سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(505) عورت،گدھا اور کتے کے گزر جانے سے نماز کا ٹوٹ جانا

  • 7058
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1805

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عورت،گدھا اور کتے کے گزر جانے سے نماز کا ٹوٹ جانا؟ برائے کرم یہ وضاحت فرمادیں کہ کیا گھر میں نوافل ادا کرنے کی صورت میں اگر سامنے سے ہماری ماں ،بہن یا بیوی گزر جائے تب بھی نماز ٹوٹ جائے گا۔ اس حدیث کا اصل مفہوم کیا ہے ۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

احادیث میں جو عورت، گدھا اور کالے کتے کاذکر ہے یہ وہ اشیا ہیں جو انسان کی نماز میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہیں۔ کیونکہ نمازی کے آگے سے ان اشیا کا گزرنا خشوع اور خضوع کو مٹانے کے مترادف ہے۔ یہی حدیث کا مقصود ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

''وتاٴول ھولاء حدیث ابی ذر رضی اللہ عنه علی ان المراد بالقطع نقص الصلاة لشغل القلب بھذہ الاشیاء ولیس المراد ابطالھا''(شرح مسلم، ج۴، ص۲۳۰)

''یعنی جو حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ کی ہے اس سے مراد نماز میں کمی ہونے کے ہیں (کیونکہ ان اشیا کا گزرنا) شغل قلب کا باعث ہے، اور اس سے مراد نماز کا باطل ہونا نہیں ہے (بلکہ خشوع و خضوع میں فرق آنا ہے)۔''

امام شوکانی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:

''قال العراقی: واحادیث الباب تدل علی ان الکلب والمراة والحمار تقطع الصلاة، والمراد بقطع الصلاة ابطالھا، وقد ذھب الی ذالک جماعة من الصحابة منھم ابو هریرة، وانس، وابن عباس رضی اللہ عنهم'' (نیل الاوطار، ج۳، ص۱۷)

'' علاقہ عراقی فرماتے ہیں کہ جو احادیث اس باب پر دلالت کرتی ہیں کہ کتاب، عورت اور گدھا نماز کو قطع کر دیتے ہیں تو اس سے مراد نماز کا قطع ہونا (خشوع و خضوع میں) باطل ہونا ہے اور اسی طرف صحابہ کرام کی ایک جماعت گئی جن میں ابو ہریرہ ، انس اور ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین شامل ہیں۔''

اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ نمازی کے آگے مندرجہ بالا اشیا کا گزرنا نماز کو فاسد کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ہم غور کریں کہ ان اشیا کا ذکر کیوں کیا گیا ہے تو واقعی میں یہ اشیا نماز کو فاسد کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً

اگر آپ نماز ادا کر رہے ہیں اور کتا وہ بھی کالا آپ کے سامنے بھونکنا شروع کر دے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی نماز سے خشوع و خضوع جاتا رہے گا۔ اسی طریقے سے اگر آپ نماز کی حالت میں ہیں اور ایک عورت آپ کے سامنے سے گزر جائے تب بھی آپ کی نماز میں خلل واقع ہو سکتا ہے اور بعینہ یہی حالت گدھے کی ہے جب وہ اپنی بد صورت آواز سے ہنکے گا تو یقیناً نماز میں خلل اور خرابی واقع ہوگی۔

صفی الرحمن مبارکپوری فرماتے ہیں:

''واّما تخصیص المراة والکلب والحمار بالذکر فلیس معناہ ان غیرھا لا یقطع برکة الصلاة، والا لم یکن لتاثیم الرجل لاجل مرورہ بین یدی المصلی معنی ، بل لان ھذہ الثلاث مظان لوجود الشیطان وفتنتہ ، فیکون القطع من اجلھا ابلغ واشد وافظع، فقد روی الترمذی عن ابن مسعود مرفوعاً (ان المراة عورة فاذا خرجت استشرفھا الشیطان) وروی مسلم عن جابر مرفوعا ان المراة تقبل فی صورة شیطان وتدبر فی صورة شیطان وورد فی نھیق الحمار: انه ینھق حین یری الشیطان۔ اما الکلب فقد ورد فی ھذا الحدیث نفسه ان الکلب الاسود شیطان، وقف علم خبث مطلق الکلب بان الملائکة لا تدخل بیتا فیه کلب، وان من اقتنی کلبا۔ فیما لم یاذن فیه الشرع۔ انتقص من اجرہ کل یوم قیراطان۔ اما وصف الکلب الاسود بانه شیطان فلکثرة خبثه وشدة سوء منظرہ وفظاعته۔'' (منة المنعم شرح مسلم، ج۱، ص۳۲۸)

''اور جو ذکر میں تخصیص کی گئی ہے کہ عورت ، کتّا اور گدھا (نماز کو باطل کر دیتے ہیں) تو پس اس کا معنی یہ نہیں کہ ان تینوں اشیا کے علاوہ کوئی اور چیز نماز کی برکت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اگر یہ حکمتیں نہ ہوتیں (یعنی عورت، کتا اور گدھا کے گزرنے کی) تو مرد کے لیے کوئی گناہ نہ ہوتا۔ بلکہ یہ تینوں چیزیں شیطان کے وجود اور فتنہ کی جگہیں ہیں۔ تاکہ (نماز) ختم ہو جائے اور شیطان کی وجہ سے سخت پریشان ہو جائے۔ ترمذی نے ابن مسعود سے مرفوعاً بیان کیا ہے کہ عورت یقیناً پردے کی جگہ ہے اور جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کی طرف اشارہ کرتا ہے ، اور مسلم میں جابر بن عبداللہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ یقیناً عورت جب آتی اور جاتی ہے شیطان کی صورت میں، اور گدھے کے ہینگنے کے بارے میں بھی موجود ہے کہ وہ شیطان کو دیکھ کر اپنی آواز نکالتا ہے (ہینگتا ہے) اور جہاں تک کتے کے بارے میں ہے تو حدیث میں کالے کتے کے ساتھ یہ مخصوص ہے ۔ کیونکہ کالے کتے کو شیطان کہا گیا ہے۔ یقیناً کتے کا مطلب خبث ہونا موجود ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتے ہوں یا جس نے کتے کو پالا ہو اس کے بارے میں شریعت نے اجازت مرحمت فرمائی ۔ (بلاوجہ کتا پالنا شریعت میں اس کی رخصت نہیں)''

شبیر احمد عثمانی ''فتح الملھم'' میں فرماتے ہیں:

''المراة بالقطع فی حدیث الباب قطع الوصلة بین العبد وبین الرب جل جلاله لا ابطال الصلاة نفسھا'' (فتح الملھم شرح صحیح مسلم، ج۳، ص۳۳۴)

ترجمہ: ''یعنی نماز ختم کرنے کا جو یہاں مقصد ہے اس حدیث کے باب میں تو قطع سے مراد بندے اور رب کے درمیان رابطہ کا انقطاع ہے اور نماز کا اپنی ذات کے اعتبار سے باطل ہونا مراد نہیں۔''

امام قرطبی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:

''یقطع الصلاة المراة والحمار، فان ذالک مبالغہ فی الخوف علی قطعھا وافسادھا بالشغل بھذہ المزکورات، وذالک ان المراة تفتن ، والحمار ینھق، والکلب یروع فیتشوش المتفکر فی ذالک حتی تنقطع علیه الصلاة وتفسد''

(المفھم شرح مسلم ، ج۲، ص۱۰۹)

ترجمہ: ''یعنی نماز کا قطع ہونا عورت اور گدھے کی وجہ سے تو یہ مبالغہ ہے اس سبب کہ نماز کا قطع ہونا اور اس کی بنیاد کی وجہ سے ان اشیا کے شغل کے سبب ، کیونکہ عورت فتنہ میں ڈالتی ہے اور گدھے کا ہینگنا (وہ بھی خرابی کا باعث بنتا ہے) اور کتا ڈراتا ہے نمازی کو یہاں تک کہ اسے تشویش میں ڈالتا ہے حتی کہ اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے یا (خشوع و خضوع میں )بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔''

جلال الدین سیوطی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں:

''وان المراد بالقطع فی الحدیث نقص الصلاة یشغل القلب بھذہ الاشیاء''

(الدیباج، ج۱، ص۶۴۰)

ترجمہ: ''یہ کہ نماز کا قطع سے مراد یہاں حدیث میں نماز کی کمی ہے کیونکہ دل ان اشیا کی وجہ سے شغل میں پڑ جاتا ہے۔''

الحمدللہ بات عیاں ہوئی کہ ان تین اشیا کا جو ذکر احادیث صحیحہ میں موجود ہے آخر اس میں کیا حکمت ہے۔ اس کی حکمتین دوسری احادیث نے مترشح کر دیں کہ ان کا اصل سبب (نماز کا خراب ہونا) شیطان کے عمل دخل کی وجہ سے ہے ۔ کیونکہ جب بندہ صلاة کو ادا کرتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اور شیطان کا کام ہی بندہ کا تعلق رحمٰن سے توڑنا ہے۔

باقی رہا محارم رشتہ داروں کے گزرنے کا تو اس حوالے سے شیخ ابن باز سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

" الحديث المذكور عام ، يعم الأم والأخت والبنت والزوجة وغيرهن ، لعدم ما يدل على التخصيص " انتهى .

"مجموع فتاوى ابن باز" (29 /332) .

یہ حدیث عام ہے ،جو ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی وغیرہ سب کو شامل ہے۔اس میں کسی کی تخصیص نہیں ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ ثنائیہ

جلد 2 

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ