السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شریعت نے طلاق کا اختیار مرد کو دیا ہے،ایک شخص ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا ہے، اس صورت میں اہل علم کی دوجماعتوں میں اختلاف چلا آرہا ہے۔ دونوں جانب اگر دلائل قریب قریب مساوی ہوں تو ایسی صورت میں شریعت کے طے شدہ نتیجہ پر خاوند اور بیوی کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ خود طے کرلیں کہ اگر خاوند ظالم ہے اور عورت جدائی چاہتی ہے تو جمہور کے مذہب پر عمل کیا جائے ۔ ( یعنی تین طلاقوں کو تین ہی نافذ العمل تصور کرتے ہوئے جدائی اختیار کرلیں) بصورت دیگر مصالحت اختیار کی جائے جوبہر صورت بہتر ہے ( یعنی دوسری جماعت کے دلائل کی روشنی میں ) اسے ایک طلاق رجعی سمجھ کر رجوع کرلیا جائے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایسی صورت میں، مصلحت کی خاطر ، خاوند اور بیوی کو شریعت کا اپنا اختیار ودیعت کرنا جائز ہوگا۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!شریعت میں طلاق مرد کا حق ہے،جو کسی صورت بھی عورت کو نہیں دیا جا سکتا،اسی طرح رجوع کرنا بھی مرد کا حق جو کسی صورت عورت کو نہیں دیا جا سکتا ۔یہ دونوں حق مرد کے پاس موجود ہیں وہ انہیں جب چاہے استعمال کرسکتا ہے ،خواہ عورت اس راضی ہو یا نہ ہو۔ اس کے برعکس عورت کو اللہ تعالی نے خلع کا حق دیا ہے ،وہ اگر کسی مرد کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو عدالت کے ذریعے خلع لے سکتی ہے۔ جب مرد اور عورت دونوں کے حقوق موجود ہیں تو پھر ہمیں مرد کا حق عورت کو دینے کی سعی ناکام کرنے کی کیا ضرورت ہے ،خصوصا جب شریعت اس کی اجازت بھی نہ دیتی ہو۔ اور ویسے بھی ایسے مساءل پیدا ہوجانے کے بعد باہمی رضا مندی سے ہی رجوع ہوتا ہے ،اگر عورت اپنے خاوند کے پاس واپس نہیں جانا چاہتی تو خلع لے لے،یا اگر عدت گزر جاءے تو دوبارہ نکاح نہ کرے،حق تو اس کے پاس بھی موجود ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابفتاویٰ ثنائیہجلد 2 |