السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس سنار کے متعلق کہ جس کے ہاں سے اپنے گاہکوں کا سونا با وجود حفاظت و نگہداشت کے چوری گیا تھا اس کو گاہک یا وکیل گا ہک جس کا کہ سونا سنار کے ہاں سے چوری گیا تھا ، یوں سمجھا دے اور جھوٹ کہے کہ تو نے اگر میرے چوری شدہ سونے کی قیمت ادا کر دی ، تو میں بہت سی اشیاء تجھ سے بنواؤں گا یعنی آرڈر دلواؤں گا بایں طور سنار مذکور سے اپنے چوری شدہ سونے کے دام وصول کرنا جائز ہے یا نہیں ، بینوا تو جروا
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت میں اجیر، (کارکن ) دو قسم کے ہیں ایک اجیر خاص ، دوم اجیر مشترک مثلاً کسی شخص نے ایک دھوبی خاص اپنے لئے نوکر رکھا ہے دوسری قسم یہ ہے کہ دھوبی بہت سے لوگوں کے کپڑے دھونا ہے قسم اول سے کوئی نقصان اس کی لا پر واہی یابد دیانتی کے بغیرہو جائے تو اس پر تاوان نہیں ہوتا قسم دوم پر ہوتا ہے پس صورت مرقومہ میں سنار سے، ( جومشترک اجیر ہے ) گم شدہ سونے کا عوض لینا جائز ہے ہاں اس کو ارڈر کا طمع دینا ، دووجہیں رکھتا ہے ایک تو یہ کہ اس کو نیت سے کہتا ہے کہ معاملہ صاف رہے گا تو کا م بھی ملے گا ورگرنہ نہیں یہ بھی جائز ہے اور اگر محض دھوکہ دے کر اصل چیز وصول کرنا مقصود ہے تو ایسا کر نا ناجائز ہے بہر حال نیت پر موقوف ہے اس قسم کے معاملات کی بابت ایک ہی اصول ہے۔
اللَّـهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ ﴿٢٢٠﴾سورة البقرة..... اورحدیث میں ہے : اإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب