سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(514) پیشہ وکالت جائز ہے یا نہیں؟

  • 7141
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1041

سوال

(514) پیشہ وکالت جائز ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زید ہمیشہ وکالت کو انجام دیتا ہے بکر اس پر یہ الزام دیتا ہے کہ پیشہ دکالت کی مذہباً سخت ممانعت ہے بلکہ حرمت کی حد تک پہنچ جاتی ہے لہذا ترک کر دیا جائے۔

پس ایسی صورت میں بروئے قرآن و حدیث شریف آیا فی الواقع پیشہ وکالت بموجب قول بکر مذہباً ناجائز و قابل ترک ہے ؟ اگر ہے تو کس شرط کے ساتھ اگرنہیں ہے تو کس طرح ؟ بصرات و تفصیل اس فتوے کو اخبار اہلحدیث میں شائع فرماکر آپ عنداللہ ماجور و عندالناس مشکور ہوں ،  (خریدار نمبر ۲۹۶۶)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پیشہ وکالت کی دوحثیتیں ہیں اصل منصب کے لحاظ سے تو جائز کاموں میں وکالت جائز ہے الاان مقدمات میں جن میں قانون کی خلاف شریعت ہے مثلا دیوانی میں میعاو قرضہ یا فوجداری میں شراب ، خمر اور زناکا جواز ایسے مقدمات میں بپابندی قانون پیروی کرنا بھی خلاف شریعت ہے حق یہ ہے کہ طریق عمل نے اس پیشہ کو بہت کچھ موردالزام بنایا ہے جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں نہ مناسب ہے اگر درخانہ کس است +یک حرف بس است۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 469

محدث فتویٰ

تبصرے