہ نہ رہے۔ تو نسبت خالد کی زید کیطرف بلاواسطہ پائی جاتی ہے تو جس طرح بکر کی نسبت زید کی طرف بلا واسطہ ہے زید کے ترکہ کا حقدار ہے۔ اسی طرح خالد کی نسبت زید کی طرف بلاواسطہ پائی جاتی ہے۔ تو خالد ہی زید کے ترکہ کا حقدار ہوناچاہیے۔ مگر جب دوسرے ترکہ کا لہاظ کیا تو خالد زید کا ترکہ نہیں پائے گا۔
مخرج جس سے مسئلہ نکالا جاتا ہے۔ سات عدد میں کیونکہ کل حصہ 6 ہے۔ نوع اول نصف ربع ثمن۔ نوع ثانی۔ ثلثان ثلث۔ سدس ۔ اگر تنہا تنہا ہو تو ۔ 2۔ نصف کا مخرج ہے 6سدس یا نصف اور نوع ثانی کا کل یا بعض
3۔ ثلث۔ ثلثان کا۔ 4 ربع کا ۔ 12 نوع اول کاربع نوع ثانی کاکل یا بعض۔ 8۔ ثمن کا 24 نوع اول کا ثمن نوع ثانی کا کل یا بعض
مخرج کا بڑھا دینا ۔ کل مخرج 7 ہے۔ 4 کاعول نہیں آتا ہے۔ 2۔ 3۔ 4۔ 8 ان کا عول نہیں آتا ہے۔ 6 کا عول دس تک طاق وجفت دونوں آتا ہے۔ یعنی سہام 6 سے طاق اور جفت دونوں طرف سے بڑھتے ہیں۔ دس تک پس کبھی سات ہوجاتے ہیں۔ کبھی 8 کبھی 9 کبھی 10 اس سے زیادہ نہیں بڑھتے ۔ 12 کا عول 17 تک طاق ہی آتا ہے۔ چنانچہ مثالوں سے ظاہر ہے۔ 24 کاعمول 27 تک ایک ہے جیسے اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک 31 تک ۔
دو عد د اگر مساوی ہوں تو نسبت تماثل کی ہے۔ جیسے 3۔ 3۔ یا 6۔ 6 تدافل جیسے 3۔ 9 اقل اکثر کو فنا کردے۔ یا اکثر اقل پر منقسم ہوجاوے۔ یا اقل پر اس کے مثل یا امثا ل زیادہ کرنے سے اکثر کے مساوی ہو۔ یا اقل اکثر کاجز ہو۔ توافق اقل کو فنا نہ کرسکے۔ بلکہ تیسرا عدد ونوں کو فنا کردے۔ جیسے 8۔ 20۔ 4 دونوں کو فناکردیتاہے۔ تباین نہ اقل فنا کرسکے۔ نہ تیسرا فنا کرسکے۔ جیسے 9۔ 10۔ خلاصہ یہ کہ دو عددوں کو دیکھو ایک دوسے کے مساوی ہے یا نہیں اگر مساوی ہے تو نسبت تماثل کی ہے اگر مساوی نہیں ہے۔ تو ایک دوسے کو فنا کرسکتا ہے یا نہیں۔ اگر فنا کرسکتا ہے تو نسبت تداخل کی ہے۔
1۔ سہام کا مخرج سے بڑھ جانا یابڑھالینا اس کو عول کہتے ہیں۔
اگر فنا نہیں کرسکتا تو دو حال سے خالی نہیں۔ تیسرا عدد فنا کرسکتاہے۔ تو نسبت توافق کی ہے۔ اگر تیسرا عدد فنا نہیں کرسکتا ہے۔ تو نسبت تباین کی ہے۔ چونکہ تماثل وتداخل کا جاننا ظاہر ہے۔ توافق تباین ظاہر نہیں اس لئے اس کے معلوم کرنے کاطریقہ یہ ہے کہ اکثر کو اقل کے مقدار دونوںجانب سے کم کیاجاوے۔ جس عدد پر متفق ہوں۔ وہی عدد دونوں کاوفق ہے۔ دو پر متفق ہوں۔ توافق بالنصف تین پر توافق بالمثلث دس تک اگر دس سے زیادہ اور متفق ہوں۔ تو بجز من کا لفظ بڑھا دینا جیسے 11کے لئے بجز من احدی عشر 12 کے لئے بجز من اخنا عشر۔ اور تیرہ ہو تو توافق بجز من ثلاثہ عشر علی ھذ القیاس
جب کبھی وارثوں کے سہام کثر پڑتی ہے۔ اس کسرکو صحیح بنا ڈالتے ہیں۔ جس سے سہام وارثوں پر تقسیم ہوجاتے ہیں اس صحیح بنا ڈالنے کو تصیح کہتے ہیں۔ تصیح کے سات قاعدے ہیں۔ 3قاعدے سہام (حصہ) وروس (ورثاء) میں جاری کیے جاتے ہیں۔ 4 قاعدے روئوس روئوس میں جاری ہیں۔
اگرسہام روئوس میں کسر واقع نہ ہو تو تصیح کی ضرورت نہیں۔ اور یہ دو صورتوں میں ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ سہام ورئوس میں تماثل ہو۔ دوسرا یہ کہ دونوں میں تداخل ہو اور سہام رئوس سے بڑے ہو ۔ مثال۔ بنت 4۔ اب1۔ ام1۔
اگر سہام روئوس میں کسر ایک فریق پر واقع ہو۔ (سہام سے عدد سہام اورروس سے عدد ورثاء مراد ہیں۔ ) تو اگر روئوس وسہام میں موافقت ہے تو روئوس کے دفق کو اصل مسئلہ میں اور اگر عول ہو تو عول میں ضرب دیں۔
اگر ایک فریق پرکسر واقع ہو تو اگر رووس وسہام میں مباینہ ہے۔ تو روئوس کے کل عدد کو اصل مسئلہ میں او راگر عول ہو تو عول میں ضرب دو ۔
وہ چار قاعدے جو رئوس رئوس میں جای کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ قاعدہ سابقہ کا بھی لہاظ رکھا جاتا ہے۔
اگر کسی دو فریق پر یا زیادہ پرواقع ہو۔ لیکن ان کے رئوس کے عددکے درمیان مماثلت ہے ایک فریق کے رئوس کے عدد کو اصل مسئلہ میں ضرب دیں ۔
اگر رئوس کے عدد کے درمیان مداخلہ ہے۔ تو اس کے اکثر عدد کو اصل مسئلہ میں ضرب دو۔
اگر رئوس کے عدد کے درمیان موافقہ ہو۔ تو ایک کاکل عدد دوسرے کے دفق میں ضرب دو۔ جو حاصل ہو اس کو اور تیسرے رئوس کے عدد کو دیکھو اگر موافقہ ہو تو ایک کا وفق دوسرے کے کل میں ضرب دو۔ جو حاصل ہو۔ اس کواور چوتھے رئوس کے عدد کے درمیان دیکھو۔ اگر موافقہ ہو تو ایک کا دفق دودسرے کے کل عدد میں ضرب دو جو حاصل ہو اس کو اصل مسئلہ میں ضرب دو۔
اگرروئوس کے عدد کے درمیان میا نیہ ہو تو ایک رئو س کے عدد کو دوسرے رئو س کے عدد میں ضرب دو جو حا صل ہو اس کو تیسرے رئوس کے عدد میں ضرب دو جو حاصل ہو اس کو چوتھے رئو س کے عدد میں ضرب دو جو حاصل ہو اس کو مسئلہ میں ضرب دو جو حاصل ہو وہی مسئلہ کا مبلغ ہے ۔
حصہ معلو م کر نے کا طر یقہ ۔ تصحیح سے جس فر یق کا حصہ معلو م کر نا چا ہو تو اس کا جو حصہ اصل مسئلہ سے ملا تھا اس حصہ کو مبلغ میں جس کو مخر ج مسئلہ میں ضرب دے کر تصحیح کی تھی ضرب دو جو حاصل ہوگا ۔ وہی اس فریق کا تصحیح سے حصہ ہو گا اگر کسی فریق کے ہر ایک کا حصہ معلوم کرنا چا ہو تو تین طریقہ سے معلوم کر سکتے ہو ۔
1۔ اس فریق کو جو حصہ اصل سے ملا تھا اس کو اس فریق کے عدد رئو س پر تقسیم جو حا صل ہو اس کو مبلغ میں جس کو مخرج مسئلہ میں ضرب دے کر تقحیح کی تھی ضرب دو جو حا صل ہو گا وہی اس کا حصہ ہے ۔
2۔ مضروب مبلغ کو جس فریق پر چاہو تقسیم کرو جو حا صل ہو اس کو اس فریق کے اصل مسئلہ سے جو حصہ ملا تھا اسمیں ضرب دو جو حا صل ہو گا وہی اس کا حصہ ہے ۔
3۔ ہرفریق کے سہام (حصہ ) کو ج اصل مسئلہ سے ملاتھا۔ اس فریق کے عدد رئوس کو تنہا دیکھو۔ کہ کیانسبت ہے۔ جو نسبت ہو وہی نسبت مضروب (مبلغ میں ہوگی۔
ورثہ کے درمیان ترکہ کس طرح تقیسم کیاجائے۔ اگر ترکہ وتصٰح میں میانیہ ہو تو ہر وارث کے سہام کو جو تصیح سے ملا تھا۔ ترکہ میں ضرب دو۔ جو حاصل ہو اس کو تصیح سے تقسیم کرو۔ جو حاصل ہو وہی اس کا حصہ بنے۔ اگر ترکہ وتصیح میں موافقت ہے۔ توہروارث کے سہام کو (جواصل مسئلہ سے ملاتھا) ترکہ کے دفق میں ضرب دو۔ جو حاصل ہو اس کے تصیح کے دفق سے تقیسم کرو۔ جو حاصل ہو وہی اس کا حصہ ہے۔
غرما کے درمیان کس طرح تقسیم کیا جائے۔ ہرغریم کا دین (قرض) سہام ک مرتبہ میں ہے۔ اور جملہ دیون تصییح کے مرتبہ میں ہے جس طرح عمل پہلے کیاتھا اسی طرح اس میں عمل کیاجائے۔
جب کوئی وارث اپنے سہام کے بدلے جو تصیح سے ملتے ہیں۔ کوئی چیز ترکہ سے لے کر صلح کرلے۔ اور اپنے حصہ سے دستبردار ہو جائے۔ تو اسی کو تخارج کہتے ہیں۔ پس مسئلہ نکالنے میں اس کو شامل کیاجاوے۔ جب مسئلہ ٹھیک ہوگیا اس کے حصے کوخارج کرکے جو سہام دیگرورثہ کو ملا ہ۔ اسی کے مطابق ہروارث ترکہ سے لے لیوے ۔ جیسے زوج3 ام 2 عم 1۔ شوہرمہر کے بدلے ترکہ سےدستبردار ہوگیا۔ عمل بالا سے ام کو 2بٹہ تین عم کو 1بٹہ 3 ملےگا۔
دوسری مثال۔ زوجہ 4۔ ابن 7۔ ابن7۔ ابن7۔ ابن7۔
ایک لڑکا کسی چیز کے بدلہ میں ترکہ سے دست بردار ہوگیا اس کا سہام 7 خارج کردیا۔ 35 باقی مسئلہ کی تصیح ہوگا۔
رد عول کا ضد ہے۔ جوکچھ زوی الفروض سے بچے اور عصبات کسی قسم کے ہوں۔ اس کوزوی الفروض نسبیہ پر انکے حقوق کے مطابق لوٹانا۔ رد کے مسائل چارقسم پر ہیں۔
1۔ زوجین نہ ہوں مسئلے میں من یرد علیہ ایک جس ہیں۔ تو مسئلہ ان کے رئوس سے کیا جاوے ۔
3۔ (زوجین نہ ہوں) مسئلہ میں صرف زو ی الفروض نسبیہ 2 جنس یا 3 جنس ہو تو مسئلہ ان کے سہام سے کیا جائے۔
3۔ زوجین ہوں۔ زوجین کے اقل مخارج سے مسئلہ کیا جاوے۔ اگر سہام ورئوس میں کسر ہو۔ مگر دونوں کے درمیان دفق ہے ۔ توافق بالنصف ہے 2 کو مسئلہ میں ضرب ویا حاصل ہوا 8 اور سہام میں ضرب دیا۔ جیسے زوج ایک بٹہ تین اور بانت 3 بٹہ 4 اگر سہام ورئوس میں مباینہ ہے۔ توعدد رئوس 5 کو اصل میں ضرب دیا حاصل ہوا 3۔ 5۔ کوسہام میں ضرب دیا ۔
4۔ زوجین ہوں دو جنس کے ہوں زوجین کے فرض کے بعدجو بچا ودود وجنس پر تقسیم کیا جاوے۔ اگرکسرواقع ہو۔
من یرد علیہ کا سہام اصل مسئلہ میں ضرب دیں۔ جو حاصل ہو وہی تصیح ہے رد کے مخارج حسب زیل میں۔ 2۔ 3۔ 4۔ 5۔ 8۔ کل 5 ہیں۔
ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے کسی وارث کے مرجانے کے سبب اس کے حصہ کاوارثوں کی طرف منتقل ہوجانا۔ اس کو مناسخہ کہتے ہیں۔ جیسے ایک عورت مر گئی۔ اسکے وارث۔ شوہر ۔ لڑکی۔ ماں ہیں۔ ابھی ترکہ تقسیم نہیں ہوا۔ کہ شوہر مرگیا۔ اس کے ورثاء زوجہ اب ام ہیں۔ پھر لڑکی مر گئی اسکے ورثاء ابن ابن بنت جدہ ہیں۔ پھر ماں مرگئی اس کے ورثاء زوج اخ اخ ہیں۔ اب پہلے میت اول کی تصیح کی جاوے۔ اس کے بعد میت ثانی کی تصیح کیجائے۔ پھر دیکھو میت ثانی میں ضبت اول نے کیا سہام پایا۔ اس کو ''ما فی الید'' کہتے ہیں۔ اور مافی الید اور تصیح ثانی میں اگر مساوات ہے تو ضرب دینے کی ضرورت نہیں۔ اگر موافقت ہے۔ تو تصیح ثانی کے وفق کو اصل میں ضرب دو۔ جو حاصل ہو وہی دونوں تصیح کامسئلہ ہے۔ اگر تصیح ثانی اور مافی الید میں مباینہ ہو۔ تو تصیح ثانی کے کل عدد کو تصیح اول میں ضرب دو۔ جو حاصل ہوگا وہی دونوں تصیح کا مخرج (مسئلہ ) ہے۔ پس میت اول کےسہام کو مضروب (تصیح ثانی) میں ضرب دو۔ اگر دفق ہے تو دفق میں ضرب دو اور میت ثانی کے ورثاء کے سہام کو مافی الید میں ضرب دو اگر وفق ہو تو وفق میں ضرب دو۔ دو بطن ہو یا تین چار الی غیر النھایۃ دوسرے تصیح کو اول کے قائم مقام اور تیسرے تصیح کو دوسے کے قائم مقام بہرحال پچھلی تصیح ثانی کے قائم مقام ہوگی۔ اور پہلی نسب تصیح اول کے قائم مقام ہوگی۔
حمل کی اکثر مدت میں بہت اختلاف ہے کم میں بلا اختلاف چھ ما ہہ حمل میں دو تصیح کی جاوے ایک حمل کومذکر مان کردوسری مونث مان کر جو حصہ دونوں تصیح میں کم ہو۔ وہ ورثاء کو دے دیا جاوے۔ باقی روک لیاجاوے۔ جب حمل پیدا ہوجائے اس کے مطابق عمل کیا جاوے۔
دونوں تصیح کے درمیان اگر موافقہ ہے۔ تو ایک کا وفق دوسرے کے کل میں ضرب دو جو حاصل ہو وہی دونوں کامسئلہ مخرج ہے۔ جیسے پہلے تصیح 24۔ اوردوسری تصیح 27 دونوں میں توافق بالثلث ہے ۔ 9 کو 44 میں ضرب دیا۔ 216 حاصل ہوا۔ یہی دونوں کا مخرج ہے۔ فریق اول کے سہام کو تصیح ثانی کے وفق میں ضرب دو۔ او ر فریق ثانی کے سہام کو تصیح اول کے وفق میں ضرب دو۔ یعنی دونوں تصیح کو ہم مخرج بنانا جس تصیح سے وارث کا حصہ کم ہو وہ دے دیا جاوے۔ باقی روک لیا جاوے۔ جب حمل ظاہر ہو اس کے مطابق عمل کیاجاوے۔ اور حمل وبنت کا حصہ جیسا مناسب سمجھا جاوے کیاجاوے۔ آئندہ چل کر جھگڑا فسا د نہ ہو۔ اگر دونوں تصیح میں میانیہ ہے۔ تو کل تصیح کو دوسرے تصیح میں ضرب دو۔ جو حاصل ہو وہی دونوں کا ہم مخرج ہے۔ فریق اول کے سہام کو تصیح ثانی میں ضرب دو۔ اور تصیح ثانی کے فریق کے سہام کو تصیح اول میں ضرب دو۔
فتاویٰ ثنایئیہ کتاب الفرائض کو میں نے اول تا آخر گہری نظر سے دیکھ لیا ہے۔ جہاں کہیں ضرورت معلوم ہوئی۔ وتشریحات وتوصیحات حوالہ قلم کردی گئی ہیں۔
اس دیباچے میں سراجی کو بقدر ضرورت یعنی جو مسا ئل اکثر پیش آتے ہیں بطور خلا صہ لکھ دیا ہے حضرت العلا م جناب مولا نا ابو الو فا ثنا ء اللہ مر حوم کے تحر یر کردہ مسا ئل میراث دیکھنے سے معلوم ہو اکہ حضرت مرحو م نہ صرف فرائض میں یدطو لی رکھتے تھے بلکہ علم الحساب میں بھی ماہر کا مل تھے کیونکہ مرحوم کے تحر یر کردہ مناسخہ کے سخت جانی مسائل بھی بالکل درست نظر آئے خدا وند کریم نے مرحوم کی ایک عجیب ہستی ہم کو عنا یت کی تھی جس کی واحد ذا ت میں اس طرح طرح کے کامل الفن اشخاص کی قابلیتیں وصلا حیتیں جمع تھیں مرحو م کی قا بل قدر شخصیت پر غور و فکر کرنے سے فوراًیہ شعر زبان آتا ہے۔
ليس علي الله بمستنكر ان يجمع العالم في الواحد
فجزاه الله عنا باحسن الجزاء وعامله باحسن الاكرام
مجھےخو شی ہے كہ حضرت العلامہ مولانا عبدا لغفو ر صاحب ملا فاضل یسکو ہری و حضرت محتر می مولا نا عبدالروف صاحب رحمانی جھنڈے نگری کی پرخلوص تحریک محب محترم مولانا محمد دائود راز زید مجد ہم مرتب فتاویٰ ثنایئہ نے مجھے اس تقریب سے فتاویٰ ثنائیہ کی علمی خدمت میں شریک فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس یاد گر جاوداں کودرجہ قبولیت عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب