السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بیع بالمضاربت کی تعریف کیا ہے اور اس کے انعقاد کے مکمل شرائط کیا ہیں ہمارے یہاں غریب طبقہ کے لوگ مہاجن سے اس شرط پر ادھار لاتے ہیں کہ تیار کردہ مال پر فی تھان آنہ یا دو آنہ کمیشن دیں گے پھر اپنا کاروبار کرتے ہیں مال کا مالک اپنی اصلی رقم کے ساتھ باہم معینہ منا فع لیتاہے گھاٹے اور نقصان سے اس کا کوئی مطلب نہیں کیا یہ صورت جائز اور بیع بالمضاربہ سے ہے یا نہیں ؟
(حمید اللہ محمدی گو پاگنج ، ضلع اعظم گڑھ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بیع مضاربت کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص کی رقم ہو اور دوسرے کی محنت ہو، صورت مرقو مہ بیع مضاربت نہیں ہے بلکہ دلالی ہے ، (۲۶مارچ ۴۳ء)
کوئی شخص کسی مفلس شخص سے یہ بات کہے کہ میں تجھ کو سو روپے اپنے پاس سے دیتا ہوں اس شرط پر کہ تو تجارت کر، اور چار آنے فی روپیہ مجھ کو نفع دینا، کسی سے اسی شرط پر دلوادے تو صورت اولیٰ میں دو حال سے خالی نہیں کہ یا قرض کے طریق سے دیا ہو سو روپیہ پھر اس میں چار آنے یا کم و بیش اپنے واسطے نفع ٹھہرالے تو یہ رباسود ہے ، كل قرض جرنفعا فهور بواكذافي الهداية وغيرها.اور یہ جو
(توله كل قرض جرنفعا الخ حاصل ما قال الزيلغي انه ا خرجه الحارث عن ابي اسامة في سنده ابوالجهم في جز ءه المعروف عن علي مر فوعا وابن عدي في الكا مل من جابر وسند هما ضعيف وردء ابن ابي شيبةفي مصنفه حدثنا ابوا خالد الا حمر عن حجاج عن عطاء قال كانو ايكر هون كل قرض جرمنفعة انتهي نصب الراية جلد ۶ص۱۹۸ و في التلخص حديث ان النبي صلي الله عليه واله سلم نهي عن قرض جرمنفعة وفي رواية كل قرض جرمنفعة فهور با قال عمر بن بدر في المغني لم يصح فيه شئي واما امام الحرمين فقال انه صح و تبعهالغزالي وقد رواه الحارث بن ابي اسامة في مسند ه من حديث علي باللفظ الاول و في اسناده سوار بن مصعب و وهو متروك ورواه البيهي في المرفة عن فضالة نم عبيد موقوفا بلفظ كل قرض جرمنفعة فهو وجه من) .
بطور شرکت مضاربت کے سو روپے دیئے ہوں تو اس صورت میں نفع باخود ہا نصفا نصف مقرر کر لے ، یا دو ثلث رب المال اور ایک ثلث مضارب یعنی روپیہ والا ، اور محنت تجارت میں کرنے والا لےلے، تو اس طرح سے عقد مضاربت صحیح اور درست ہےاور جو صاحب مال اپنے واسطے نفع معین کرلے کہ پانچ روپے یا دس روپے مثلاً میں لے لیا کرونگا باقی نفع تم لے جائیو تو یہ صورت مضاربت فاسد کی ہے طع شرکت ہے رواں نہیں چنانچہ تمام کتب فقہ ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہے اور صورت ثانیہ دلوافدینے میں غیر سے اپنی معرفت سے تو اس صورت میں دلوادینے والا محض اجنبی ہے اور جو شخص متوسط کسی طرح سے مستحق نفع کا نہیں ہو سکتا ،
كما لا يستحق الا جنبي نفعا والعقد كذا في العناية وغيرها.
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب