سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(506) بیع بالمضاربت کی تعریف کیا ہے؟

  • 7133
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-27
  • مشاہدات : 1310

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بیع بالمضاربت کی تعریف کیا ہے اور اس کے انعقاد کے مکمل شرائط کیا ہیں ہمارے یہاں غریب طبقہ کے لوگ مہاجن سے اس شرط پر ادھار لاتے ہیں کہ تیار کردہ مال پر  فی تھان آنہ یا دو آنہ کمیشن دیں گے پھر اپنا کاروبار کرتے ہیں مال کا مالک اپنی اصلی رقم کے ساتھ باہم معینہ منا فع لیتاہے گھاٹے اور نقصان سے اس کا کوئی مطلب نہیں کیا یہ صورت جائز  اور بیع بالمضاربہ سے ہے یا نہیں ؟

 (حمید اللہ محمدی گو پاگنج ،  ضلع اعظم گڑھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیع مضاربت کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص کی رقم ہو اور دوسرے کی محنت ہو،  صورت مرقو مہ بیع مضاربت نہیں ہے بلکہ دلالی ہے ،  (۲۶مارچ ۴۳ء؁)

مسئلہ:۔

 کوئی شخص کسی مفلس شخص سے یہ بات کہے کہ میں تجھ کو سو روپے اپنے پاس سے دیتا ہوں اس شرط پر کہ تو تجارت کر، اور چار آنے فی روپیہ مجھ کو نفع دینا، کسی سے اسی شرط پر دلوادے تو صورت اولیٰ میں دو حال سے خالی نہیں کہ یا قرض کے طریق سے دیا ہو سو روپیہ پھر اس میں چار آنے یا کم و بیش اپنے واسطے نفع ٹھہرالے تو یہ رباسود ہے ، كل قرض جرنفعا فهور بواكذافي الهداية وغيرها.اور یہ جو

 (توله كل قرض جرنفعا الخ حاصل ما قال الزيلغي انه ا خرجه الحارث عن ابي اسامة في سنده ابوالجهم في جز ءه المعروف عن علي مر فوعا وابن عدي في الكا مل من جابر وسند هما ضعيف وردء ابن ابي شيبةفي مصنفه حدثنا ابوا خالد الا حمر عن حجاج عن عطاء قال كانو ايكر هون كل قرض جرمنفعة انتهي نصب الراية جلد ۶ص۱۹۸ و في التلخص حديث ان النبي صلي الله عليه واله سلم نهي عن قرض جرمنفعة وفي رواية كل قرض جرمنفعة فهور با قال عمر بن بدر في المغني لم يصح فيه شئي واما امام الحرمين فقال انه صح و تبعهالغزالي وقد رواه الحارث بن ابي اسامة في مسند ه من حديث علي باللفظ الاول و في اسناده سوار بن مصعب و وهو متروك ورواه البيهي في المرفة عن فضالة نم عبيد موقوفا بلفظ كل قرض جرمنفعة فهو وجه من) .

بطور شرکت مضاربت کے سو روپے دیئے ہوں تو اس صورت میں نفع باخود ہا نصفا نصف مقرر کر لے ، یا دو ثلث رب المال اور ایک ثلث مضارب یعنی روپیہ والا ، اور محنت تجارت میں کرنے والا لےلے، تو اس طرح سے عقد مضاربت صحیح اور درست ہےاور جو صاحب مال اپنے واسطے نفع معین کرلے کہ پانچ روپے یا دس روپے مثلاً میں لے لیا کرونگا باقی نفع تم لے جائیو تو یہ صورت مضاربت فاسد کی ہے طع شرکت ہے رواں نہیں چنانچہ تمام کتب فقہ ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہے اور صورت ثانیہ دلوافدینے میں غیر سے اپنی معرفت سے تو اس صورت میں دلوادینے والا محض اجنبی ہے اور جو شخص متوسط کسی طرح سے مستحق نفع کا نہیں ہو سکتا ،

كما لا يستحق الا جنبي نفعا والعقد كذا في العناية وغيرها.

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

جلد 2 ص 453

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ