سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(495) غلے کی تجارت کے متعلق

  • 7122
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1114

سوال

(495) غلے کی تجارت کے متعلق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان کو غلہ کی تجارت نہ کرنی چاہیے اس سے ایمان بدل جاتا ہے یہ قول صحیح ہے یا غلط ؟  اور مسلمان غلہ فروشی کرنے کےشرعاً مجاز ہیں یا نہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کو غلہ کی تجارت جائز ہے منع ہوتی تو طبقہ اولیٰ کے مسلمان کیوں کرتے ،  حدیث شریف میں احتکار منع ہے احتکار کہتے ہیں غلہ بند ررکھنا جس سے لوگوں کو تکلیف ہو ، اور گراں بکے قدرتی موسمی کمی بیشی سے فائدہ اٹھانا منع نہیں۔

تشریح مفید

س:۔  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ تجارت غلہ کی عموماً حرام ہے یا نہیں زید کہتاہے کہ تجارت غلہ کی عموماً حرام ہے کیوں کہ وہ احتکار ہے اور احتکار حرام ہے آیا یہ قول زید کا صحیح ہے ہا نہیں ، بینواتوجروا۔

الجواب:۔  (رب ذدني علما) قول زید کا البطان ہے کیونکہ تجارت غلہ کی عموما ہر گز حرام نہیں ، اور نہ وہ احتکار ہے البتہ خرید نا غلہ وغیرہ کا جو قوت ہو آدمیوں کا یا بہائم کا گرانی میں تجارت کے لئے اور روک رکھتا اس کا تاکہ گرانی میں فروخت کیا جائے ،  احتکار ممنوع اور حرام ہے امام نوری منہاج و شرع صحیح مسلم بن الحجاج نمبر ۳۱میں فرماتے ہیں :۔  

قال اهل اللفة الخاطي بالهمزة هوا العاصي الاٰثم وهذا الحديث صريح صريح في تحريم الاحتكار قال اصحابنا الاحتكار المحرم هوا الاحتكار في الاقو ا ت خاصة و هوان يشتري الطعام في وقت الفلاء التجارة ولا يبيعه في الحال بل يد خره ليغلوا ثمنه انتهي.اور طیبی مرحوم شرح مشکوۃ المصابیح لکھتے ہیں،  الاحتكار المحرم هو في الاقوافت خاصة بان يشتري الطعام في وقت الفلاء ولايبيعه في الحال بل يد خره ليغلوا انتهي.اور مجلس الابرار میں مرقوم ہے قال رسول الله صلي الله عليه واله سلم من احتكرفهو خاطي هذاالحديث من صحاح المصابيح رواه عمرو بن عبدالله و معناه ان من يحبع الطعام الذي يجلب الي انبلاد يحيمه ليبيعه في وقت الغلاء فهو ءا ثم لتعلق حق العامة نه وهوبالحبس والا متناع عن البيع يريدالبطال حقم و تضييق الا مرعليهم وهو ظلم عام وصاحبه ملعون كما روي انه عليه السلام قال الجالب مرزوق والمحتكر ملعون فانه عليه السلام بين في هذا الحديث ان الذي يجئي الي البلاد و يحبسه ليبيعه في وقت الغلاءفهو ملعون بعيد من الرحمة ولا يحصل له البر كة مادام في ذلك الفصل انتهي و في مجمع البحار من  احتكرطعاما اي اشتراه وحبسه ليقل فيغلوا والحكرواالحكرة الا سم منه دفي موضع اخر من حتكرفهو خاطئي بالحز المحرم من الاحتكار ما هو في الاقوات وقت الفلاء للتجارة ويد خرللغلاء انتهي وفي الفتح فية اشعار بان الاحتكار انما ينتع في حالة مخصوصة انتهي.

اور اگر بازار سے خرید نہ کرے ،  بلکہ اس کی زمین کا ہو یا ارزانی میں خرید کرے لیکن اس کو روکے نہیں بلکہ فوراً بیچ ڈالے یا گرانی میں اس کو روکے لیکن تجارت مقصود نہ ہو بلکہ مصارف روز مرہ کے لئے اس نے مول لیا ہو یا جنس قوت بشر اور بہائم سے خارج ہو تو ان سب صورتوں میں تجارت مذکور حرام نہیں بلکہ جائز اور درست ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ امرتسری

 

جلد 2 ص 447

محدث فتویٰ

تبصرے