السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا جو شخص سنٹرل بنک قانون گورنمنٹ کا ممبر ہواور خود بھی بنک کے ذریعے روپیہ سودی بوجہ استقراضاً لیتا ہو اور عوام الناس کو بھی اس سنٹرل بنک کی طرف رغبت دیتاہو ، اور ایسے سود دینے کو جائز کہتا ہو اور رشوت وغیرہ اعلانیہ کھاتا ہو اور حد درضہ کا غیبت ہو کسی شخص حتی کہ علمائے کرام موجود ہ کی بھی سخت سے سخت غیبت کرنے میں دریغ نہیں کرتا اور نہایت قبیح مفحش اور فضیح ہو اور انحال کہ شخص موصوف چند کتب حدیث بھی پڑھا ہو اس کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ امامت اس کی اتفاقیہ ہو یا مقررہ (ابوسعید از نیمچہ کلاں)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شخص مذکورہ میں اگر واقعی یہ صفات قبیحہ پائی جایئں تو امام نہ بنایا جائے حدیث شریف میں ہے ، اجلعو ائمتكم خيا ركم، (اپنے میں سے اچھے شخص کو امام مقرر کیا کرو) اور اگر اتفاقیہ پڑھا رہا ہے تو مل جانا چاہیئے بحکم وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴿٤٣﴾سورة البقرة
س:۔ بنک وغیرہ سے تعلق رکھنا کیسا ہے؟ سود کے حکم میں ہے یا نہیں ؟
پس واضح ہو کہ:۔
(۱) سیونگ بنک قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ لو گ جو تجارت پیشہ نہیں ہیں اور ان کی رقم ان کے پاس فاضل پڑی ہے اس بنک میں جتنا روپیہ چاہیئے جمع کر یں اور سرکار اسے جس مصرف میں چاہے صرف کرکے فائدہ حاصل کرے ، اور اس نفع میں سے بحساب سالانہ فی صدی انہیں بھی کچھ دے ، اس حالت میں روپیہ جمع کرنے والے کو بلا مشقت نفع ملتا ہے یعنی وہ روپیہ دے کر روپیہ بڑھاتا ہے جو یقینی ربوا کی صورت ہے جیسا صحیح حدیث سے صاف ظاہر ہے۔
لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ ، وَلَا تَبِيعُوا الْوَرِقَ بِالْوَرِقِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ، وَلَا تُشِفُّوا بَعْضَهَا عَلَى بَعْضٍ ، وَلَا تَبِيعُوا مِنْهَا غَائِبًا بِنَاجِزٍ (متفق عليه) .
اور صحیح مسلم میں یوں ہے،
الدينا ربا لدينار لا فضل بينهما والدرهم بالدرهم لا فضل بينهما.
دوسری روایت میں اور بھی صاف کر دیا ہے ،
الذهب بالذهب وزنابوزن مثلابمثل والفضةبالفضةورنابوزن مثلابمثل فمن زادا واستزادفهوريا .
لیکن شراکت فی البخارت تو اس کی شکل ہی جداہے کیوں کہ اس میں نفع و نقصان پر حصہ لگتا ہے اور بنک میں یہ شرط نہیں پائی جاتی ، لہذا اس مد میں روپیہ لگانا تجارت کے تحت سے خارج ہو گیا ،
ربوا کا اصول ہے کہ اس سے ایک شخص بلا محنت فائدہ حاصل کرتا ہے اور دوسرا مفت میں نقصان اٹھاتا ہے اور یہ جزولا لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ﴿٢٧٩﴾سورة البقرة... قابل غور ہے اور یہ دیکھنا چاہیئے کہ بنکوں میں اس کی مثال کہاں تک ملتی ہے ظاہر کرتاہے کہ سرکاروپیہ جمع کرنے والے کو انٹر سٹ دے کر اپنا نقصان نہیں کرتی ہے بلکہ اس رقم سے نفع اٹھا کر کچھ دیتی بھی ہے ،
اب یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گورنمنٹ کو ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے یا کبھی نقصان بھی اس پر صاحب علم اور وہ اشخاص جو اس معاملے سے واقف کا ر ہیں روشنی ڈالیں ، اگر گورنمنٹ کو نقصان بھی ہوتا ہے تو وہ اس کی تلافی کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار کرتی ہو گی ، یا روپیہ جمع کرنے والوں پر اس کا بار آتا ہو گا ہا رعایا پر اس کا بوجھ ڈال کر اپنا نقصان پورا کرتی ہوگی ، والله اعلم. ، اور یہ جبر و تشدد ہمارے روپوں کی بدولت ہو غرض یہ کہ ایسے بنکوں میں شرکت کسی طرھ درست نہیں ،
(۲) ایک بنک وہ بھی ہیں جو مہا جنی اصول پر چلتے ہیں امانت دار، (نہیں بلکہ سود خورا ) اس میں روپیہ جمع کرتے ہیں، (بغرض حاصل کرنے سود) اور تجارت پیشہ والے اس سے سودی قرض حاصل کرتے ہیں گویا اس کے قائم کرنے کا خاص منشاء یہی ہو تا ہے کہ سود لیں اور دیں اور اس کی حرمت ظاہر ہے اب اس کے دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے اچھے کاموں میں یا برے میں کیونکہ اس کی بنا ء ہی سود پر ہے جس طرح کہ شراب کہ اس کی حرمت میں کچھ شک و شبہ نہیں اس کا سرکہ بنانا ، دوامیں استعمال کرنا وغیرہ سب ممنوع ، دوسرے بات یہ کہ امانت، (یعنی روپیہ ) جوبنک میں جمع رہتا ہے اس کا ذمہ دار بنک خود ہے اور خسارہ صرف حصہ داروں کو ہونا چاہیئے لیکن چونکہ روپیہ جمع کرنے والے کو بنک سے سود ملتا ہے لہذا دیوالہ نکل جانے پر اس کا خسارہ امانت داروں پر بھی پرتا ہے یہ ایک طرفہ ڈنڈہے اور آخرت کا عذاب خداکی پناہ سخت ہے امانت کی اگر سچ پوچھئے تو یہ صورت ہی نہیں ، امانت اصل میں اسے کہتے ہیں کہ جو چیز جس حالت میں اور جس قدر بطور امانت رکھی جاوے وہ اسی حالت میں اور اسی حالت میں اور اسی قد ر واپس بھی لیا جاوے ، اب اظہر من الشمس ہو گیا ، کہ کسی حالت سے اس میں بھی شرکت جائز نہیں،
(۳) بعض بنکوں میں یہ بھی دستور ہے کہ امانت وار جو ان سے سود نہ لے ، تو وہ اس سودی رقم کو عیسائی مشن کے سپرد کر دیتے ہیں اس میں شک نہیں کہ آج کل کے جتنے قسم کے بنک اور دیگر مختلف طریقے مروج ہیں سب میں شرکت کرنا قطعی نا جائز ہے لیکن جو لوگ اس میں گرفتار ہیں ان کے لئے مناسب تو یہ ہے کہ باز آیئں ارشاد باری تعالی ہے،
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّبَوٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ.سورة البقرة...
(اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو کر سودی کاروبار چھوڑ دو ، ورنہ پھر اللہ سے جنگ کے لئے تیا ر ہو جاؤ) اس آیت کے آخری حصہ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موجود صورت پر چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ خود سود دینے پر مجبور کرتے ہیں اور نہ لینے پر عیسائی کی مشن کے سپرد کر دیتے ہیں جو مذہب اسلام کے لئے مہلک ہے اس کے متعلق اخبار اہلحدیث میں فتوی بھی نکل چکاہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب