السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم اپنا مال برابر دوسرے ملک میں جا کر تاجروں کے ہاتھ فروخت کرتے ہیں بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ روپیہ تاجر جلد نہیں دے سکتا جس کے سبب سے پندرہ بیس روز تاجر کے یہاں رہنا پڑتاہےاور اس کے یہاں کھانا بھی کھانا پرتاہے مولوی صاحبان کہتے ہیں کہ ان کے ہاں کھانا سود ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض لوگ اس کو سود کے مشابہ یا شبہ سود کہتے ہیں مگر دراصل یہ سود نہیں بلکہ اس حدیث کے تحت ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرض خواہ کو قرض سے ذیادہ دیا تھا اس قسم کا کھلانا تاجروں کے عرف عام میں داخل ہے۔
مفتی مرحوم نے جس حدیث کے پیش نثر یہ جواب تحریر فرمایا ہے وہ یہ ہے :۔
عن انس رضي الله تعالي عنه انه سئل عن الرجل يقرض احد کم قرضانا هدی اليه اوحمله علی الدانة فلاير كبها ولا يقبله الا ان يکو ن جری بينه وبينه قبل ذلک اخراجه ابن ماجه
’’حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے اس شخص کے بارے میں فتوی طلب کیا گیا جو اپنے بھائی کو کچھ مال بطور قرض دیتا ہے وہ بھائی اس کی طرف کچھ ہدایا و تحائف بھیجتا ہے اس کے جواب میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی کو کچھ قرض دے اور وہ مقروض اس کی طرف کچھ ہدیہ بھیجے یا اپنی سواری اس کے لئے پیش کرے تو وہ قرض دینے والا اس کی سواری پر نہ بیٹھے نہ اس کا ہد یہ قبول کرے ہاں اگر پہلے ہی سے ان میں آپس میں ایسا ہدیہ تحفہ لینے دینے کا دستور ہے اور اس قرض کی وجہ کو اس میں کچھ دخل نہیں‘‘ تو پھر کچھ ہرج نہیں ہے مفتی مرحوم کے لفظ عرف عام کا یہی مطلب ہے، (مؤلف)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب