السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص زید عمر و کاملازم ہے عمرو نے اس کو سفر میں بھیجا اور کہا کہ ریل کے سفر کا ڈیوڑھے درجے کا ٹکٹ لینا اور آگے گاڑی کرایہ کر لینا زید نے تیسرے درجے کا ٹکٹ لیا اور گاڑی کے سفر میں پیدل گیا عمرو یعنی مالک سے کرایہ ڈیوڑھا نحبرایسا اور کرایہ گاڑی کا جو پیدل گیا تھا لیا چون کہ حکم تو آقا کا یہی تھا جو مجر ایسا مگر خرچ اتنا نہیں کیا کہتا ہے کہ میں نے پیدل تکلیف خود اٹھائی ہے میرا حق ہے اب شرع شریف کا کیا حکم ہے؟ (راقسم عبدالعد ، ساکن روالپنڈی )
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مالک نے کرایہ کا مالک اس کو نہیں بنایا بلکہ اس کرایہ کر استعمال کے لیے دیا ہے تاکہ وقت بھی کم ملے اور بعض صورتوں میں مالک کی عزت بھی اسی میں ہوتی ہے کہ اس کا نوکر عزت سے جائے اس لئے نوکر اگر اس کرایہ کو بچا کر اپنا لے تو مالک کی مرضی کے خلاف ہے ہاں اگر مالک اجازت دے توجائز ہے ورنہ نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب